پنجاب پبلک لائبریری کا شمار اس خطے کی قدیم ترین لائبریریوں میں ہوتا ہے ۔ یہ لائبریری 1884ء میں لاہور میں قائم ہوئی اور پاکستان کی چند بڑی لائبریریوں سے ایک ہے۔ آج کل انفارمیشن ٹیکنالوجی کی بے پناہ مقبولیت اور انٹرنیٹ پر کلی انحصار نے لائبریریوں سے استفادہ کرنے والوں کی تعداد کو کافی متاثر کیا ہے ۔
ان حالات میں لائبریروں سے متعلق محکموں کو فعالیت ضرروی ہو گئی ہے ۔اس حوالے سے گزشتہ دنوں پنجاب پبلک لائبریری کی انتظامیہ کو خبروں میں دیکھ کر میرا تجسس مزید ہوا۔
خبروں میں بتایا گیا تھا کہ اس لائبریری کے چیف لائبریرین کے عہدے پر بطور قائم مقام تعینات افسر اور ڈائریکٹر جنرل پبلک لائبریریز نے گریڈ 17کے پانچ جبکہ گریڈ 9کے کے لیے چار نئی بھرتیاں کی ہیں ۔
خبر کے مطابق یہ بھرتیاں ایک ایسے وقت میں کی گئیں جب سیکریٹری آرکائیوز اینڈ پبلک لائبریریز ایک واضح حکم نامے کے ذریعے ان بھرتیوں پر پابندی لگا چکے تھے۔ اس خبر میں بتایا گیا تھا کہ بہت سے امیدوار حالیہ بھرتیو ں کے عمل کی شفافیت پر سوال اٹھا رہے ہیں۔
ہوا یوں کہ پنجاب پبلک لائبریری کے چیف لائبریرین کے نام سے 22 ستمبر کو اخبارات میں 9خالی آسامیوں کے لیے اشتہار شائع ہوا جن میں سے پانچ گریڈ 17کے لائبریرین اور چار گریڈ 9کے لائبریری اسسٹنٹ شامل تھے ۔ اشتہار میں لائبریرین کے لیے لائبریری سائنس میں سکینڈ ڈویژن ماسٹرز جبکہ اسسٹنٹ کے لیے سیکنڈ ڈویژن میں انٹرمیڈیٹ کے ساتھ لائبریری سائنس کے ڈپلومے کی شرط رکھی گئی۔
اس کے بعد سیکریٹری آرکائیوز اینڈ لائبریریز کی جانب سے ڈائریکٹر جنرل پبلک لائبریری(سیکریٹری بورڈ آف گورنر پنجاب پبلک لائبریری) اور قائم مقام چیف لائبریرین(ڈپٹی ڈائریکٹر) کے نام ایک خط لکھا گیا جس میں مستقل چیف لائبریرین کی تعیناتی تک مذکورہ آسامیوں پر بھرتیاں روکنے کا حکم تھا لیکن ڈی جی ڈاکٹر ظہیر اور ڈپٹی ڈائریکٹر(قائم مقام چیف لائبریرین) محمد توفیق نے 14اور 15 نومبر کو شارٹ لسٹ کیے گئے امیداروں کے انٹرویوز کیے ۔
خیال رہے اس قدر جلد بازی صرف گریڈ 17کی پوسٹوں کے لیے دکھائی گئی۔ اطلاعات کے مطابق پیر اور منگل کے روز انٹرویوز کیے گئے اور جمعہ اور ہفتے کے دن پانچ منتخب امیدواروں کو نئی پوسٹوں پر حاضر کر لیا گیا۔
انتہائی جلدی میں کی گئی ان بھرتیوں پر کئی نوعیت سے سوال اٹھائے جارہے ہیں ۔ پہلا سوال تو یہ پوچھا جا رہا ہے کہ لائبریری کے قائم مقام چیف اور ڈی جی نے اس سارے عمل میں معمول کے قواعد وضوابط کو کیوں نظر انداز کیا۔ سرکاری اداروں میں ملازمتوں کے امیدواروں کو منتخب ہونے کے بعد ان کے گھر کے پتے پر آفر لیٹر جاری کیے جاتے ہیں لیکن یہاں اس کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی ۔
ذرائع کے مطابق جب پانچ افراد کے بارے طے پا چکا تھا انہیں فون کر کے بلایا گیا ۔ دوسرا سوال یہ اٹھایا جا رہا ہے کہ سرکاری ملازمتوں کے لیے کسی ڈی ایچ کیو یا سروسز ہسپتال کی میڈیکل رپورٹ جمع کروانی ہوتی ہے لیکن یہاں ڈی جی ڈاکٹر ظہیر نے امیدواروں کو کہا کہ وہ کسی بھی ایم بی بی ایس ڈاکٹر سے رپورٹ لے آئیں ۔
تیسرا سوال یہ ہے کہ امیدوار سے متعلقہ پولیس اسٹیشن سے چال چلن کا سرٹیفیکٹ بھی طلب کیا جاتا ہے لیکن یہ بھی نہیں مانگا گیا حتٰی کہ متعلقہ اداروں سے تعلیمی اسناد کی تصدیق تک نہیں کروائی گئی ۔ ایک خبر سے جنم لینے والے ان اعتراضات کا اگلے دن لائبریری انتظامیہ کی جانب سے جواب دیا گیا ۔ پنجاب پبلک لائبریری سے ایک کاغذ کے پرچے کے ذریعے اخبارات کو بتایا گیا کہ ’’لائبریری ایک خود مختار ادارہ ہے ، اس کے تمام امور بورڈآف گورنرز چلاتا ہے ، بھرتیاں بورڈ کے حکم پر پالیسی کے مطابق ہوئی ہیں اور امیدواروں کو کال لیٹر بھی جاری کیے گئے ہیں ۔‘‘
کال لیٹر کے بارے میں سوالات تو ایک جانب امیدواروں کا کہنا ہے کہ بھرتی ہونے والوں کو آفر لیٹر نہیں بھیجے گئے۔ اگر یہ غلط ہے تو لائبریری انتظامیہ کو چاہئے کہ ان مراسلوں کے ٹی سی ایس ٹریکنگ نمبرز یا پھر پوسٹل رجسٹریشن نمبر ز سامنے لائے جائیں ۔ پنجاب پبلک لائبریری کے ایک اہلکار کے مطابق لائبریری کی جانب سے بھیجی گئی وضاحت میں چیف لائبریرین یا ڈی جی کا نام تک درج نہیں تھا ، صرف ایک دستخط شدہ مہر پر اکتفاء کیا گیا تھا ۔اس کے علاوہ اس کاغذ پر ڈائری نمبر یا ڈسپیچ نمبر بھی نہیں تھا ۔ سوال یہ ہے کہ اگر سب کچھ اتنی شفافیت سے ہوا ہے تو چیف لائبریرین یا ڈی جی اپنا نام لکھنے سے کیوں کترا رہے ہیں حالانکہ خبر میں انہی کو اس ساری مبینہ بے قاعدگی کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے ۔
یہاں یہ خیال رہے کہ پنجاب پبلک لائبریری ایک عرصے سے مستقل چیف لائبریرین سے محروم ہے ۔ اس وقت محمد توفیق (جو کہ گریڈ 18کے ڈپٹی ڈائریکٹر ہیں )کے پاس چیف لائبریرین اور ڈائریکٹر کا اضافی چارج ہے ۔اس سے قبل جون میں پنجاب پبلک سروس کے ذریعے ایک اشتہار بھی اخبارات میں شائع کیا گیا تھا جس میں چیف لائبریرین کے عہدے کے لیے درخواستیں طلب کی گئیں تھی لیکن بعد میں نامعلوم وجوہات کی بنیاد پر یہ بھرتی بھی روک دی گئی تھی ۔
سوال یہ ہے کہ پاکستان میں کیا کوئی ایسا اہل آدمی نہیں بچا جسے اس اہم اور قدیم لائبریری کا سربراہ لگایا جاسکے ۔ کیا اس قسم کے اشتہارات شائع کر کے منسوخ کر دینا امیدواروں کے ساتھ سنگین مذاق نہیں ہے؟ اس سے قبل 2013ء میں پنجاب پبلک سروس کمیشن کی جانب سے جاری کیے گئے ایک اشتہار میں چیف لائبریرین اور ڈپٹی ڈائریکٹر کی آسامیوں کے لیے درخواستیں طلب کیں گئیں ۔ موجودہ ڈی جی ظہیر احمد اس سے کچھ عرصہ قبل یہاں تعینات کیے گئے تھے ۔
اس اشتہار میں ڈی جی کے لیے لائبریری سائنس میں پی ایچ ڈی کے علاوہ اسی شعبے میں 15تجربہ لازمی قرار دیا گیا تھا ۔ یہ بھرتی بھی رکوا دی گئی اور ڈی جی کے عہدے پر ڈاکٹر ظہیر کو برقرار رکھا گیا جو نہ تو لائبریری سائنس میں پی ایچ ڈی کی ڈگری رکھتے ہیں اور نہ ان کے پاس اس شعبہ میں پندرہ سال کا مطلوبہ تجربہ ہے ۔ اس لیے ان کی اس عہدے پر اتنے عرصے سے موجودگی اور پوسٹ پر اہل شخص کی بھرتی روکے جانے سے کئی طرح کے شکوک شبہات پیدا ہوئے ہیں۔
اس سارے معاملے میں جب امیدواروں سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ یہ بھرتیاں جن قواعد کے تحت ہوئی ہیں وہ اس سے قطعی لاعلم ہیں ۔ایک امیدوار کاشف نے بتایا کہ وہ چھ سالہ تجربے کے حامل ہیں جن میں سے چار سال پبلک لائبریری کا تجربہ ہے اور وہ اپنے شعبے میں گولڈ میڈلسٹ بھی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ انٹرویو کس criteriaکے تحت ہوئے ،یہ کوئی نہیں جانتا ، ہاں اتنا معلوم ہے کہ بلائے گئے لوگوں میں سے کچھ کا سی جی پی اے 2.5بھی تھا جبکہ ان سے زیادہ تجربے اور نمبروں کے حامل لوگ نظر انداز کر دیے گئے۔
ایک اور امیدار ریاض کا کہنا ہے کہ ان کے پاس چار سال پبلک لائبریری میں کام اور آٹو میشن کا تجربہ ہے اور ان کی بی اے میں فرسٹ ڈویژن ہے جبکہ ماسٹرز میں وہ 3.16جی پی اے کے حامل ہیں لیکن انہیں بھی انٹرویو کے لیے نہیں بلایا گیا ۔ ریاض نے بتایا کہ انہی کا ایک کلاس فیلو جس کا سی جی پی اے 2.67ہے ، اسے انٹرویو میں بلا لیا گیا حالانکہ اس کا تجربہ بھی بہت کم ہے۔ انہوں نے خفیہ پراسس کے ذریعے کی گئی ان بھرتیوں کو منسوخ کرنے اور پبلک سروس کمیشن کے ذریعے ازسر نو امتحان لینے کی اپیل کی ہے ۔
ایک خاتون امیدوارآسیہ کا کہنا ہے کہ لائبریری انتظامیہ کا یہ دعویٰ کہ انہون نے فرسٹ ڈویژن کے حامل افراد کو انٹریوز کے لیے بلایا درست نہیں ہے ۔ ایسے لوگ بھرتی کیے گئے جو بہت جونئیر ہیں اور ان کا تجربہ بھی بہت کم ہے ۔
اس کے علاوہ لائبریری کے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ایک خاتون امیدوار جو دو ماہ قبل گریڈ سولہ کی ملازمت کے لیے پبلک سروس کمیشن کے انٹرویو میں فیل ہو چکی تھی ،وہ بھی گریڈ17کے لیے نئے منتخب کیے گئے ان پانچ افراد میں شامل ہے ۔
اس مسئلے کو لے کر جب سیکریٹری آفس میں سیکشن آفیسر ساجدہ نصرت سے رابطہ کیا گیا تو ان کاموقف تھا کہ ’’ہم نے ڈی جی کو بھرتیاں روکنے کا واضح حکم (11نومبر کو)دیا تھا لیکن ہمیں نہیں معلوم کہ کس بنا پر نئی تقرریاں کی گئیں ۔انہوں نے اس امکان کا اظہار کیا کہ شاید ڈی جی جو بورڈ آف گورنر کے سیکریٹری بھی ہیں نے کسی اعلیٰ اتھارٹی سے ’زبانی‘ اجازت لی ہو، تاہم کچھ کہا نہیں جا سکتا۔
بھرتیوں کے بعد جوائننگ کے لازمی قانونی تقاضے نظر انداز کیے جانے سے متعلق سوال کا جواب دیتے ہوئے ساجدہ نصرت نے کہا کہ وہ جمعہ اور ہفتہ کو چھٹی پر تھیں ، اس لیے اس حوالے سے وہ کچھ نہیں جانتیں۔
اس ساری صورت حال میں سوال یہ ہے کہ اگر پنجاب پبلک لائبریری انتظامیہ کے بقول یہ خود مختار ادارہ ہے تو پھر سیکریٹری نے بھرتیاں روکنے کا حکم کیوں دیا تھا ؟ کیا گریڈ 17کی ان ملازمتوں کے لیے دیگر سرکاری ملازمتوں سے مختلف ضوابط ہیں؟
اس سارے معاملے میں اس وقت متاثرہ امیدوار، بھرتیوں کے ذمہ دار افسران آمنے سامنے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ لائبریری انتظامیہ محض ذرائع ابلاغ کے ذریعے تعریفی خبریں شائع کرانے پر اکتفاء کرتی ہے یا پھر واضح دلائل کے ساتھ اسے سارے عمل کی شفافیت ظاہرکرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔
یہ خبر پہلے روزنامہ ایکسپریس میں شائع ہوچکی ہے .