نیلم جہلم پروجیکٹ اورآزاد کشمیرحکومت

میرے سامنے پاکستان کے زیر انتظام تین اکائیوں کے 2007۔2008 کے بجٹ کی تفصیلات موجود ہیں، پہلا بجٹ اسلام آباد شہر کے ترقیاتی ادارہ یعنی سی ڈی اے کا ہے، جس کا کل تخمینہ 25 ارب روپے ہے، جس میں خالص ترقیاتی اخراجات کیلئے مختص بجٹ مجموعی بجٹ کا 80 فیصد یعنی تقریبا 20 ارب روپے ہے۔ 2007 میں اسلام آباد کی آبادی کا تخمینہ تقریبا 13 لاکھ تھا، اس طرح یہ 20 ارب روپے اسلام آباد کے 13 لاکھ لوگوں کیلئے مختص کیے گئے۔ چنانچہ ایک لاکھ کی آبادی کیلئے اوسطا تقریبا ڈیڑھ ارب کا بجٹ رکھا گیا۔

دوسرا بجٹ آزاد کشمیر کی حکومت کا ہے، اس بجٹ کا کل حجم بھی 25 ارب روپے ہے جبکہ اس میں ترقیاتی اخراجات کا تخمینہ 7.8 ارب روپے ہے۔ یہ 7.8 ارب روپے آزاد کشمیر کے 30 لاکھ لوگوں کی فلاح و بہبود پر خرچ ہونے قرار پائے تھے۔ چنانچہ ایک لاکھ لوگوں کی ترقی کیلئے تقریبا 25 کروڑ کے اوسط اخراجات مختص کئے گئے۔

تیسرا بجٹ بلوچستان حکومت کا ہے جس کا مذکورہ سال کے بجٹ کا کل حجم 63 ارب روپے اور ان میں ترقیاتی اخراجات کا تخمینہ 19 ارب روپے رہا۔ یہ 19 ارب روپے پاکستان کے 46 فیصد رقبہ اور 10 فیصد آبادی والے صوبے کی ترقی پر خرچ ہونے ہیں، جس کی ا?بادی 2007 کے تخمینہ کے مطابق تقریبا 13 ملین یعنی ایک کروڑ تیس لاکھ تھی۔ چنانچہ ایک لاکھ لوگوں کیلئے مختص ترقیاتی بجٹ صرف 14 کروڑ روپے قرار پایا۔ ان 13 ملین لوگوں کیلئے مختص 19 ارب کے ترقیاتی بجٹ میں سے ایک بڑا حصہ رئیسانیوں اور لانگوؤں کی جیبوں میں بھرا گیا ہوگا، اور باقی جورقم اس بڑے صوبے میں واقعی ترقیاتی اخراجات پر خرچ ہوئی ہوگی، اس کا تخمینہ لگانا کوئی زیادہ مشکل نہیں۔

اب آتے ہیں ان ہی تین اکائیوں کے وسائل کی طرف، تو جناب سی ڈی اے کو مذکورہ بجٹ کیلئے 19 ارب روپے وفاق کی طرف سے گرانٹ دی گئی جو کہ مجموعی بجٹ کا 80 فیصد بنتی ہے، اس کا واضح مطلب یہ ہوا کہ یہاں کا ترقیاتی ادارہ محض 7 ارب ہی اپنے ذرائع سے جمع کر پایا، اور اس کو 19 ارب کا تحفہ دینا پڑا۔ جبکہ اس عرصہ میں آزادکشمیر کو جو گرانٹ وفاق کی طرف سے دی گئی اس کا تخمینہ تقریبا 10 ارب جبکہ آزاد کشمیر حکومت کے اپنے ذرائع سے تقریبا 15 ارب روپے کا تخمینہ لگایا گیا۔ بلوچستان حکومت کے بجٹ میں وفاق سے وصول شدہ ٹیکس شیئر کا تخمینہ 21 ارب روپے درج ہے جبکہ وفاق کی طرف سے کتنی خصوصی گرانٹ بلوچستان کو دی گئی، یہ مذکورات میں شامل نہیں۔

وفاق کی طرف سے عنایات کی یہ تفصیل نہ تو آبادی سے مطابقت رکھتی ہے، نہ رقبہ سے نہ وسائل سے اور نہ ہی غربت کی پروفائل سے۔ تو سوال یہ ہیکہ اسلام آباد کیلئے یہ خصوصی عنایات آخر کس بنا پر؟

صرف اس بنا پر کہ یہاں مراعات یافتہ طبقہ کی اکثریت ہے؟

اٹھارویں ترمیم میں صوبوں نے بارگین کر کے کچھ نہ کچھ مزید بھی حاصل کر ہی لیا، جبکہ گلگت بلتستان اور آزادکشمیر جیسی سیاسی اکائیوں کی برات شاخ آہو پر ہی اٹکی رہی۔ این ایف سی ایوارڈ کی تشکیل میں بھی صوبائی حکومتیں کچھ بارگین کرنے کی پوزیشن میں ہوتی ہیں، جبکہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کی حکومتیں محض نظر کرم کی آس پر بیٹھی رہتی ہیں۔ ایسے میں ایک ذمہ دار حکومت کو زیادہ محتاط ہونا چاہئے، لیکن یہاں معاملہ اس کے برعکس دکھائی دیتا ہے۔

یہی وہ فرق ہے جو علاقائیت اور مرکز گریز قوتوں کو جنم دیتا ہے، حالانکہ میرے نزدیک اس کو علاقائیت کی نظر سے دیکھنا درست نہیں۔ حقیقی فرق طبقاتی فرق ہے، لیکن اس طبقاتی تقسیم کی بات ہو گی تو مراعات یافتہ طبقہ کی مراعات پر زد آئے گی، اس لئے مراعات یافتہ طبقہ کے مفاد میں یہ ہے کہ وہ اسے علاقائیت سے منسوب کر کے اپنی جان بخشی کروالے۔ کیا ہم دیکھ نہیں رہے کہ رئیسانی، لانگو، ٹوانے، لغاری، مزاری، و دیگر پسماندہ ترین علاقہ جات سے تعلق رکھتے ہوئے بھی اعلی ترین مراعات انجوائے کرتے ہیں، جبکہ بری امام کی کچی بستی کے مکین پارلیمنٹ ہاؤس سے محض ایک کلومیٹر دور بسیرا کرنے کے باوجود بیشتر مراعات سے محروم ہیں؟

بدقسمتی سے چھوٹی سیاسی اکائیوں کے وہ افراد جو کہ مراعات کو انجوئے کرتے ہیں ، وہ اپنا انفرادی سٹیٹس برقرار رکھنے اور اپنی مراعات کی خاطر اپنے ہی عوام کے مفادات پر سودے بازی کرتے ہیں، جس سے عوام کی معاشی حیثیت کا فرق بڑھتا ہے،اور وہ اس فرق کو علاقائیت کا رنگ دے کر اس کی بنیاد پر مزید سیاست کھیلتے ہیں۔

سوئی سے نکلنے والی گیس پورے پاکستان کے چولھے جلاتی رہی، لیکن سوئی کے مکین کئی دہائیوں تک اس گیس کے استفادہ سے محروم رہے۔ بظاہر تو اس ظلم کو پنجاب کے کھاتے میں ڈال دیا جاتا ہے، لیکن سوچنے کی بات ہے کہ بلوچستان اسمبلی کے 60 سے زائد ممبران، قومی اسمبلی میں بلوچستان کے درجن سے زیادہ نمائندے، سینیٹ میں موجود بلوچستان کے نمائندے، سبھی اس ظلم پر کماحقہ آواز بلند کرنے سے لمبے عرصے تک قاصر کیوں رہے؟ اور یہی لوگ الیکشن ہمیشہ
حقوق بلوچستان کے نام پر لڑتے رہے۔یہ لیڈران ہمیشہ اپنی ناکامیوں اور نالائقیوں کو تعصبات پر منطبق کر کے اپنے لئے رستہ نکالتے رہے۔

کیا آپ نے کبھی دیکھا کہ آزاد کشمیراسمبلی کے 49 ممبران، کشمیر کونسل کے 6 ممبران اور دیگر طاقتور سیاسی قیادت نے آزادکشمیر کے جائز معاشی حصہ کیلئے کوئی جاندار مطالبہ کیا ہو؟ یہ مطالبہ ہمیشہ اس وقت کیا جاتا ہے جب سیاستدان کی مراعات تک رسائی نہ ہو، جس کا مقصد عوام کیلئے مراعات کے حصول کی بجائے ان کو استعمال کرتے ہوئے اپنے لئے سیاسی مفادات کا حصول ہوا کرتا ہے۔ میں نہیں جانتا کہ آزاد کشمیر کی حکومت پہ کوئی سال ایسا بھی گزرا ہو جس میں اس کا بجٹ خسارے میں نہ رہا ہو، لیکن اس کے باوجود کئی دہائیوں تک آزاد کشمیر کی کسی حکومت نے منگلا ڈیم کی آمدنی میں اپنے جائز حصہ کا مطالبہ تک نہ کیا، اس لئے کہ اگر کوئی حکومت ایسا کرے گی تو وفاق میں بیٹھے سیاسی جادوگر ایسی چھڑی گھمائیں گے ایسا مطالبہ کرنے والوں کو دن میں تارے نظر آجائیں گے، تو کیا یہ بہتر نہیں کہ اپنی نوکری پکی کی جائے اور عوامی مفاد کو بھاڑ میں جھونک دیا جائے؟

اب کی بار مظفرآباد کی گردونواح میں انرجی کے اتنے پروجیکٹ لگنے جارہے ہیں، کہ آزادکشمیر کی مجموعی ڈیمانڈ شاید ان کے 10 فیصد سے بھی کم رہے۔ 1100 میگاواٹ کا منگلا پروجیکٹ، 950 میگاواٹ کا نیلم جہلم پروجیکٹ، 1100 میگاواٹ کا کوہالہ پروجیکٹ، 147 میگا واٹ کا مظفرآباد ( پترنڈ) پروجیکٹ، 640 میگا واٹ کا آزاد پتن پروجیکٹ، گلپور پروجیکٹ ، راجدھانی پروجیکٹ، جاگراں پروجیکٹ، نیو بونگ پروجیکٹ، وغیرہ وغیرہ، کیا یہ سب کچھ آپریشنل ہوجانے کے بعد آزاد کشمیر کی 400 میگاواٹ کی ڈیمانڈ پوری ہو جائے گی؟ کیا اس پہ آزادکشمیر گورنمنٹ نے وفاق سے کوئی انڈرسٹینڈنگ کر رکھی ہے؟ کیا ان سب پروجیکٹس کی رائلٹی پر کوئی جاندار ڈائیلاگ ہوا؟

کئی دہائیوں بعد منگلا ڈیم سے پیدا ہونے والی بجلی کی رائلٹی ملنی شروع ہوئی جو کہ محض 27 پیسے فی یونٹ کے حساب سے دی جاتی ہے۔شنید ہیکہ جنوری 2016 میں آزادکشمیر کی حکومت اور واپڈا کا اس بات پر اتفاق ہوا کہ نیلم جہلم کی رائلٹی کی مد میں واپڈا 45 پیسے فی یونٹ ادائیگی کریگا، جبکہ حکومت آزادکشمیر اپنی ضرورت کی بجلی 5.79 روپے فی یونٹ کے حساب سے واپڈا سے خریدے گی۔ پتہ نہیں یہ اتفاق رائے معاہدہ میں تبدیل ہوا یا نہیں، لیکن کیا یہ رائلٹی اس رائلٹی سے مطابقت رکھتی ہے جو پختونخواہ حکومت تربیلا ڈیم کی رائلٹی سے حاصل کرتی ہے؟ کیا یہ گیس کی اس رائلٹی سے مطابقت رکھتی ہے جو بلوچستان حکومت وصول کرتی ہے؟ کیا اس سے متعلقہ حقائق حکومت کبھی عوام کے سامنے لائے گی؟ کیا 45 پیسے فی یونٹ میں واپڈا کو بجلی فراہم کر کے اس بجلی کو 5.79 روپے میں خریدنا کوئی دانشمندانہ فیصلہ لگتا ہے؟ یہاں یہ بات یاد رہے کہ تربیلا پروجیکٹ سے پختونخواہ حکومت کو ملنے والی رائلٹی سال 2015۔16 کیلئے 1.10 روپے فی یونٹ طے پائی تھی جس میں سالانہ 5 فیصد کے حساب سے انڈکسنگ ہونی طے پائی۔ تو بھلا وہ کونسی وجوہات ہیں کہ
آزادکشمیر حکومت صرف 45 پیسہ رائلٹی وصول کرنے پر تیار ہوگئی؟

رائلٹی سے متعلقہ حقائق کا تو تذکرہ ہوچکا، لیکن اس بڑھ کر سوال یہ ہے کہ کیا آزادکشمیر سے بننے والی بجلی آزادکشمیر کو بھی روشن کرے گی، یا آزاد کشمیر کے اجالے اسلام آباد، اس کے مضافات اور سی پیک کے اجالوں پر قربان ہوجائیں گے؟ اور بالخصوص ایسے میں جبکہ قومی اسمبلی اور این ایف سی وغیرہ میں آزادکشمیر کی کوئی نمائندگی ہی نہیں؟ یہ سب وہ باتیں ہیں جن پر آزاد کشمیر کی حکومت کو اپنا وجود شو کرنا چاہئے، لیکن شاید حکومت ایسے کسی مطالبہ کے نتائج سیاچھی طرح باخبر ہے، اور وہ کر رہی ہے جو حکومتی مفاد میں ہے۔

کیا آپ جانتے ہیں کہ ایسی خاموشی کی پالیسی کا انجام کیا ہوگا؟ مظفرآباد سے بننے والی بجلی مظفرآباد کو کبھی کبھی، جبکہ اسلام آباد کو مستقلا روشن رکھے گی۔ تقسیم کا یہ فرق تعصب پر مبنی سوچ کے فروغ کیلئے ایندھن مہیا کرے گا، اس تعصب پر ایک سیاسی طبقہ سیاست کرکہ اقتدار تک پہنچے گا اور اور پھر انہی حقوق کی سودے بازی کر کے مراعات حاصل کرے گا جبکہ عوام خواہ مخواہ تعصب کی آگ کا ایندھن بنیں گے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے