پاکستانی رومانوی فلم ’دوبارہ پھر سے‘ ایک عام انسان کی زندگی میں دوستی کے رشتوں کی اہمیت کی کہانی ہے۔
اے آر وائی فلمز کی جانب سے ریلیز کی جانے والی اس فلم کی ہدایات مہرین جبارنے دی ہیں جو اس سے قبل ایک آرٹ فلم ’رام چند پاکستانی‘ بھی بنا چکی ہیں۔ فلم کے نمایاں اداکاروں میں حریم فاروق، عدیل حسین، طوبیٰ صدیقی، علی کاظمی اور صنم سعید اور عتیقہ اوڈھو شامل ہیں۔
فلم جو کہیں کہیں طوالت کا شکار نظر آتی ہے اپنے اندر ایک کہانی لیے ہوئے ہے جس میں ایک لڑکی زینب (حریم فاروق) جس کی شادی کم عمری میں اپنے بچپن کے دوست ہوجاتی ہے اور جسے وقت گزرنے کے ساتھ احساس ہوتاہے کہ یہ شادی کامیاب نہیں ہوسکتی اپنے شوہر سے طلاق حاصل کرلیتی ہے۔ اس ہی دوران اس کی ملاقات حماد (عدیل حسین ) سے ہوجاتی ہے جو ایک لاابالی لڑکا ہونے کے ساتھ انتہائی حساس ہے اور زینب سے حقیقی محبت کرنے لگتا ہے۔ کہانی میں محبت کا مثلث بھی دکھایا گیا ہے جبکہ دوستی کی جذبے اور اس رشتے کی اہمیت کو بھی اجاگر کیا گیا ہے۔
دوبارہ پھر سے گو کہ ایک کمرشل فلم ہے لیکن کئی جگہ پر محسوس ہوتا ہے کہ طویل دورانیے اور بڑے بجٹ کی کوئی آرٹ فلم دیکھ رہے ہیں۔ فلم میں کل سات گانے شامل ہیں لیکن زیادہ تر گانے پس منظر میں ہیں۔ البتہ ’لڑگیاں‘ ایک شادی کا ڈانس نمبر ہے جسے آئٹم نمبر ہونے سے دوررکھا گیا ہے۔ فلم زیادہ تر امریکہ کے شہر نیویارک میں فلمائی گئی ہے جبکہ کچھ حصہ کراچی میں بھی ریکارڈ کیا گیا ہے۔
فلم کی کہانی مظبوط ہے لیکن طوالت اور غیرضروری سین ڈالنے کی وجہ سے کہیں کہیں بوریت کا احساس ہوتا ہے لیکن کہانی میں آخر تک سسنپس موجود ہے جو ناظرین کو فلم مکمل ہونے تک بٹھائے رکھتا ہے۔ فلم کا پہلا نصف زیادہ دلچسپ ہے جبکہ دوسرے نصف میں کہانی کو بلاوجہ طول دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ فلم کے سپنانسرز کو بلا ضرورت دکھانے کی کوشش کی گئی ہے۔ تکنیکی لحاظ سے بھی فلم اچھی ہے اور مناسب فریمنگ اور کیمرہ ورک سکرین کو پرکشش بنا رہا ہے۔ فلم کی موسیقی کا معیار بھی اعلیٰ ہے اور کہیں بھی بازاری قسم کے بول شامل نہیں ہیں۔
اداکاری میں علی کاظمی واسع اور طوبٰی صدیقی نتاشہ کے کردار میں سب پر بازی لے گئے ہیں۔ عدیل حسین کچھ مناظر میں اپنے کردار پر مکمل گرفت حاصل کیے نظر آئے جبکہ کہیں وہ اس گرفت کو چھوڑتے ہوئے دکھائی دیے۔ سینئر اداکاروں میں عتیقہ اوڈھو نے مختصر کردار میں متاثر کن اداکاری کی۔
مہرین جبار ہدایت کاری کی دنیا میں ایک جانا مانا نام ہیں جن کے پروفیشنلزم کا ذکر پاکستان سے باہر بھی کیا جاتا ہے۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ پہلی مکمل کمرشل فلم بناتے ہوئے انہوں نے ہاتھ تھوڑا ہلکا رکھا ہے۔ مہرین جبار کی صلاحیتوں پر کوئی شک نہیں اور امید ہے کہ اگر وہ کمرشل فلم پر کھل کر کام کرتی ہیں تو ایک بہترین کام تخلیق کرسکتی ہیں۔