انتظار فرمائیے

کیا آصف زرداری وطن واپس آئینگے، پاناما لیکس کے حوالے سے ن لیگ پر دبائو کم ہو گا یا بڑھے گا، نیوز لیکس کا معاملہ منطفقی انجام تک پہنچے گا، تحریک انصاف سپریم کورٹ کے فیصلے کی منتظر ہے اگر فیصلہ حق میں نہیں آیا تو تھرڈ امپائر کون بنے گا، کراچی کے سیاسی حالات اب بھی دھواں دھواں ہیں، ایم کیو ایم کے دونوں دھڑے اور مصطفیٰ کمال کی پی ایس پی کس رسی کو تھامیں گے، کیا پرویز مشرف کے سیاسی خواب تعبیر پائیں گے، بس یوں جانیں کے عسکری قیادت کی تبدیلی کے بعد ملکی سیاسی فضا انتظار فرمائیے کی کیفیت سے گزر رہی ہے

پوری پیپلز پارٹی یک زبان ہے کہ سابق صدر آصف زرداری کسی دبائو کے باعث بیرون ملک مقیم نہیں مگر اس سے آگے رائے تبدیل ہو جاتی ہے کیونکہ کوئی صحت کے مسائل کا دکھڑا سناتا ہے تو کوئی ذاتی مسائل و مرضی کا حوالہ دیتا ہے اور کوئی صرف آئین بائیں شائیں کر کے رہ جاتا ہے، جنرل راحیل شریف کی رخصت سے چند روز پہلے آصف زرداری کی وطن واپسی کا بیان درحقیقت فوری واپسی نہیں بلکہ یقینی رخصت کا اعلان تھا، اگرچہ آصف زرداری کی رضاکارانہ جلاوطنی سے پیپلز پارٹی کے کاروبار سیاست پر کوئی آنچ نہیں آئی مگر پھر بھی ان کی موجودگی مفاہمت و میثاق کے علاوہ بلاول، ن لیگ اور اگلی نسل کی قیادت کیلئے بھی تقویت کا باعث ہو گی، صرف اتنا ہی نہیں بلکہ یہ فیصلہ بھی کیا جا سکے گا کہ عابد شیر علی اور رانا ثنااللہ کو انہی کی زبان میں جواب دینے کے منصب پر کون فائز ہو، بہر کیف تیل اور تیل کی دھار دیکھ کر وطن واپسی کا باضابطہ اعلان کیا جائیگا

وفاقی وزیر اطلاعات کی نشست بھی ابھی تک خالی ہے، اگر انتظار فرمائیے کا نتیجہ حکومت کی توقعات پر پورا اترا تو جلد پرویز رشید نشست پر براجمان ہونگے، اب یہ نہ پوچھیئے گا کہ قومی سلامتی اور حساس رازوں کے افشا کے معاملات کا کیا بنے گا، تحقیقاتی کمیشن کیوں کچھوے کی چال سے پیشرفت کر رہا ہے، یہ سب سیاست کا حسن اور آپکا حسن ظن ہے، وزیر داخلہ بھی علاج کے بعد لندن سے واپس آ چکے ہیں ممکن ہے چند روز میں اس معاملے پر قوم کو تاخیر کے پیچیدہ رموز و اسرار سے آگاہ کریں، سچ پوچھیں تو مشیر اطلاعات اپنی جگہ مگر پرویز رشید کی کمی بہرحال محسوس ہوتی ہے

ہزار شیخ نے داڑھی بڑھائی سن کی سی
مگر وہ بات کہاں مولوی مدن کی سی

کراچی آپریشن سے امن عامہ کی صورتحال بہت بہتر ہوئی ہے، اگرچہ آپریشن پر متعدد سوالات موجود ہیں مگر اس کے باوجود کراچی کے عام شہریوں نے عرصے بعد سکون کا سانس لیا ہے، آپریشن توقع کے مطابق جاری رہے گا مگر سیاسی فضا دھوئیں کی دبیز چادر کے پیچھے چھپی ہوئی ہے، ایم کیو ایم، پاکستان اور لندن کے درمیان معلق ہے، صاف چھپتے بھی نہیں، سامنے آتے بھی نہیں والی کیفیت ہے، میئر کراچی وسیم اختر رہائی کے بعد سرگرم ہیں، فاروق ستار نے سلیمانی ٹوپی پہنی ہوئی ہے، عدالتی احکامات کے باوجود پولیس کو نہیں مل رہے، ایم کیو ایم لندن کے گرفتار رہنمائوں کی گرفتاری اور رہائی بھی ایک معمہ بنی ہوئی ہے، مصطفی کمال کی پی ایس پی گورنر عشرت العباد کی برطرفی کے بعد خمار آلود کیف سے گزر رہے ہیں، گویا کراچی کے آسمان پر شکوک و شبہات کے بادل گھرے ہوئے ہیں بارش کا انتظار ہے کہ دھند چھٹے تو کچھ منظر صاف ہو

اقتدار کا نشہ بھلایا نہیں جا سکتا وہ کہتے ہیں نہ چھٹتی نہیں ہے منہ کو یہ کافر لگی ہوئی، کمانڈو مشرف پاکستان کیوں آئے اور واپس کیسے گئے، دونوں سوالوں کے جوابات اسی پیج پر موجود ہیں جس پر سول و عسکری قیادت ہمیشہ موجود رہتی ہے، اب جب جنرل راحیل شریف رخصت ہوچکے ہیں تو عسکری برادری سے تعلق رکھنے والے جنرل ریٹائرڈ عبدالقادر بلوچ کا اشاراتی الزام سامنے آیا ہے کہ پرویز مشرف کی بیرون ملک روانگی کی پیچھے سابق آرمی چیف کا ہاتھ تھا، کاش یہ بات وہ جنرل راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ سے پہلے فرماتے تو قوم انکی راست گوئی اور جرات کو خراج تحسین پیش کرتی، مگر ریٹائرمنٹ کے بعد یہ الزام پیٹھ میں چھری بھونکنے کے مترادف ہی قرار پائیگا، خیر سے عبدالقادر بلوچ مسلم لیگ ن کے سرکردہ رہنما ہیں حیرت ہے کہ انکی پوری جماعت پرویز مشرف کو بیرون ملک بھیجنے کیلئے عدالتی حکم کو موجب قرار دیتی ہے اور یہ بھی کسی سے پوشیدہ نہیں کہ ن لیگ کا موقف شرمندگی چھپانے کے سوا کچھ بھی نہیں، بہرحال حقیقت یہ ہے کہ کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی کی دعا مانگنے میں کوئی حرج نہیں مگر عوام کو احمق سمجھنا عظیم سیاسی نادانی کے سوا کچھ نہیں

سرے محل کس کی ملکیت تھا، سیلاب زدگان کی امداد کیلئے دیا گیا بیگم طیب اردووان کا عطیہ ہیروں کا ہار کس کے گلے کی زینت بنا، این ایل سی اسکینڈل میں کس نے کتنا کمایا، اصغر خٰان کیس میں کس سیاسی رہنما نے آئی ایس آئی سے کتنی رقوم وصول کیں، جید سیاسی رہنما کیسے سڑک سے محل کا سفر طے کرتے ہیں، کون کتنا ٹیکس دیتا ہے اور پانامہ لیکس کیس میں لندن فلیٹس کی اصل حقیقت کیا ہے، یہ تمام معاملات بیشک عدالت میں طے نہ ہو سکے ہوں مگر عوام حیران کن طور پر پوری طرح واقف ہیں، سیاسی رہنمائوں کو اگر فرصت ملے تو کبھی عوام سے براہ راست پوچھ لیں، نائی، قصائی، کلرک، پروفیسر، بینکار، تاجر حتیٰ کہ خواتین خانہ تک حقیقت حال سے واقف ہیں، عرض یہ ہے کہ بیشک پارلیمان کو دھوکہ دے دیں، عدالت کی آنکھوں میں دھول جھونک دیں، میڈیا پر ڈھول بجا لیں، فائلیں گم کر دیں، ریکارڈ کو آگ لگوا دیں مگر براہ کرم عوام کو under estimate نہ کریں، آج کے دور میں تمامتر کوششوں کے باوجود عوام سے حقیقت چھپانا نا ممکن ہے، جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے والا عالم ہے

عوام سیاستدانوں کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں یہ کوئی راز نہیں، یہ بھی حقیقت ہے کہ روٹی، کپڑا اور مکان ہو یا عوامی خوشحالی کے دعوے، صرف نعرے ہی ثابت ہوئے ستر سال بعد بھی عوام جمہوریت کے ثمرات سے محروم اور بنیادی سہولیات کے منتظر ہیں، نہ پینے کا صاف پانی ہے، نہ صحت اور تعلیم جیسے بنیادی حقوق، بنیادی حقوق کی تو بات چھوڑیں حکومتیں تو عوام کو تحفظ تک دینے میں ناکام ہے اور ڈھٹائی سے اعتراف بھی کرتے ہیں، تو پھر بھلا عوام کیوں نہ برا بھلا کہیں سیاستدانوں کو، اب عام انتخابات سر پر ہیں ایک بار پھر سیاسی نوٹنکی کی تیاری کی جا رہی ہے، پھر وہی نعرے، وہی سبز باغ، روشن مستقبل کے منظر، عوام کے دکھ میں گھلتے سیاسی رہنما کبھی لاہور کو استنبول بنانے کی نوید سنائیں گے تو کوئی کراچی کو پیرس بنانے کو فارمولا آزمائے گا، وہی آزمودہ چہرے، وہی پرانے وعدے، اقتدار میں آنے کے بعد پھر کرپشن کی داستانیں اور شاہانہ انداز، یہ سب کچھ عوام کیلئے نیا نہیں، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ عوام انہی چہروں کو منتخب کرتے ہیں، سیاستدانوں کی قسمت تو بدل چکی، عوام کی قسمت کب بدلے گی، فیصلہ ووٹ نے کرنا ہے تو پھر انتظار فرمائیے

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے