جوتے مارنے چاہییں

بارہ اپریل دو ہزار دس کا سانحہ ایبٹ آباد آج بھی یاد آتا ہے تو دل افسردہ ہو جاتا ہے۔۔ تحریک صوبہ ہزار ہ پلیٹ فارم سے شروع ہونے والی تحریک کے دوران ہزارہ ڈویژن کے باسیوں نے صوبے کا نام سرحد سے خیبر پختونخواہ رکھنے کو تعصب کی علامت قرار دیتے ہوئے ۔۔اس تعصب کا حصہ بننے کی بجائے صوبہ ہزارہ کا مطالبہ لے کر سڑکوں پر آنے کا فیصلہ کیا۔۔ وہ دلخراش واقعات دہرانا مقصد نہیں ۔۔ جس میں دس افراد پولیس کی فائرنگ کا نشانہ بنے ۔۔ بیشتر نے تڑ پ تڑپ کر سڑکوں پر موت کوگلے لگایا۔۔ سیکڑوں لوگ زخمی ہو کر اسپتالوں میں پہنچے۔۔ ایبٹ آباد اس ریاستی جبر کا مرکز تھا۔۔احتجاج کا سلسلہ ہری پور، مانسہرہ ، بٹگرام اور کوہستان تک پھیلا ہوا تھا۔۔۔اس وقت جو تحریک صوبہ ہزارہ کے سربراہ اور شہر شہر پریس کانفرنسیں کرتے پھر رہے تھے ۔۔ ان میں بابا حیدر زمان اور سردار یوسف سرفہرست تھے۔۔ گرچہ اس تحریک میں تمام ہی سیاسی جماعتوں کے مرکزی رہنما اور کارکن بلاتفریق سیاسی وابستگی شریک تھے۔۔۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ سب نے قدم کھینچ لئے۔

سردار یوسف تب مسلم لیگ ق کا حصہ تھے جب یہ تحریک شروع کی تھی پھر مسلم لیگ ن کا حصہ بنے تو پھر ان کی تحریک کا نظریہ بھی اقتدار کی غلام گردشوں میں جا کر دفن ہو گیا۔۔۔ وفاقی وزیر بننے کے بعد سردار یوسف نے ہزارہ صوبہ کے نام کو صرف مصلحتا یاد کیا ہو گا۔ مگر سچ یہ ہے ان کی ساری دلچسبی وزارت میں ہے۔۔اگر کیپٹن صفدر ، سردار یوسف ، عمر ایوب ، گوہرایوب، پیر صابر شاہ سمیت ہزارہ کے مسلم لیگ ن کے رہنما مخلص ہوتے تو مسلم لیگ ن کی وفاق میں حکومت آنے کے بعد صوبہ ہزارہ کی تحریک کو عملی جامہ پہنانہ کوئی مسلہ نہیں تھا ۔۔ خود وزیراعظم نواز شریف جب انتخابی مہم پر مانسہرہ آئے تھے تو جلسہ عام سے خطاب میں کہاتھاکہ صوبہ ہزاہ ہم بنائیں گے۔۔ اب ان کو بھی وہ وعدہ یاد نہیں رہا۔

اگر ہزارے والوں کا حافظہ کمزور نہ ہوتو سب کو یاد ہو گا کہ نواز شریف نے صوبے کے نام کی تبدیلی کے وقت بھی اے این پی سے سودا بازی کی تھی اور تیسری مرتبہ وزیراعظم بننے کے قانون میں ترمیم کی لالچ میں صوبے کانام تبدیل کروا دیاتھا۔۔ خود عوامی نیشنل پارٹی کا صوبے کانام تبدیل کرانے کا تعصبانہ اقدام صوبے کے عوام نے پسند نہیں کیا۔۔ اس کی سزا اے این پی کو دو ہزار تیرہ کے انتخابات میں مسترد کرکے دی گئی ۔۔ مگر عقل کے اندھوں کو بات سمجھ نہیں آئی کہ لوگ اپنے مسائل کاحل چاہتے تھے۔۔ صوبے میں کرپشن کاخاتمہ چاہتے تھے۔۔پنجاب کے برابر ترقی کے خواہش مند تھے۔۔ پختونوں کے نام پر انتخابی سٹنٹ بنانے کی خواہش نے اے این پی کی سیاست کو تقریباً ختم کر دیاہے۔

صوبہ ہزارہ بنے گا یا نہیں یہ بحث طلب موضوع ہے۔۔ مگر قابل افسوس اور قابل مذمت وہ قیادت ہے جس نے اپنی سیاست کیلئے تو ہزارہ میں آگ لگا دی ۔۔ جب سب نے پارٹیاں پکڑ لیں تو پھر یہ بات بھول گئے کہ جو تحریک انھوں نے شروع کی تھی عوام نے اس کی خون سے آبیاری کی ۔۔ بھولے اور جذباتی لوگ ان رہنماوں کو نجات دہندہ ، راہنما اور اپنا سب کچھ سمجھ بیٹھے تھے وقت نے ثابت کیا کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔۔۔ صوبے میں پی ٹی آئی کی قیادت نے بھی صوبہ ہزارہ کے معاملے میں مجرمانہ خاموشی اختیار کررکھی ہے۔۔ ایبٹ آبادسے رکن قومی اسمبلی اظہر جدون، صوبائی وزیر مشتاق غنی، سردار ادریس ، یوسف ایوب، قلندر لودھی سمیت پی ٹی آئی کے رہنما بھی صوبے کے مطالبہ کے حوالے سے خواب خرگوش کے مزے لے رہے ہیں۔

اگر خیبر پختونخواہ اسمبلی سے صوبہ ہزارہ کے حق میں قرارداد منظور ہو جاتی تو بال وفاق کے کورٹ میں آ جاتی مگر یہاں بھی سب تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی جی حضوری سے باہر نکلنے کو تیار نہیں ہیں۔۔ اگر پی ٹی آئی والے چائیں تو اب بھی صوبائی اسمبلی سے قراردادا منظور ہوسکتی ہے۔۔۔ اے این پی اور قومی وطن پارٹی شائد مخالفت کرے مگر امید کی جاتی ہے کہ مسلم لیگ ن مخالفت کرنے کی اخلاقی پستی میں نہیں گرے گی۔۔۔صوبہ ہزارہ کے نعرہ کو عملی شکل دینے کیلئے اب بھی اتحاد اور یکجہتی کی ضرورت ہے۔ لیکن اب عوام کو سڑکوں پر آنے کی بجائے قومی و صوبائی اسمبلیوں میں موجود ارکان اسمبلی کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی جماعتوں کی قیادت کے دباو میں نہ آئیں۔۔ سب ارکان سیاسی وابستگی سے بالا تر ہو کر اس اہم ایشو پر یک نکاتی اتحاد کرلیں تو قرارداد منظور کرانا مشکل نہیں ہے۔۔ کے پی کے اسمبلی کی قرارداد منظور ہونے کے بعد مرکزی حکومت پر اخلاقی دباو یقینا بڑھ جائے گا۔۔

صوبہ ہزار پر مسلسل خاموشی ان شہدا کے خون سے غداری کے مترادف ہے جنھوں نے اپنے علاقائی مفاد کی خاطر جانوں کے نذرانے پیش کئے اور جب موقع بنا ہے کہ اس کیلئے قیادت کی سطح پر پیش رفت سامنے آئے ہزارہ کی سیاسی قیادت نے مجرمانہ خاموشی اختیارکررکھی ہے۔۔سیاسی قیادت نے ہزارہ میں ترقی کے جو جھنڈے گھاڑے ہیں وہ سب کے سامنے ہیں۔۔ ۔ اگر اس محاذ پر آپ ناکام اور مرکزی قیادت کے سامنے بے بس ہیں تو پھر صوبہ ہزار کے معاملے پر تو مصلحت کا شکا ر نہ ہوں۔۔۔ اس کے باوجود بھی اگر خدانخواستہ اب بھی کسی نے کردارادا نہ کیا تو پھر عوام کو انتخابات میں صوبہ ہزارہ کانام لے کر سیاست کرنے والوں کوجوتے مارنے چاہئیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے