سال 2016 کو اگر گمشدگیوں اور بازیابیوں کا سال کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ بازیاب ہونے والے افراد کے بڑے ناموں میں سابق وزیرِاعظم یوسف رضا گیلانی کے صاحبزادے علی حیدر گیلانی، سابق مقتول گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے فرزند شہباز تاثیر اور حال ہی میں مبینہ حراست سے رہا ہوکر اپنے گھر پہنچنے والے معروف سیاسی کارکن کامریڈ واحد بلوچ شامل ہیں۔
جبکہ گمشدہ ہونے والوں میں دیگر افراد کے ساتھ ساتھ ایم کیو ایم کے بھی متعدد کارکن شامل ہیں جو اگر بازیاب ہوتے ہیں تو یا وہ اپنی قیادت سے لاتعلق ہوجاتے ہیں یا اُن کے جسم کا روح سے تعلق ختم کردیا جاتا ہے۔
تعلق اور لاتعلقی سے یاد آیا کہ ماہِ دسمبر کا تعلق بھی ایک ایسے واقعے سے ہے جب مغربی اور مشرقی پاکستان کا آپس میں تعلق ختم ہوگیا تھا اور ہم نے آج اُن تاریخی حقائق سے اپنا تعلق ختم کرلیا ہے۔ ماضی سے لاتعلق ہوکر مستقبل سے جڑے رہنے کے خواب دیکھ رہے ہیں۔
اور اس کے ساتھ ساتھ وہی تعلق اور لاتعلقی والی غلطیاں دہرارہے ہیں۔ مختلف طبقوں میں احساسِ محرومی بڑھ رہا ہے۔ کمزور طبقوں کے حقوق غصب کئے جارہے ہیں۔ گذشتہ تین برسوں میں دیگر صوبوں کی عوام کے دلوں میں پنجاب کے خلاف نفرتوں میں اضافہ ہوا ہے۔
ظاہر ہے کہ اس میں پنجاب کی عوام کا کوئی قصور نہیں۔ پنجاب کے پِسے ہوئے طبقوں کے بھی وہی دکھ ہیں جو کہ دیگر صوبوں کی عوام کے دکھ ہیں۔ مزید یہ کہ قوم مختلف فرقوں اور قومیتوں کے علاوہ لبرل انتہا پسند اور مذہبی انتہا پسند گروہوں میں بھی تقسیم ہوچکی ہے۔ جو کہ بالخصوص سوشل میڈیا پر ایک واضح تقسیم نظر آتی ہے۔
فوج مخالف جذبات کے حامل افراد اور فوج کے حامیوں کے بھی علیحدہ علیحدہ گروہ دیکھنے میں آتے ہیں۔ فوج مخالف گروہ سے یہاں مراد وہ افراد ہیں جو فوج کی کسی بھی انداز میں سیاسی اور حکومتی معاملات میں مداخلت کے مخالف ہیں۔
یہ منظر نامہ طاہر کرتا ہے کہ اس معاشرے میں محض انسان ہی لاپتہ یا گم نہیں ہوتے بلکہ کچھ اور چیزیں بھی ہیں جو لاپتہ ہوجاتی ہیں یا کردی جاتی ہیں اور انہیں بازیاب کرنے کی ضرورت ہمیشہ رہتی ہے۔ مثال کے طور پر اس سال جمہوریت بھی لاپتہ ہوتے ہوتے بچی ورنہ اُسے بازیاب کروانے میں کئی برس لگ جاتے۔
جو آزاد اور ہمہ وقت دستیاب رہی وہ حسبِ روایت انتہا پسندی رہی۔ نفرت بے لگام رہی اور تعصب آزاد رہا۔ محبت کو بار بار قتل کیا گیا مگر وہ ہر بار دوبارہ زندہ ہوگئی۔ گروہی تقسیم فرقہ بندی اور قومیتوں میں بٹ جانے کے عوامل سے یہ اندازہ لگانا ممکن نہیں کہ ملک سے اتحاد بھی لاپتہ ہوچکا ہے۔
جہل سڑکوں پر دندناتا رہا جبکہ علم کو کئی بار ہتھکڑی لگائی گئی۔ احساسِ محرومی کا بڑھنا انصاف کی گمشدگی کی علامت ہے۔ ایک شخص کی موت کے بعد اُس کے مقدمے کا فیصلہ سنایا جانا اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ عدل قانون کی پیچیدہ بھول بلیوں میں گم ہوچکا ہے۔
ماضی کی غلطیوں کے دہرائے جانے کا عمل چیخ چیخ کر کہ رہا ہے کہ ہمارا اجتماعی شعور بھی لاپتہ ہوچکا ہے جسے بازیاب کروانے کی ضرورت ہے۔ سب سے بڑھ کر وہ جو اپنے قیام کے ایک سال بعد ہی لاپتہ ہوگیا تھا جس کی تلاش آج تک جاری ہے۔
جس کی تلاش میں مظلوم و محکوم عوام مختلف سیاسی پارٹیوں کے جلسوں میں پرچم تھامے نعرے لگاتی نظر آتی ہے۔ وہ جو عرصے سے گمشدہ ہے وہ ایک ایسے ہرن کی مانند ہے جو کسی اندھیرے جنگل میں راستہ بھٹک کر گم ہوگیا ہے۔
جس کا گوشت کبھی جمہوریت کے نام پر جاگیردار وڈیرے سردار اور چوہدری نوچتے ہیں کبھی اسلامی نظام اور سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ لگا کر کوئی آمر اُس پر حملہ آور ہوجاتا ہے۔ کبھی اُس کی ہڈیوں سے بچا کھچا گوشت نوچنے کے لئے آزادئ اظہار کے لبادے میں لپٹے زرد صحافت کے حواری گِدھ اُس پر منڈلانے لگتے ہیں۔
عوام اُسے چارہ کھلاتی رہتی ہے جس سے وہ پھر موٹا تازہ ہوجاتا ہے اور یہ سلسلہ دوبارہ سے شروع ہوجاتا ہے۔ بدقسمتی سے اس بھیانک جنگل میں شیر اور چیتوں کی بھی کمی نہیں اور بھیڑیے بھی قطار در قطار موجود ہیں جو اس معصوم ہرن کی نوچ پھاڑ میں مصروف رہتے ہیں۔
کچھ لوگ ہیں جو شیر کا شکاری ہونے کا دعویۤ کرتے ہیں مگر وہ ہمیشہ ہوائی فائرنگ کرنے کے بعد نعرہ لگاتے ہیں ” تبدیلی آگئی ہے”۔ ان شکاریوں کی نظریں بھی شیر کی بجائے اس مظلوم ہرن کے گوشت پر ہیں بلکہ ہرن کی ایک ٹانگ کے گوشت سے وہ لطف اندوز بھی ہورہے ہیں۔
سوال یہی ہے کہ اس اندھیرے جنگل میں لاپتہ ہوجانے والے مظلوم ہرن کو بازیاب کون کروائے گا؟ اور اس سوال کا بہتر جواب شاید یہی ہے کہ اس بے چارے ہرن کو وہی لوگ بازیاب کرواسکتے ہیں جو اسے چارہ کھلا کر پھر سے موٹا تازہ کردیتے ہیں۔ جس دن پاکستان بازیاب ہوجائے گا وہی روز اس معاشرے میں محبت، عدل، شعور، آگہی اور اتحاد کی بازیابی کا دن ہوگا۔