نیا انکشاف یا نئی سیاسی چال ؟

علی یحییٰ اس دنیا میں نہیں رہے ۔اگر زندہ ہوتے تو امریکی جریدے ’’اٹلانٹک ‘‘ میں ہنری کسنجر کے انٹرویو میں کئے گئے دعوے کا جواب دینے کیلئے مجھے ضرور فون کرتے۔

سابق امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر نے ’’اٹلانٹک‘‘ کے چیف ایڈیٹر جیفری گولڈ برگ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ نومبر 1971ء میں پاکستان کے فوجی صدر جنرل یحییٰ خان نے امریکہ کے صدر رچرڈنکسن سے وعدہ کیا تھا کہ اگلے سال مارچ تک مشرقی پاکستان کو آزادی دے دی جائے گی ۔ کسنجر کے اس دعوے نے بہت سے سوالات کو جنم دیا ہے ۔

اگر یحییٰ خان نے نکسن سے واقعی یہ وعدہ کر رکھا تھا تو انہوں نےشیخ مجیب الرحمان کو میانوالی جیل میں کیوں بند رکھا ؟ذوالفقار علی بھٹو کو پاکستان کا صدر اور مار شل لاء ایڈمنسٹریٹر بنا کر شیخ مجیب کے ساتھ آخری وقت تک پاکستان کا وجود قائم رکھنے کیلئے بات چیت کیوں کرائی؟

اگر امریکہ واقعی پاکستان کی تقسیم کا حامی تھا تو امریکی سفارتکاروں نے کلکتہ میں بنگلہ دیش کی جلاوطن حکومت کے وزراء کے ذریعے مجیب اور یحییٰ خان میں مفاہمت کیلئے خفیہ کوششیں کیوں کیں ؟

امریکی دفتر خارجہ کا خفیہ ریکارڈ سامنے آ چکا ہے۔اس خفیہ ریکارڈ پر کئی کتابیں لکھی جا چکی ہیں۔اگر یحییٰ خان نے نکسن کو کوئی خفیہ یقین دہانی کرائی تھی تو اس کا دستاویزی ثبوت سامنے لانا ضروری ہے ۔

مجھے یحییٰ خان کے اکلوتے صاحبزادے علی یحییٰ کے ساتھ ان کے گھر میں ہونے والی کئی بحثیں یاد ہیں۔وہ اپنے والد کی ہر غلطی کا دفاع نہیں کرتے تھے بلکہ یہ کہتےتھے کہ پاکستان توڑنے کی ذمہ داری صرف ان کے والد پر نہ ڈالی جائے۔

میں ان کے والد کا ناقد تھا ایک دفعہ میں نے کسی کالم میں جسٹس محمد منیر کی کتاب ’’فرام جناح ٹو ضیاء‘‘کا حوالہ دیا جس میں جسٹس منیر نے لکھا تھا کہ جنرل ایوب خان 1962ءمیں بنگالیوں سے جان چھڑانا چاہتے تھے اور جسٹس منیر نے ایوب خان کے کہنے پر وفاقی وزیر قانون کی حیثیت سے کچھ بنگالی سیاست دانوں سے علیحدگی یا کنفیڈریشن کیلئے بات چیت شروع کی لیکن بنگالیوں نے پاکستان سے علیحدگی کو خارج ازامکان قرار دیدیا۔

اس کالم کے بعد علی یحییٰ نے مجھ سے رابطہ کیا انہیں جسٹس منیر کی کتاب چاہئے تھی میں نے اس کتاب کی فوٹو کاپی کروا کر انہیں دیدی۔پھر انکے ساتھ ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوا جو 2012ء میں انکے انتقال تک جاری رہا۔انہوں نے اپنے والد کے ہاتھ سے لکھی ہوئی کئی تحریریں مجھے دیدیں۔کئی ٹیپ شدہ بیانات اور انٹرویوز سنوائے وہ یہ تسلیم کرتے تھے کہ ایوب خان کے دور میں بنگالیوں سے جان چھڑانے کی باتیں ہوتی تھیں لیکن ان کے والد اس خیال سے متفق نہیں تھے۔

اسی لئے ہنری کسنجر کا انٹرویو پڑھ کر مجھے علی یحییٰ یاد آئے تاہم اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ 16دسمبر 1971ء کو قائد اعظمؒ کا پاکستان دولخت ہو جانے کے سانحے کے پیچھے ایسے کئی راز ہیں جو ابھی تک نہیں کھلے۔کچھ حقائق تاریخ کے اوراق میں محفوظ ہیں لیکن پاکستان اور بنگلہ دیش میں حب الوطنی کے ٹھیکیدار ان حقائق کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہیں ۔

ایک بنگالی صحافی بی زیڈ خسرو نے امریکی دفتر خارجہ کی دستاویزات کی روشنی میں ’’بنگلہ دیش لبریشن وار ‘‘ کے نام سے کتاب لکھی جو بھارت میں شائع ہوئی ۔اس کتاب میں دستاویزی حوالوں سے لکھا گیا ہے کہ امریکی صدر نکسن مشرقی پاکستان کی مغربی پاکستان سے علیحدگی کے مخالف تھے۔ وہ بنگالیوں کو پاکستان کے اندر رہتے ہوئے صوبائی خودمختاری دلوانے کے حامی تھے اور نکسن کی اس پالیسی کے باعث شیخ مجیب الرحمان نے مکمل آزادی کا مطالبہ نہیں کیا۔

اس کتاب میں کہا گیا ہے کہ شیخ مجیب اپنے سیاسی استاد حسین شہید سہروردی سے بہت متاثر تھے جو کہا کرتے تھے کہ مشرقی بنگال میں ایک آزاد ریاست بھارت کی کالونی بن کر رہ جائےگی۔یہی وجہ تھی کہ جب 28فروری 1971ء کو امریکی سفارتکار فارلینڈ نے ڈھاکہ میں شیخ مجیب سے ملاقات کی تو وہ پاکستان سے علیحدگی کی بجائے کنفیڈریشن یا اس سے ملتے جلتے نظام میں متحدہ پاکستان کی بات کر رہا تھا۔

یہی حقائق شیخ مجیب کے قریبی ساتھی اور بنگلہ دیش کے پہلے وزیرخارجہ کمال حسین نے بھی اپنی کتاب میں لکھے ہیں لیکن آج بنگلہ دیش میں عوامی لیگ ان حقائق کو تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں ۔عوامی لیگ قومی مفاد کے نام پر سچ چھپانے لگی ہے۔

مارچ1971ءمیں فوجی آپریشن نہ ہوتا تو حالات نہ بگڑتے اور بھارت کو پاکستان پر حملے کا موقع نہ ملتا۔کمال حسین لکھتے ہیں کہ آپریشن سے پہلے ڈھاکہ میں جنرل یحییٰ خان اور شیخ مجیب کے درمیان ملاقات میں مارشل لاء ختم کرنے کا مطالبہ کیاگیا۔یحییٰ خان نے کہا کہ فوری طور پر مارشل لاء اٹھانے میں قانونی رکاوٹیں حائل ہیں کیونکہ مارشل لاء ختم کرنے سے پہلے نیا آئین بنانا ضروری ہے اور یہ کام منتخب اسمبلی کو کرنا ہے ۔طے پایا کہ عبوری آئین کا راستہ اختیار کیا جائے۔

کمال حسین نے یحییٰ خان کے ساتھیوں کے ساتھ عبوری آئین پر بات چیت شروع کر دی لیکن فوجی آپریشن شروع ہو گیا اور شیخ مجیب گرفتار کر لئے گئے۔شیخ مجیب کو میانوالی اور کمال حسین کو ہری پور جیل بھیج دیا گیا۔

یحییٰ خان نے کوشش کی کہ ایسا نظام بنا لیا جائے جس میں شیخ مجیب مشرقی اور بھٹو مغربی پاکستان کے وزیراعظم بن جائیں اور یحییٰ متحدہ پاکستان کے صدر بن کر بیٹھے رہیں لیکن 16دسمبر 1971ءکے سرنڈر کے بعد فوج کے نوجوان افسر یحییٰ خان کے خلاف ہو گئے۔

میجر جنرل ابوبکر عثمان مٹھا نے اپنی کتاب ’’بمبئی سے جی ایچ کیو‘‘ میں الزام لگایا ہے کہ جنرل گل حسن نے فوج کا سربراہ بننے کیلئے نوجوان افسروں کو یحییٰ خان کے خلاف بھڑکایا۔سینئر صحافی منیر احمد منیر نے اپنی کتاب ’’المیہ مشرقی پاکستان کے پانچ کردار‘‘ میں جنرل یحییٰ خان اور جنرل گل حسن کے انٹرویو شامل کئے ہیں۔

یہ دونوں انٹرویو پڑھ کر پتہ چلتا ہے کہ یحییٰ خان نے اپنی فوج کو ہتھیار ڈالنے کا نہیں بلکہ سیزفائر کا حکم دیا تھالیکن جنرل امیر عبداللہ نیازی نے جان بچانے کیلئے ہتھیار ڈال دیئے۔اس سرنڈر کے بعد پاکستانی فوج کے نوجوان افسروں نے یحییٰ سمیت کئی سینئر جرنیلوں کی رخصتی اور اقتدار سیاست دانوں کے حوالے کرنے کا مطالبہ شروع کر دیا جس کے بعد یحییٰ خان نے جلدبازی میں ذوالفقار علی بھٹو کو بیرون ملک سے بلا کر ناصرف صدر بلکہ چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بھی بنا دیا۔ایک سیاست دان کو مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بنانے کی وجہ یہ تھی کہ فوج جلد از جلد سیاست سے باہر نکلنا چاہتی تھی ۔

بھٹو نے بطور مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے شیخ مجیب کو میانوالی جیل سے رہائی دلوائی اور سہالہ ریسٹ ہائوس میں پاکستان کا اتحاد قائم رکھتے ہوئے شراکت اقتدار کا راستہ تلاش کرنے کی ضرورت پر زور دیا ۔

بھارتی صحافی کلدیپ نیئر نے شیخ مجیب کا ایک انٹرویو کیا جس میں مجیب نے کہا کہ 23دسمبر 1971ء کو بھٹو مجھے اسلام آباد میں ملا اور کہا کہ میں صدر پاکستان ہوں۔مجیب ہنسنے لگے اور کہا کہ اکثریت میرے پاس ہے صدر پاکستان مجھے ہونا چاہئے۔بھٹو نے شیخ مجیب کو کمال حسین کے ہمراہ لندن اور وہاں سے ڈھاکہ بھجوایا لیکن وہاں پہنچ کر شیخ مجیب نے آزادی کا اعلان کر دیا۔

مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بن کر بھٹو نے سب سے پہلے شیخ مجیب کو رہا کیا اور پھر عبوری آئین کی تشکیل شروع کی۔چند ماہ میں عبوری آئین بنا کر مارشل لاء ختم کر دیا اور پھر مستقل آئین بنایا۔مستقل آئین بنا کر لاہور میں اسلامی سربراہی کانفرنس کرائی اور شیخ مجیب کو 1974ءمیں لاہور بلوایا۔ اسی سال بھارت نے ایٹمی دھماکہ کر دیا ۔بھٹو نے بھی ایٹم بم کے پیچھے بھاگنا شروع کر دیا اور یہ دوڑ ان کی جان لے بیٹھی۔

امریکی سی آئی اے نے کس کس کو کیسے استعمال کیا آپ اچھی طرح جانتے ہیں۔ جس کسنجر نے یحییٰ خان کو بچانے کی کوشش کی اس نے بھٹو کو عبرت کی مثال بنانے کی دھمکی دے ڈالی۔اب کسنجر نے یحییٰ خان پر ایک نیا الزام لگا دیا ہے اس الزام کے حق میں کوئی ثبوت نہ آیا تو اسے ایک نئی سیاسی چال سمجھا جائے گا۔

بشکریہ: روزنامہ جنگ

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے