جوتا صحافت

جب وہ سپریم کورٹ کے کمرہ عدالت نمبر ایک میں داخل ہو رہے تھے تو اس وقت انکے پاوّں لڑکھڑا رہے تھے، جیسے پائے نازک میں موچ آگئی ہو، پھر اگلے ہی لمحے انکے درچار قریبی ساتھی جو گزشتہ انتخابات میں برج الٹتے الٹتے رہ گئے تھے انکے جوتے اٹھائے کمرہ عدالت سے باہر آئے، معلوم ہوا کہ پشاوری چپل جو ہمیشہ کی طرح ان کو کسی کی جانب سے تحفے میں ملی تھی اسکی مرمت درکار ہے، ہم آٹھ رپورٹرز تھے ایک دوسرے کو مذاق کے انداز میں مخاطب کیا کہ تمھاری خبر بن گئی، سبھی نے خبر مذاق میں اڑا دی اور ٹی وی پر دینا مناسب نہیں سمجھا، سماعت ختم ہوئی اور وہ بھی عدالت کو بائیکاٹ کی دھمکی دے کر عدالت سے باہر نکلے، انکے ایک ساتھی نے جوتے نہیں پہنے ہوئے تھے، معلوم ہوا کہ جوتا قیادت کو ایک بار پھر تحفہ کر دیا ہے۔ بس پھر کیا تھا کہ بازی کے چکر میں ایک کے بعد ایک چینل نے بریکنگ نیوز دی، جس کے پاس نہیں تھی اس نے کسی دوسرے ساتھی سے مانگ کر دی اور جو نہیں دینا چاہتا تھا اس سے زبردستی دلوائی گئی اور یوں صحافت جوتے کی نوک پر رکھ دی گئی۔

کچھ دن پہلے بھی ایسا ہی ہوا، پانامہ کیس کی سماعت کے دوران وہ کمرہ عدالت سے باہر آئے، ٹکرز چلا دئیے گئے اور موبائل تھامے سیلفی اسٹک سے فوٹیج بناتے میرے دوست انکے آگے آگے الٹے قدموں چل رہے تھے کہ اچانک انکا رخ ٹائلٹ کی طرف ہوا اور وہ رفع حاجت سے فراغت پاکر واپس کمرہ عدالت میں پہنچ گئے اور یوں وہ بات جو ہم ایک دوسرے کیساتھ محاورتاً کرتے ہیں کہ وہ واش روم جائیں تب بھی انکی کوریج ہوتی ہے۔ وہ بات سچائی اور حقیقت میں تبدیل ہو گئی اور شاید صحافت کا تو جنازہ ہی نکل گیا۔

بم دھماکوں، دہشتگردوں کے خلاف کاروائیوں، حساس مقامات پر حملوں اور پولیس کاروائیوں کی براہ راست کوریج پر بے پناہ تنقید کا نشانہ بننے والے میڈیا نے اس سے بھی ایک قدم آگے بڑھاتے ہوئے کیمرہ مین کی جگہ رپورٹر کے ہاتھ میں سمارٹ فون تھما کر ان جگہوں کی بھی کوریج کا آغاز کر دیا ہے جہاں کیمرہ لے جانے کی اجازت نہیں تھی، پارلیمنٹ ہاوس میں قومی اسمبلی اجلاس کی کوریج ہو یا قائمہ کمیٹیوں کے اجلاس ، پارلیمانی رہنماوں کے اجلاس ہوں یا انکی پارلیمانی راہداریوں میں ہونے والی گفتگو، سپریم کورٹ کی عمارت کے اندر سیاسی راہنماوں کی آمد ہو یا مشاورت کے لیے غیر رسمی اکٹھ ،اب سبھی جگہوں پر کیمرے کی آنکھ سب کا پیچھا کرتی ہے اور خبر دینے والا رپورٹر اب کیمرہ مین بن کر دھکے مکے کھاتا کوریج کرتا ہےاور صحافت کو بام عروج پر پہنچاتا ہے۔

یہ سب کیوں ہو رہا ہے؟ اس کا ذمہ دار کون ہے؟ اس سے صحافت کو کیا فائدہ پہنچ رہا ہے؟ اسکا تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے۔ میں اپنے تجربے کی روشنی میں یہ کہ سکتا ہوں کہ جب میں نے صحافت میں قدم رکھا تو سیاسی سرگرمیاں عروج پر تھیں، فوجی آمر کے خلاف وکلا اور سیاسی جماعتوں کا احتجاج جاری تھا، لال مسجد آپریشن ہو رہا تھا اور ہم نو آموز کم و بیش دو سال میراتھون کوریج میں مصروف رہے اور اسکا نقصان یہ ہوا کہ اب دس بارہ سال صحافت میں گزار دینے کے باوجود ذرائع بنانا، سورس کا کھوج لگانا اور اس کے ساتھ لگے رہنا کسی نے سکھایا اور نہ ہمیں سیکھنے کا موقع ملا۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت شہر اقتدار میں اندر کی خبریں دینے والے چند ایک ہی رپورٹر ہیں باقی سب انہی کی خبروں کا فالو اپ کرکے اپنی دکانداری چمکاتے ہیں، جن میں راقم خود بھی شامل ہے اور ایونٹ کی تلاش میں رہتا ہے کیونکہ ہماری تربیت ہی ایونٹ رپورٹنگ کیلئے کی گئی ہے۔

اسی طرح اب جو لوگ میڈیا میں آ رہے ہیں انکو انکے موبائل کےزریعے کوریج کا پابند بنا دیا ہے، اور وہ اسی کو اپنا ہتھیار اور اپنی صحافت سمجھتے ہیں اور کل وہ بھی میری طرح پچھتا رہے ہونگے کہ ہمیں کسی نے کچھ سکھایا نہیں۔ یکے بعد دیگرے ہونے والی سیاسی، عدالتی اور حادثاتی سرگرمیوں نے انہیں تحقیقاتی صحافت کی طرف جانے نہیں دیا، اسکا بنیادی قصور وار چینلز کا ریٹنگ کا نظام اور اپنی اپنی خبر پر انحصار کے بجائے بھیڑ چال کی پالیسی ہے۔ اسکے ساتھ ساتھ ایک دوسرے سے آگے نکلنے ، سب سے پہلے خبر دینے اور بازی لے جانے کے فرسودہ رویے نے بھی صحافتی اقدار کا بیڑہ غرق کیا ہے، اب وقت آگیا ہے کہ صحافتی ادارے اور تنظیمیں نئے سرے سے خبر کی تعریف کا تعین کریں یا پھر خبرکی حقیقی تعریف کے مطابق ہی کوریج کرائیں بصورت دیگر حالات بتا رہے ہیں کہ صحافت کبھی جوتے کی نوک پر ہوگی تو کبھی کسی سیاسی رہنما کے پیچھے پیچھے واش رومز کے چکر کاٹ رہے ہونگے اور اپنے آپ کو مقدس اور معتبر سمجھنے والا رپورٹر کبھی موچی کے پاس جاکر کسی سیاسی رہنما کا مرمت ہوتا جوتا دکھا رہا ہو گا تو کبھی یہ خبر دے رہے ہونگے کہ فلاں صاحب غلطی سے زنانہ واش روم میں چلے گئے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے