گھریلو ملازم کو انسان سمجھو!

چند روز قبل وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے ایڈیشنل سیشن جج کے گھر میں ملازمت کرنے والی بچی طیبہ پر تشدد کے واضح ثبوت ملے تو جج صاحب اور ان کی اہلیہ کے خلاف مقدمہ بھی درج ہوا۔ مگر اس کے فوراً بعد نامعلوم وجوہات کی بناہ پر ایڈیشنل سیشن جج خرم علی خان اور ان کی اہلیہ کے ہاتھوں مبینہ طور پر تشدد کا شکار ہونے والی کمسن بچی طیبہ کے والدین نے نہ صرف اپنا کیس واپس لے لیا بلکہ راضی نامہ بھی کرلیا۔ جس پر چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے حاضر سروس ایڈیشنل سیشن جج خرم علی خان کے گھر کام کرنے والی کمسن ملازمہ پر تشدد کے واقعے کا از خود نوٹس لیتے ہوئے بچی پر تشدد اور اس کے بعد فریقین کے درمیان طے پانے والے معاہدے پر رجسٹرار اسلام آباد ہائی کورٹ کو رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا، تاکہ اصل صورتحال سب کے سامنے آسکے اور کوئی کتنا ہی بااثر کیوں نہ ہوقانون سے بالادست نہ ہوسکے۔ کہا جاتا ہے کہ بچے قوم کا روشن مستقبل اور اثاثہ ہوتے ہیں ، ان کی بہترین تربیت و نگہداشت پر جس قدر زیادہ توجہ دی جائے ، قوموں کی ترقی کے امکانات اس قدر زیادہ ہوتے ہیں۔ بچوں کے مستقبل کے حوالے سے ہمارے ملک میں ایک بڑا المیہ بچوں سے مشقت کا رواج عام ہے۔ معاشی بدحالی، سہولیات سے محرومی، استحصال، بے روزگاری، غربت اور وسائل کی غیرمنصفانہ تقسیم جیسے مسائل کے باعث بچوں کو زیور تعلیم سے دور رکھ کر ان سے جبری مشقت لی جارہی ہے ، جبکہ بچوں کی جبری مشقت کو ہمارے ہاں معیوب بھی نہیں سمجھا جاتا ، جابجا معصوم پھول جیسے بچے گھروں میں ملازمت کرتے، چوراہوں پر بوٹ پالش سے لے کر ہوٹلوں،چائے خانوں، ورکشاپوں، مارکیٹوں،چھوٹی فیکٹریوں ، موٹر گاڑیوں کی کنڈیکٹری، پٹرول پمپوں پر گاڑیوں کے شیشے صاف کرنے سمیت دیگر بہت سی جگہوں پر مشقت کرتے نظر آتے ہیں۔

روزبروز بڑھتی غربت ،بے روزگاری، مہنگائی نے غریب بچوں کو اسکولوں سے اتنا دور کر دیا ہے کہ ان کے لئے تعلیم ایک خواب بن کر رہ گئی ہے۔ پرائیویٹ سیکٹر کے تعلیمی اداروں نے جہاں معیاری تعلیم کو فروغ دیا وہاں تعلیم کو اس قدر مہنگا کر دیا کہ اوسط درجے کی آمدن والے لوگ بھی اپنی اولادوں کو معیاری تعلیم دلوانے سے قاصر ہیں، ایسے میں غریب مفلوک الحال خاندان اپنے پیٹ کی آگ بجھائیں یا تعلیم کے بھاری بھرکم اخراجات برداشت کریں ، یہی وجہ ہے کہ غریب بچے ہر طرح کی قابلیت کے باوجود پیچھے رہ جاتے ہیں، اور ان کے والدین وسائل کی کمی کے سبب ان کو تعلیم نہیں دلوا پاتے۔ محنت کش بچے کوئی پیدائشی محنت کش بچے نہیں ہوتے، ان کی شکلیں بھی ایسی ہی ہوتی ہیں جیسی بڑے تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے طلبہ کی ہوتی ہیں لیکن صرف وسائل نہ ہونے کی وجہ سے وہ معاشرے میں ’’چھوٹے‘‘ بن کر رہ جاتے ہیں۔ جبکہ آئین پاکستان کاآرٹیکل گیارہ اس بات کی ضمانت فراہم کرتا ہے کہ انہیں کارخانوں، کانوں اور دیگر پرخطر ملازمتوں پر نہیں رکھا جائے گا۔ گو ایمپلائمنٹ آف چلڈرن ایکٹ 1991 اور ایمپلائمنٹ آف چلڈرن رولز 1995 جیسے ایکٹس بچوں کے حالات کار کو ضابطہ اخلاق میں لاتے ہیں ۔ لیکن ہمارے ہاں المیہ یہ ہے کہ چائلڈ لیبر قوانین تو بنے ہیں لیکن آج تک کسی کو بھی ان قوانین کی خلاف ورزی کے حوالے سے سزا نہیں سنائی گئی اور عملاً صورت حال سب کے سامنے ہے۔

امیر لوگوں کے گھروں میں کام کرنے والے بچوں کے حالات کار سب سے برے ہیں جن پر شدید تشدد کے واقعات آئے روز منظر عام پر آتے رہتے ہیں،اس کے علاوہ بیشتر کاروباری مقامات اور ورکشاپش میں محنت کش بچوں پر معمولی معمولی بات پر پر تشدد واقعات معمول بن چکا ہے۔ دیہات میں اینٹوں کے بھٹوں اور کھیتوں جبکہ شہروں میں سڑکوں اور ورکشاپوں اور چھوٹے کارخانوں میں پابندی کے باوجود معصوم بچوں سے مشقت لی جاتی ہے۔ اس طرح ان ننے ہاتھوں میں قلم کی جگہ اوزاروں نے لے لی ہے۔ معصوم بچے جب حالات سے مجبور ہوکرہنسنے کھیلنے کے دنوں میں کام کرنے کے لئے نکل کھڑے ہوتے ہیں تویقیناًاس معاشرے کیلئے ایک المیہ وجود پارہاہوتاہے، پاکستان میں موجودمعاشی بدحالی، سہولیات سے محرومی، استحصال، بے روزگاری، غربت اور وسائل کی غیرمنصفانہ تقسیم نے جگہ جگہ اس المیے کوجنم دے رکھا ہے جو بڑھتے بڑھتے ناسور بنتاچلاجارہاہے۔

امیر کے امیرتر اور غریب کے غریب تر ہونے پرقابو نہ پائے جانے کی وجہ سے اب لوگ اس کے سوا کوئی راہ نہیں پاتے کہ وہ بچوں کوابتدا سے ہی کام پرلگادیں تاکہ ان کے گھروں کاچولہا جلتا رہے اور ضروریات زندگی پوری ہوتی رہیں، چاہے ایسا کرنے سے قیمتی زندگیاں داؤ پر لگی رہیں۔ بلاشبہ مہنگائی اور بے روزگاری کی وجہ سے بہت سے غریب خاندانوں کواپنے بچے محنت و مشقت پر لگانا ان کی مجبوری بن چکا ہے لیکن یہ بھی جائز نہیں ایسے موقع پر معاشرہ کوئی کردار ہی ادا نہ کرے ، معاشرے کا فرض بنتا ہے کہ بچوں سے محنت و مشقت لینے کے بجائے ان کی تعلیم ،صحت اور خوراک کیلئے ان کے والدین کو مناسب سپورٹ کیا جائے ۔

بچوں سے مشقت کے خاتمے کیلئے معاشرے کے ہر فرد کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس کر تے ہوئے موثر ترین کردار ادا کرنا چاہئے تاکہ متاثرہ بچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کیا جاسکے ۔ عجیب صورتحال ہے کہ کل تک گھریلو تشدد کا شکار کمسن بچی ایک اجنبی گھر میں لاوارثوں کی طرح زندگی بسر کرنے پر مجبور تھی ، اور آج جب اس بچی پرظلم کی داستان میڈیا کی زینت بنی اور پاکستان سپریم کورٹ نے از خود نوٹس لیا تو اس بچی کے بہت سے وارث سامنے آگئے ہیں ۔ یہاں ضرورت اس امر کی ہے کہ بچی کے حقیقی وارثان کا تعین ہونے کے بعد وارثان کے خلاف بھی موثر قانونی کاروائی عمل میں لائی جائے کیونکہ بچی کو اس طرح لاوراث چھوڑنے پر یہ بھی برابر کے شریک جرم ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے