میٹروبس اورچور بازاری

میں نواز شریف صاحب کو مبارک دیتا ہوں کیونکہ نواز شریف صاحب مغلوں کے
بادشاہ شیر شاہ سوری کا ریکارڈ توڑنے کے قریب ہیں ۔میٹرو بس نوازشریف صاحب کا
تحفہ ہے عوام کے لیے جو ان کی مسلسل محنتوں،مشقتوں اور کوششوں سے ممکن ہوا۔
اس منصوبے کے لیے ایک منیجمنٹ رکھی جس کے ذمے مختلف ذمہ داریاں رکھیں ۔
اب وہ ذمہ داریاں کیسے پوری کی جاتی ہیں اس کا احوال بھی آپ کے سامنے رکھوں گا۔
۔اگر یہ کہا جائے کہ میٹرو کے عملے کی غیر ذمہ داری چوروں کو چوری کے مواقع
فراہم کرتی ہے تو کچھ غلط نا ہو گا کیونکہ میٹرو بس میں آئے روز چور کبھی پیسے
چرا لے جاتے ہیں اور کبھی قیمتی چیزیں ۔

ہر کام کو کرنے کا ایک سلیقہ ہوتا ہے اگر کوئی بھی کام ایک سلیقے کے ساتھ کیا جائے تو تب ہی
وہ اچھا لگے گا ۔ ہمارے ملک میں لوگ کوئ کام بھی سلیقے کے ساتھ نہیں کرنا چاہتے ۔
ذرا میٹروبس میں سفر کے دوران کیا کیا مشکلات جھیلنا پڑھتیں ہیں یہ بتانا زیادہ مقصود ہے۔
ہر دو منٹ بعد میٹرو بس ہر سٹاپ پہ رکتی ہے اور مسافروں کو پک اینڈ دراپ کرتی ہے۔
لوگ ایسے میٹرو بس میں گھستے ہیں جیسے کوئی ان کے لیے آخری بس ہو،اگر یہ ان
سے چھوٹ گئی تو وہ منزل مقصود پر نہیں پہنچ سکیں گئے ۔ آپ اس سے اندازہ کر لیں
کہ بس کے دروازے کے ساتھ ایک مخصوص جگہ ،جس پہ خصوصی لکھا بھی ہے کہ
یہاں نا کھڑے ہوں ،اس جگہ بھی لوگ کھڑے ہوتے ہیں ۔ اس بات سے نا مسافروں کو کوئی
فرق پڑھتا ہے اور نا ہی میٹرو منیجمنٹ کو ۔ جو مسافر سیٹوں پر بھی بیٹھے ہوتے ہیں
وہ بھی گور گور کر دیکھ رہے ہوتے ہیں کیونکہ لوگ انکے آگے پیچھے بھی کھڑے ہو جاتے
ہیں ۔

میٹرو بس کا قیام عوام کے لیے ایک بہت بڑا فائدہ ہے ہی لیکن چوروں کے لیے بھی ایک
موقع ہے چوری کرنے کا جو کہ میٹرو کی منیجمنٹ کی غیر ذمہ داری کے سبب ہے۔ کیونکہ
یہاں نا کوئی محنت اور نا کوئی ڈر صرف ۲۰روپے کا
ٹکٹ لیا اور لوگوں کی جیبوں کو خالی کر کے چلتے بنا۔ بس میں کمپیوٹر میم
صاحب بار بار کہتی بھی ہوتی ہیں کہ جیپ کتروں سے ہوشیار رہیں ۔ اس وقت جیب کتروں
کا ہوش کدھر رہتا ہے کوئی دھکا آگے سے لگتا ہے اور کوئی دھکا پیچھے سے ۔چور انہیں
دھکوں کا فائدہ اٹھا کر لوگوں کی جیبوں کی اس طرح تلاشی لے لیتا ہے کہ کسی کو کچھ
پتا بھی نہیں چلتا ۔

کل کی ہی بات ہے کہ میرا دوست طیب آئی ایٹ سے صدر جا رہا تھا ،چور نے اسے بھی
نہ بخشا ۔اس کو اس وقت اپنے لٹنے کا علم ہوا جب وہ واپسی پہ بس کا ٹکٹ لے رہا تھا
جب جیب میں ہاٹھ ڈالا کے پرس نکالوں تو پرس ہی غائب تھا ۔ جب اسے ڈھونڈ ڈھونڈ کے
بھی پرس نا ملا تو خیال آیا کہ آفس کال کرتا ہوں کہیں وہاں نا بھول آیا ہوں ۔اب کیا تھا کہ
جب موبائل لینا چاہا تو موبائل بھی نہیں تھا ۔ یعنی چور پیسے اور موبائل دونوں لے گیا ۔
میرے واقفیت کہ بہت سے لوگ ایسے ہیں جن کے ساتھ میٹرو بس میں یہ معاملہ پیش آ چکا
ہے ۔

اگر یہ کام ایک ضابطے کے تحت کیا جائے تو میٹرو میں چور بازاری ختم ہو سکتی ہے ۔
میٹرو منیجمنٹ بس میں اتنے ہی مسافروں کو بیٹھنے کی اجازت دے جتنی سیٹیں لگی ہوئی
ہیں ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے