گزشتہ جمعہ المبارک کے روز چین نے انڈیا کی جانب سے جیشِ محمد کے سربراہ مولانا مسعود اظہر کا نام اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی ممنوع تنظیموں کی فہرست میں شامل کرنے کی کوشش مسدود کر دی ہے – روئٹرز کے مطابق انڈیا کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان وکاس سواروپ نے اپنی بریفینگ میں کہا کہ ہندوستان نے نو ماہ قبل درخواست کی تھی کہ مولانا مسعود اظہر کا نام اس فہرست میں شامل کیا جائے ، جس پر چین نے اس قرار کو اپریل ٢٠١٦ میں ملتوی کر دیا تھا جبکہ دسمبر ٢٠١٦ کے آخری ہفتے میں اس قرارداد کو چین کی طرف سے مسدود کر دیا گیا ہے –
وکاس کے مطابق اس قرارداد کو کئی ممالک کی حمایت حاصل تھی – خبروں کے مطابق سلامتی کونسل کے دس غیر مستقل و پانچ مستقل ممبران ممالک میں سے صرف چین ہی ایک ایسا ملک تھا جس نے اس قرار داد کو مسترد کیا – اگلے تین ماہ کے اندرامریکہ اور برطانیہ کی بیکنگ کے ساتھ ہندوستان کی طرف سے لائی گئی قراردادا کو چین ہمیشہ کے لیے مسترد بھی کر سکتا ہے –
چین ایسا کیوں کر رہا ہے ؟؟ چین کے مولانا کے ساتھ کیا مراسم ہیں ؟؟ کیا مولانا اس وقت کسی بھی تناظر میں چین اور پاکستان کے درمیان اہم کردار ادا کر رہے ہیں یا کر سکتے ہیں ؟؟ کیا ماضی میں امریکہ و روس کی پراکسی وار میں امریکہ کے لیے استعمال ہونے کی تاریخ رکھنے والی جہادی تنظیمیں اب چین اور ہندوستان کی پراکسی وار میں چین کی طرف سے استعمال ہونے لگی ہیں ؟؟ کیا ریاست پاکستان مولانا کے ساتھ کھڑی ہے یا پھر سلامتی کونسل میں ہندوستان کی قرارداد کو ویٹو کرنا چین کی طرف سے محض اپنی برتری ثابت کرنا ہے ؟؟
یہ چند ایک سوال اور دیگر کئی ان جیسے سوالات میری طرح کے عام شہری کے ذہن میں آتے ہیں چلیں آئیں شوائد کی روشنی میں ایسے سوالوں کی جواب کرنے کی کوشش کرتے ہیں جنھیں جاننا شاید ہم جیسے عام لوگوں کے لیے ضروری تو نہ ہو مگر دلچسپ ضرور ہے –
*١ چین اور ہندوستان کے درمیان تبت کی ملکیت کے حوالے سے کے بدھسٹ لیڈر دائی لامہ کی صورٹ میں پہلے دن سے ہی تنازع موجود ہے ، اس حوالے سے پاکستان نے ہمیشہ چین کی ہر فورم پر کی حمایت کی ہے ، شاید اسلیے مولانا کے ایشو پر چین پاکستان کے حق میں کھڑا ہے –
*٢ چین اور جاپان ، ویتنام ، تائیوان ، ملائشیا ، انڈونیشا اور فلپائن وغیرہ کے درمیان جنوبی سمندر pacific ocean کے جزیروں کے حوالے سے کافی عرصے سے تنازع موجود ہے ، اب چین کے کچھ مخالف ممالک کی پشت پر امریکہ آ کھڑا ہوا ہے ، ماضی قریب میں چین کی طرف سے ان جزیروں پر فوجی مشقیں کی گئی تھیں جس پر سارے مخالف ممالک نے شدید احتجاج کیا اور اسی پر ہندوستان نے جاپان کی حمایت کرتے ہوئے امریکہ کی ایما پر سلامتی کونسل میں جزیروں پر جاپان کی حمایت میں ووٹ دے کر چین کی مخالفت کی تھی ، ہندوستان کی طرف سے جزیروں پر جاپانی موقف کی حمایت کرنے کا مطلب امریکہ کی ان جزیروں تک رسائی آسان بنانا ہے تاکہ وہ چین کے بلکل قریب پہنچ سکے –
چین کو اس تنازع پر سلامتی کونسل سمیت اقوام متحدہ کے فورمز پر پاکستان کے ووٹ کی ضرورت رہی ہے اور چین پاکستان سے یہ چاہتا ہے کہ وہ افغانستان میں اپنے اثر و رسوخ کا استعمال کرتے ہوئے اسکا ووٹ بھی ہندوستان کی ایماء پر مخالفت میں دینے کے بجائے چین کے حق میں دلوائے –
مودی حکومت آنے کے بعد ہندوستان نے ویتنام کے ساتھ اسکی سمندری حدود سے تیل نکالنے اور وہاں فوجی اڈہ بنانے کا معاہدہ کیا ہے جس پر چین کی طرف سے اقوام متحدہ سمیت ہر فورم پر ہندوستان کو مخالفت کا سامنا رہا ، چین کے مطابق متنازعہ علاقوں میں ایسا کوئی معاہدہ اسے قبول نہیں ، پاکستان کی طرف سے چین کے موقف کی بھرپور حمایت کی گئی ہے –
*٣ چین اس وقت ہندوستانی سرحد کے قریب سنکیانگ تبت ریل نیٹ ورک پر تیزی سے کام کر رہا ہے جسکے بعد چین نیپال دوستی معاہدے کے تحت ریل کا نیٹ ورک کھٹمنڈو نیپال تک پہنچے گا جو ہندوستان کے لیے کسی بڑی مصیبت سے کم ثابت نہیں ہو گا ، کہا جاتا ہے کہ ہندوستان کے اس ایشو کو اقوام متحدہ میں کاونٹر کرنے کے لیے مولانا مسعود اظہر کے ایشو پر چین ویٹو کر کے اقوام متحدہ کو ہندوستان اور دلائی لامہ کے تبت پر مشترکہ ایشو کو ڈائیورٹ کر دیتا ہے –
*٤ کہا جاتا ہے کہ او آئی سی میں جہاں چین کی نمائندگی نہیں ، چین کے سنکیانگ صوبے میں مسلمان یوغر کمیونٹی پر ہونے والے مظالم کے خلاف پاکستان نے چین کی موقف کی تائید کرتے ہوئے چین کے اقدامات کو کور دیا تھا ، جسکی وجہ سے چین پاکستان کی سلامتی کونسل کے فورم پر مولانا کے معاملے میں حمایت کر رہا ہے –
*٥ کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں شدت پسندوں کو دو گروپوں میں تقسیم کیا گیا ہے ایک وہ جو پاکستان مخالف ممالک ( ہندوستان ، افغانستان ، اسرائیل ، امریکہ وغیرہ ) سے امداد لے کر پاکستان کو نقصان پہنچا رہے ہیں اور دوسرے وہ جنھیں ماضی میں روس کے خلاف خود پاکستانی ایجنسیوں نے کھڑا کیا تھا اگرچہ ان کی ملک مخالف کاروائیاں نہ ہونے کے برابر تھیں لیکن امریکہ میں نو گیارہ کے بعد جنرل مشرف کی یکسر تبدیل ہوتی پالیسی کی وجہ سے ریاستی اداروں نے انہیں خود ساختہ دشمن سمجھ کر انکے خلاف بھرپور کاروائی کی جس سے ان لوگوں میں ری ایکشن آیا اور وہ سسٹم کے مخالف ہو گئے –
جہاد افغانستان و کشمیر کے تناظر میں مولانا مسعود اظہر کے متعلق یہ خیال کیا جاتا ہے کہ وہ بھی پاکستانی اداروں کے اکاموڈیٹ کیئے ہوئے شخص ہیں اگرچہ ریاستی پالیسیوں کی وجہ سے وہ اپنا کام مخصوص دائرے میں محدود رکھنے پر مجبور ہیں مگر ان کا انٹیلیجنس کا نظام اور عوامی جڑیں کافی مضبوط ہیں جس کی وجہ سے مولانا پاک چین سی پیک منصوبے میں ریاستی دشمن شدت پسندوں کو کاونٹر کرنے میں مدد گار ہو سکتے ہیں –
پاکستان میں اقوام متحدہ میں چین کی مولانا کے حوالے سے موو پر دو قسم کے موقف پائے جا رہے ہیں ، ان میں سے حکومتی موقف کونسا ہے فیصلہ کرنا آسان نہیں –
پہلا موقف جو سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کے ممبران کی طرف سے جیش کے سربراہ مولانا مسعود اظہر سے متعلق اقوام متحدہ میں قرار داد کی چین کی مخالفت پر سوالات اٹھائے جانے کی صورت میں سامنے آیا ہے جس کے مطابق پاکستانی سینیٹ کی انسانی حقوق کمیٹی کے پیر کو ہونے والے اجلاس میں اس بارے میں تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کمیٹی کی چیئرپرسن سینیٹر نسرین جلیل نے کہا ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی کمیٹی کے اجلاس میں مولانا مسعود اظہر کے متعلق ہندوستان کی قرار داد کو چین نے ویٹو کیا ہے ، کمیٹی میں اس بارے میں بھی بات ہوئی کہ ہم حکومت سے پوچھیں گے کہ اگر چین کی حکومت پر زور دلوا کر یہ کہلوایا گیا تو (حکومت پاکستان) کو ایسا نہیں کرنا چاہیے –
دوسرا موقف دفتر خارجہ کے ترجمان نفیس زکریا کی بریفنگ کی صورت میں سامنے آیا ہے جس میں نفیس زکریا نے کہا تھا کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی 1267 سینکشنز کمیٹی جو آئی ایس یس اورالقاعدہ جیسی دہشت گرد تنظیموں سے متعلق تھی کے سامنے مولانا مسعود اظہر کے خلاف بےبنیاد اور سیاسی مقاصد کے تحت دی گئی تجویز کو مسترد کیا گیا ہے یہ ایک غیر سنجیدہ اور ہندوستان کی تنگ نظری پر قائم قومی ایجنڈے کے تناظر میں لائی گئی قررار داد تھی –
دہشت گردی کی مذمت کرنے کا دعوی کرتے ہوئے ہندوستان کو یہ حقیقت تسلیم کرنی چاہیئے کہ اس کی طرف سے دہشت گردی ریاستی پالیسی کا ایک آلہ کے طور پر استعمال ہو رہی ہے اور خود ہندوستان دہشت گردوں کو سپانسر اور ان کی حمایت کر رہا ہے –
میری ذاتی رائے میں مولانا کے ساتھ ریاست پاکستان کے بظاہر مراسم اس وقت کے حالات و واقعات کو دیکھتے ہوئے واضح نظر نہیں آ رہے، ہاں وہ الگ بات ہے کہ ہمارے قابل ستائش قومی ادارے مولانا کے متعلق چین سے کچھ مدد چاہ رہے ہوں جو ریاستی پالیسی کا حصہ سمجھا جا سکتا ہے ممکن ہے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کچھ واضح ہو جائے –