تحقیق ،تخلیق اور تعمیر

تقلید اور اختلاف امت دین، دلیل، برہان ،غور وفکر، تحقیق اورتخلیق کے ضد کے طور پر اُبھرا ہے۔ دین ،یعنی قرآن پاک اپنی اصلی شکل میں محفوظ ہے اور جس کی تحفظ کی ذمہ داری تاقیامت تک اللہ تعالی جل شانہ نےاپنے ذمے لی ہوئی ہے ۔ وحی کے الفاظ، جس وقت یہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت اُتارے گئے تھے ،ہو بہو وہی ہے ۔قران کی حقانیت تمام فرقوں میں مسلم ہے ۔ اس لئے یہی وہ نقطہ ماسکہ ہےجس سے امت میں اتفاق اور یگانگت کی فضا فروغ پا سکتی ہے۔قرآنی نکتہ نظر سے دین کو سمجھنا انتہائی آسان ہے تاہم اس کو کھلے ذہن کےساتھ، قرآن کی تفسیر قرآن کے اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے قران سے(قران اپنی تفسیر خود اپنی آیات سےکرتا رہتا ہے) نہایت آسانی سےسمجھا جاسکتا ہے۔ قرآن کریم ،وحی خدا وندی ہے۔ دین اپنی اساس میں قدیم سے جدید ہے۔ اس لئے دین کو فطرت کے اصولوں کے مطابق ،حواس خمسہ اور عقل وفکر کے ذریعے معروضی حالت کے تناظر میں پرکھا اور سمجھا جاسکتا ہے۔

عقل پر وحی کو سبقت حاصل ہے ۔ خالق کائنات تمام زمانوں کی تقاضے،ضروریات اور مسائل کو سمجھتے ہیں، جبکہ انسانی عقل کو صرف زمانہ حال کے مسائل اورضروریات کے حل کےلئےعلم درکار ہوتا ہے۔ یہ درست ہے کہ وحی کی فلسفیانہ اور سائنسی توجیہات وقتا فوقتا اہل علم کرتے ہوئے مستقبل کے پیشن گوئیاں کرتے ہیں۔ دین کے مبادیات اوراحکامات کو غور و فکر اور تجربے کے بنیاد پرلاگو کیا جاسکتا ہے۔ دین میں اختلاف کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی ۔ امت اور اختلاف چہ معنی دارد ؟

دین(قران مجید )کو لاگو کئے بغیر صرف عقیدتاً ماننا کوئی معنی نہیں رکھتا ۔ اس لئے قرآن کے احکامات کا من وعن نفاذ کرنا آز بس ضروری و لاینفک ہے۔ اس کے بعد جاکر کہی غور و فکر، تحقیق اورتخلیق کا میدان کھلے گا ۔امت کے افراد ریسرچ غورو فکر،تحقیق اور تخلیق کرتے ہوئے فطرت کے قوانین کو مسخّر کرسکیں گے۔اگر آندھی عقیدت اور تقلید کے بجائے لوگ تحقیق ، غور و فکر سے کام لیں گےتواس طرح معاشرہ کے جمود کو توڑا جاسکتا ہے۔اسلامی اور قرآنی عقائد جیسے وحدانیت ،ختم نبوت ،تمام رسولوں ،الہامی کتابوں،فرشتوں اور روز جزا پر ایمان مومنین کی لازمی جزو ایمان ہوتی ہے ۔ان عقائد کے بغیر ایمان نامکمل ہوتا ہے۔رہی بات دیگر احکامات اور شرعی حدود و قیودکی، تو اس میں تغیر ،قرآنی اصولوں اورمسلم ریاستی قوانین کےمطابق برتاجاسکتا ہے۔

تقلیداوراختلاف کیلئےسائنسی پیمانے،سماجی اور معاشرتی میدان میں نئی اختراعات اور تجربات کیلئے نئی اصول وضع ہوسکیں گے۔ ثابت شدہ سائنسی و فطری اصول اور مبادیات ایمان اورعقیدہ کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ غیر متبدل فطری وقدرتی قوانین سے اختلاف رکھنا بے کار ہوگا۔ کوئی ایک انسان قرآن کے آیات کو، جسمیں زمین کی ساخت ، رات اور دن کے آنے جانے، انسانی معاشرہ کے مسائل اور ترکیب، معاشی مسائل، عمرانی اور اقتصادی معاہدات ، سرمایہ داری اور جاگیر داری کے مسائل، جنت اور دوزخ، ملائک اور قوانین فطرت، جنات و شیاطین،نیکی اور بدی ، سائنس اور فلسفہ کے حدود اور قیود، وحدانیت،مابعد الطبیعات، فلکیات، موسمی تغیرات ، پانی اور ہوا، انسانی امراض وغیرہ پرتحقیق وتخلیق ایک فرد واحد کے بس کا کام نہیں ہے ۔

اگرچہ زمانہ قدیم میں بیشتر افراد اور فقہاءکرام نے ان سارے مسائل پر مغز کھپائی کی ہے،تاہم دور جدید کے تقاضے اور مسائل جداگانہ ہیں۔ غور طلب بات یہ ہے کہ جدید دنیا میں ہر مضمون کے ثانوی اور جزوی امور پراتنا تحقیقی اورتخلیقی کام ہوا ہے کہ شاید ایک مضمون کے مختلف ہائے امور کو سمجھنے کیلئے یہ زندگی کم دکھائی دیتی ہے ۔اس لئے میں عرض کرنا چاہتا ہو کہ درج مذکورہ مسائل کو سمجھنا ہرگزتن تنہاقطعی طورپر ایک فرد کا کام نہیں ہوسکتاہے۔ہاں، البتہ کوشش کی جاسکتی ہے ۔

یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ امت کے فقہا نے ماضی بعید میں ان تمام امور پر اپنی رائے دی ہوئی ہے۔ امت کے فقہا ء،سلف و صالحین کا انسانیت پر مذکورہ تحقیقی اورتخلیقی کام کے واسطے احسان ہے۔ کم از کم اُس کی تاریخی دستاویزی حیثیت برقرار ر رہے گی۔ ان علمائے دین نے ریسرچ اور تحقیق کرتے ہوئے قدیم زمانے کے مسائل کو مد نظر رکھتے ہوئے قرآن اور روایات سے اس کی تفہیم اور تشریح کی کوشش کی ہیں۔ اور ساتھ ہی مسلمانان عالم نے ان علمائے دین کے ان دستاویزات کو اپنا عقیدہ بنا لیا ، جوکہ کہ اب تک چلا آرہا ہے۔یہ عقیدت اُس وقت کے معروضی حالت کے تناظر میں ٹھیک تھی۔

زمانہ جدیدکے لاینخل سماجی اور معاشرتی مسائل ، سائنس اور فلسفیانہ موشگافیوں کے لئے رائے اِن فقہاء و صلحاءکے تشریحات اور دستاویزات سے لی جاتی ہے ۔اس لئےزمانہ جدید کے تقاضوں کیلئے یہی تقلید کے آصول ناکافی دکھائے دیتے ہیں۔ زمانہ جدید کے تقاضے اور مسائل بہت زیادہ گھمبیر ہوچکے ہیں۔ اور ان کا حل قدما ءاورسلف صالحین کے کتابوں سے اخذ کرنا نا ممکنات میں سے ہے۔ لہذاہمیں تقلید پر اصرار ہےاور جدید زمانہ کے مسائل اور دنیا کے تقاضے اور ہیں۔ ہم ما بعد الطبیعات کے چکر میں دنیا کے تقاضوں سے کٹ کر رہ گئےہیں ۔ میرے خیال کے مطابق مسلمانوں پر جمود طاری ہوگیا ہے۔ مسلمانوں میں غور اور فکر، تخلیق اورتحقیق کا بحران پیدا ہوگیا ہے۔ یہ بات اپنی جگہ درست اور صحیح ہے کہ ہم مابعد الطبیعات ، اخرت کو دنیا پر ترجیح دیتے ہوئے نیکی اور بدی کے قوانین کے پاسدار ہیں اوراس سے علیحدگی کا تصور تک نہیں کرسکتے۔لیکن ’’دنیا‘‘ آخرت کی کھیتی ہے ۔دنیا میں ہی خیر،نیکی اور بدی کا عمل کیاجاسکتا ہے ۔جس کا بدلا اور اجر روزِ آخرت اور دنیا میں ملے گا۔قران میں مومنین کےلئے دنیا اور اخرت میں بوجوہ ان کے اعمال صالحہ،بادشاہی اور سرپرستی کے وعدے کئے گئے ہیں۔

اب کیا کیا جائے کونسی تدابیر اختیار کئے جائیں ؟ تاکہ خاص کر مسلمانوں میں جمود اور اخلاقی بحران کو توڑا جاسکے ۔میرے خیال کےمطابق قرآن کریم پر از سرِ نو غور و فکراور تحقیق کی ضرورت پہلے زیادہ موجود ہے۔ قرآن مجید پرتمام فرقوں کا متفقہ ریسرچ سنٹر وقت کا اہم اور ضروری تقاضا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ جو احادیث ،روایات اور فقہائے کرام کے تشریحات قرآن مجید کیساتھ ہم آہنگ ہیں، ان کی تجدید کا عمل اَزحد ضروری ہے۔ کیونکہ قران مجید ،فرقان حمید ہی وہ واحد پیمانہ اور میزان ہے جس سے کسی بھی مسئلے کا صحیح اور غلط کامعیار ناپا اور جانچا جاسکتا ہے۔

قدما ءاور سلف صالحین ہمارے لئے صد قابل احترام ہیں۔ اُن کا امت کیلئے غور و فکر،تحقیق ،دروس اور درد مندی وغیرہ بلاشبہ سمجھا جا سکتا ہے ۔ اس لئے اُن کے ثابت شدہ سائنسی اورعلمی تحقیقاتی کاموں سے استفادہ اہم امور میں سے ہے۔

اب یہ سوال اپنی جگہ اس وقت تک برقرار ر ہے گا کہ قرآن مجید کے تشریح اور توضیح دور جدید کے تقاضوں کے مطابق کیسا کی جائے؟میرے علم کے مطابق قرآن کی آیات پر شعبہ جاتی غور وفکر تحقیق کاعمل اہم ہے۔ اس کے لئے طریقہ یہ ہونا چاہئے کہ ریاست کی سرکردگی میں ادارتی و محکمانہ طور پر جو باصلاحیت اور اہل علم متقی افرادجس شعبہ ہائے میں مہارت رکھتے ہو ں ،اُن کو متعلقہ امور کے متعلق آیات کے تشریح وتوضیح کے فرائض سونپ کر مدد لی جائے۔یہ قرآنی تشریح اور توضیح ،ریاستی اور دیگر مسلم ریاستوں کے سرکردگی اور نگرانی میں بھی ہوسکتی ہے ۔اس کا مقصد میرے پیش نظر خالصتاً یہی ہے کہ امت میں تفرقہ بندی کا سد باب کیا جاسکے۔اس پر عمل درآمد کی صورت میں بے شمار فوائد سمیٹے جاسکتے ہیں ۔ مثال کے طور پر اگر ایک وحدانی ،جدید اورمتفقہ سائنسی اور فلسفیانہ تشریح وتوضیح برا ٓمد ہوتی ہے، تو ا س صورت ایک عام فرد کو تمام اُمور اور شعبوں میں مہارت حاصل ہوجائی گی ۔ خاص کر تحقیق ،تخلیق،تقلید اور نئی اختراعات کا دروازہ کھلے گا ۔ ریاستی قوانین کو عملاً اسلامی بنائے جانے میں آسانی ہو جائی گی ۔شعوری، اخلاقی اور روایاتی نظام بہتر ہوگا ۔سماجی ، معاشرتی ، معاشی اور اقتصادی نظام اصلاح پذیر ہوجائے گا۔ جدید قوانین اور رواج کا حصول ممکن ہوسکے گا ۔

جدید تعلیم، سائنسی وٹیکنالوجیکل ترقی،نئی اختراعات اور تحقیقات مومنین کے آثاثہ جات ہیں۔ اس لئے علم کے ہر گوشہ اور مضامین پر دسترس انسانیت اورمفاد عامہ کی بھلائی کی خاطر اہل علم اوربا صلاحیت افرادکا عین فریضہ ہے۔ کسی شعبے میں مہارت اور کمال حاصل کرنا اور اسے فلاح اور اصلاح کی خاطر کھلا رکھنا در حقیقت امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اور عبادت ہے۔

قارئین ،آپ کیا دیگر تجاویز دینا پسند فرمائیں گے جس سے امت میں اتفاق ،یگانگت ،اصلاح ،ترقی ،تحقیق اور تخلیق کے جوہر پیدا ہوسکے؟۔ اپنی آرا سے میری ای ای میل ائی ڈی :jwndon@gmail.com پر مستفید فرمائے گا،شکریہ ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے