امریکہ کی وزارت خارجہ نے لشکر طیبہ کے دو مزید سینیئر رہنماؤں کے نام اور اس کی ذیلی تنظیم المحمدیہ سٹوڈنٹس کا نام خصوصی طور پر عالمی دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کر لیا ہے۔
امریکی وزارت خارجہ نے لشکر طیبہ کا نام غیر ملکی دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں دسمبر 2001 میں شامل کیا تھا۔
امریکی وزارتِ خارجہ کا کہنا ہے کہ اس فہرست میں شامل ہونے کے بعد سے لشکر طیبہ نے پابندیوں سے بچنے کے لیے اپنا نام کئی بار تبدیل کیا اور دیگر تنظیموں کی تشکیل کی۔
امریکی وزارت خارجہ کے مطابق المحمدیہ سٹوڈنٹس لشکر طیبہ کا طلبہ ونگ ہے۔ ان کے مطابق المحمدیہ سٹوڈنٹس 2009 میں قائم کی گئی تھی اور یہ لشکر طیبہ کی ذیلی تنظیم ہے اور لشکر طیبہ کے سینیئر رہنماؤں کے ساتھ کام کرتی ہے۔
امریکی وزارت خارجہ کی دعویٰ ہے کہ المحمدیہ سٹوڈنٹس ریکروٹ کرنے کے کورسز اور نوجوانوں کے لیے دیگر سرگرمیوں کا انعقاد کرتی ہے۔
امریکی نوٹیفیکیشن کے مطابق المحمدیہ سٹوڈنٹس کی امریکہ میں تمام جائیداد کو ضبط کیا جائے گا۔
امریکہ نے لشکر طیبہ کے جن دو سینیئر رہنماوں کو غیر ملکی دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کیا ہے ان میں محمد سرور اور شاہد محمود شامل ہیں۔
[pullquote]محمد سرور[/pullquote]
نوٹیفیکیشن کے مطابق محمد سرور لاہور میں گذشتہ 10 سال سے لشکر طیبہ کے سینیئر رہنما ہیں اور کئی اہم منصبوں پر فائز رہ چکے ہیں اور وہ آج کل لشکر طیبہ کے لاہور کے امیر ہیں۔
محمد سرور کے بارے میں امریکی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ انھوں نے 2012 اور 2013 کے درمیان لشکر طیبہ کے خارجہ معاملات کے سربراہ حافظ عبدالرحمان مکی کے ساتھ کام کیا اور 2013 کے آغاز میں مکی نے محمد سرور سے پاکستان آنے کے لیے رقم فراہم کرنے کا کہا تھا۔
نوٹیفیکیشن میں کہا گیا ہے کہ محمد سرور لشکر طیبہ کے لیے چندہ جمع کرنے میں براہ راست ملوث رہے ہیں اور وہ پاکستان کے باضابطہ مالی نظام کو استعمال کرتے ہوئے لشکر طیبہ کے لیے فنڈ اکٹھے کرتے ہیں۔
2008 میں انھوں نے کاروباری شحضیات کے وفد کو لشکر طیبہ کے مختلف سہولیات کا دورہ کرایا تھا تاکہ ان سے چندہ لیا جا سکے اور 2009 کے وسط میں محمد سرور ان دو رہنماؤں میں سے ایک تھے جو لاہور میں مالی ونگ چلا رہے تھے۔
نوٹیفیکیشن کے مطابق 2008 میں انھوں نے کاروباری شحضیات کے وفد کو لشکر طیبہ کے مختلف سہولیات کا دورہ کرایا تھا تاکہ ان سے چندہ لیا جا سکے اور 2009 کے وسط میں محمد سرور ان دو رہنماؤں میں سے ایک تھے جو لاہور میں مالی ونگ چلا رہے تھے۔
[pullquote]شاہد محمود[/pullquote]
امریکی وزارت خارجہ کے نوٹیفیکیشن کے مطابق شاہد محمود کراچی میں لشکر طیبہ کے رہنما ہیں اور وہ اس تنظیم کے ساتھ 2007 سے منسلک ہیں۔ جون 2015 اور جون 2016 کے درمیان وہ فلاح انسانیت فاؤنڈیشن کے نائب چیئرمین رہ چکے ہیں۔
امریکی وزارت خارجہ اور اقوام متحدہ کی کمیٹی برائے انسداد دہشت گردی نے فلاح انسانیت فاؤنڈیشن کو لشکر طیبہ کا ایک اور نام قرار دیا ہوا ہے۔ 2014 میں شاہد محمود کراچی میں فلاح انسانیت فاؤنڈیشن کے سربراہ رہ چکے ہیں۔
امریکی نوٹیفیکیشن میں مزید کہا گیا ہے کہ 2012 سے شاہد محمود غیر ملکی دوروں پر جاتے رہے ہیں جہاں انھوں نے کئی بین الاقوامی تنظیموں کے ساتھ فلاح انسانیت فاؤنڈیشن کے پلیٹ فارم سے کام کیا ہے۔
سنہ 2012 میں شاہد محمود بنگلہ دیش گئے جہاں انھوں نے برمی تارکین وطن کیمپ میں رقم تقسیم کی تاکہ لشکر طیبہ میں ریکروٹمنٹ کی جا سکے۔
شاہد محمود نے اگست 2012 میں فلاح انسانیت فاؤنڈیشن کےسندھ کے سربراہ کے طور پر وفد میانمار لے کر گئے۔ اس کے علاوہ 2014 کے وسط میں وہ شام اور ترکی بھی گئے اور ان دونوں ممالک میں فلاح انسانیت فاؤنڈیشن کی سرگرمیوں کے سربراہ مقرر ہوئے۔ شاہد محمود نے غزہ کا دورہ بھی کیا ہوا ہے۔
شاہد محمود نے اگست 2012 میں فلاح انسانیت فاؤنڈیشن کےسندھ کے سربراہ کے طور پر وفد میانمار لے کر گئے۔ اس کے علاوہ 2014 کے وسط میں وہ شام اور ترکی بھی گئے اور ان دونوں ممالک میں فلاح انسانیت فاؤنڈیشن کی سرگرمیوں کے سربراہ مقرر ہوئے۔ شاہد محمود نے غزہ کا دورہ بھی کیا ہوا ہے۔
اس قبل شاہد لشکر طیبہ کے سمندر پار آپریشنز کی ٹیم میں شامل رہے جس کی سربراہی ساجد میر کر رہے تھے۔ اگست 2012 میں امریکہ نے ساجد میر کو دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کیا۔ لشکر طیبہ کے سمندر پار آپریشنز کا حصہ رہے ہوئے شاہد محمود سعودی عرب اور بنگلہ دیش کے انچارج تھے۔
نوٹیفیکیشن کے مطابق اگست 2013 میں شاہد محمود کو ہدایت دی گئی کہ وہ بنگلہ دیش اور میانمار میں اسلامی تنظیموں کے ساتھ خفیہ رابطے کریں۔
نوٹیفیکیشن میں مزید کہا گیا ہے کہ 2011 کے اواخر میں شاہد محمود نے دعویٰ کیا تھا کہ لشکر طیبہ کا بنیادی ہدف انڈیا اور امریکہ پر حملے کرنا ہے۔