انسانی فطرت میں ارتقاء کا عنصر اور تبدیلی کا رجحا ن قد رت کا ودیعت کردہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ایک قسم کے موسم، ایک قسم کے لباس یا پھر ایک قسم کے خوراک سے اُکتا جاتا ہے۔اُسے تبدیلی اور مختلف وقتوں میں مختلف قسم کی چیزیں اچھی لگتی ہیں۔ جیسا کہ ہر موسم میں پھل الگ ہوتے ہیں ۔ اسی طرح ہر موسم میں لباس بدل جاتا ہے اور خوراک بھی انسان معاشرے کے ان فطری تبدیلیوں کی طرح پاکستا ن کی سرزمین پر سیاست بھی موسمی پھلوں کی طرح آئے روز ذائقہ کی تبدیلی کے لئے بدلتی رہتی ہے۔ یہ ملک کی اور عوام کی بد قسمتی ہے کہ باقی دنیا کے برعکس یہاں پر ملکی سیاست سیاسی جماعتوں کی عوامی اور قومی خدمت کی بنیاد پر نہیں ہوتی اور نہ ہی دنیا کے صحیح جمھوری اقدار کے حامل ممالک کی طرح پاکستان میں سیاست منشور اور فکر و نظر کی محتاج ہوتی ہے۔یہاں پر ملک کی سیاسی جماعتیں قوم کے سامنے اپنا کردار پیش کرنے کی بجائے اپنے مخالفین کے سیاہ کارناموں کی کھوج لگانے میں لگی رہتی ہے۔
جو کام صحافت کے شعبے سے تعلق رکھنے والے لوگوں کا ہونا چاہئے وہ ملک کی سیاسی جماعتیں بدرجہء اتم سر انجام دے رہی ہیں۔ یہاں حزبِ اقتدار ہو یا کہ حزبِ اختلاف۔۔
عوام کے جذبات کے ساتھ ہر روز اسطرح کھیلتی ہیں جسطرح ایک شاطر کرکٹر یا پھر رونالڈو یا میسی کی طرح فٹبال کا ماہر گیند کے ساتھ میدان میں کھیلتا ہے۔ہر سیاسی مداری کی دکان پر عوام کے مرض کی کوئی گارگر دوا نہیں ملتی بلکہ ہوتا یوں ہے کہ ہر دکان کے آگے کچھ سیاسی جمبورے ڈگڈگی ہاتھ میں لئے بالکل اُسی طرح کہ جسطرح بدلتے موسم کے ساتھ منہ کا ذائقہ بدلنے انسان پھل بدل بدل کے کھاتا ہے۔ یہ سیاسی مداری ہر موقع اور محل کے مطابق عوام کے سامنے کوئی پُر کشش نظارہ سجانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔
یہ بے ایمانی کا کھیل نہایت ہی ایمانداری کے ساتھ ہر سیاسی جماعت کے پلیٹ فارم پر ملک کی بد قسمت عوام کے ساتھ کھیلا جاتا ہے۔ہر جانے والی حکومت کے پاس اپنی کرپشن ، بے ایمانی اور عوام کی دولت لوٹنے کے مکروہ عمل کو چھپانے کیلئے ہزار ہا بہانے نت نئے انداز کے ساتھ بڑی خوبصورتی کے ساتھ دُکانِ منافقت پر سجے ہوتے ہیں۔ جبکہ حکومت میں آنے والے سیاستدانوں کے پاس گذشتہ حکومت کی سیہ کاریوں اور ملک کی ڈوبتی ہوئی معیشت کا رونا تو بہر حال موجود ہوتا ہے۔ اسکے ساتھ جھوٹ پر مبنی کچھ حسین وعدے اور اپنے دشمنوں کو احتساب کے نام پر زیر کرنے کے دلآویز نعرے انکے کارندوں کی زبانوں پر یوں رواں و دواں اور قابلِ رشک ہوتے ہیں جیسے کہ فال نکالنے والے طوطے کی سلیقہ مندی اور پھرتیاں دیدنی ہوتی ہیں۔
بس جی صاحبِ ضمیر جب آنکھ اُٹھا کر دیکھتا ہے تو سیاست کی منڈی کے تکلیف دہ مناظرروح کو زخمی اور احساس کو ہلا دینے کے لئے کافی ہوتی ہیں۔ کہیں مذہب کی دکان پر ہر موسم اور ہر ماحول کے مطابق جہاد، ایمانداری، خلافتِ راشدہ کے عملی نمونے کی جد و جہد اور اسلام کے عادلانہ نظام کی بھر پور کوششوں کے پُر کشش موسمی اور ماحولیاتی پھل نظر آتے ہیں۔ کہیں غریب اور مزدور کے منہ سے بچی کچُی روٹی چھیننے کی تگ و دو میں سیکولر جمبورے روٹی ، کپڑے اور مکان کے رس بھرے پھلوں کے ناموں اور شکلوں سے عوام کے منہ میں پانی بھر لانے کی کامیاب کوشش میں مصروف ہیں۔ جسکا کامیاب نتیجہ دبئی اور لندن کی پُر تعیش زندگیاں اور کروڑں اور اربوں کی جائیدادیں یہ سیاسی مداری قوم سے معاضے کو طور پر لے چُکے ہیں ۔ کوئی پاکستان بھر کے سارے دولت کو تختِ لاہور پر قربان کرنے پر تُلا ہوا ہے۔ پاکستان کو اقتصادی قوت بنانے کے موسمی، کہیں بجلی کے عذاب سے نجات کا سیب ، کہیں اقتصادی راہداری کے پُرفریب نعرے کا انار جسکا جوس سارا اورنج ٹرین جیسے گڑھے میں ڈال دیا گیا۔ اس سے دو قدم آگے تبدیلی کے نام کا بھدا اور بھونڈا اچار جو کافی سڑچکا ہے ۔ اگلے سیاسی مداری کی دکان پر جمبوروں کی فوج نعرے لگاتے ہوئی بیچتی نظر آئے گی ۔
اس سے بھی تکلیف دہ حقیقت یہ ہے کہ میدانِ سیاست کے یہ پیشہ ور اور ملک و ملت کے درد سے عاری یہ مداری اور چلتے پھرتے لاشے جب ملک کی باگ ڈور ہاتھ میں لیتے ہیں تو نہ ادارے ترقی کرتے ہیں اور نہ ہی اقتصادی حالت خود انحصاری کی عکاس ہوتی ہے۔ بلکہ ہر سال ملک قرضوں کے بوجھ تلے دبتا جاتا ہے۔ جبکہ ان سب کی اپنی ذاتی کاروباروں میں نہ کبھی نقصان ہوتا ہے اور نہ ہی انکا کاروبار دوسروں کے قرضوں تلے دبا نظر آتا ہے۔ اب اس تلخ حقیقت کا فیصلہ خود ہم ملک کے باسیوں کو کرنا ہے۔ کہ یہ لوگ درد سے عاری اور حمیتِ قومی سے میلوں دور یا پھر واقعی ملک و قوم کے ہمدرد اور غمگسا ر ہیں۔
آج کل پاکستان کی سیاسی منڈی میں جس موسمی پھل کی بہت مانگ ہے اور جو کہ ہر سیاسی شعبدہ باز کے دکان کی زینت ہے وہ پانامہ لیکس کا کھٹا میٹھا یا پھر کڑوا مگر قیمتی پھل ہے۔ ہر دکاندار اُسے اپنے طریقے سے بیچ رہا ہے۔ ہر سیاسی دکان کے جمبورے دن رات اپنی ڈگڈگی ہاتھ میں لے کر عوام کے مجمع کو اپنی طرف متوجہ کرنے میں مصروف ہیں۔ ملک کے وزیرِ اعظم کے ذاتی کردار پر سوال اُٹھا ہے۔ لیکن ضمیر و حمیت کے جنازے سڑکوں پر سرِ عام نکل رہے ہیں کہ عوام کے ووٹ اور عوام کے ٹیکسوں پر پلنے والے سیاسی جمبوروں نے اُسے حکومت کی جنگ بنادیا ہے۔ اور شاہ کے وفاداری میں یہ بھول گئے کہ اپنے ذات کی صفائی حکمران خود دے نہ کہ عوام کے دکھ درد کا مداوا کرنے پارلیمنٹ میں گئے ہوئے یہ بے جان لاشے اسکے سیاہ و سفید کو آب،زمزم سے دھونے کا عملِ نیک سر انجام دیں۔
افسوس اور الم کا مقام ہے کہ پاکستان کی سیاست قیام سے لے کر آج تک انہی موسمی پھلوں کے مصداق واقعات اور حادثات پر چل رہی ہے۔ یہ شاید اس قوم کی بدقسمتی ہے اور اللہ کی ناراضگی ہے کہ ہمیں آج تک یہ سیاسی شعبدہ باز کبھی اپنے دکان میں وفا و حیا کے نودرات بیچتے ہوئے نظر نہیں آئے۔ اے کاش۔۔۔ کبھی انکے دکانوں پر قومی حمیت اور ملکی وقار کے جذبے بھی سجے نظر آتے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ ہمارے یہ سیاسی ناخدا کبھی موسمی اور حادثاتی واقعات کی جگہ اپنے اخلاق ، اپنے کردار اور اپنی کارکردگی کے شہ پارے بیچھتے ہوئے نظر آتے۔ ذاتیات سے بالا تر ہوکر ملک و قوم کے نازک اور توجہ طلب مسائل پر کبھی اپنا وقت قربان کرتے لیکن شاید ایسا کرنے میں نہ تو اقتدار کے مزے ہونگے اور نہ ہی دولت کی ریل پیل بلک مصائب اور قربانیاں ہونگی ۔ جو انکا مطمحِ نظر نہیں۔
ہمارے خطے میں سیاسی منظر نامہ بدل رہا ہے۔ دوستی اور دشمنی کے پیمانے اور معیار بدل رہے ہیں۔ مغربی اور مشرقی بارڈر پر توجہ طلب مسائل ہیں ۔ سی ۔پیک کا شاندار لیکن اعصاب شکن اور توجہ طلب منصوبہ ہے لیکن اقتدار و کرسی کے ان متلاشیوں نے پوری قوم کو ، میڈیا کو اور عدالتوں کو پانامہ لیکس کے جھمیلے میں ڈال دیا ہے۔ کہ جیسے اس کیس کے جیت و ہار میں ملک کا مستقبل ہے۔ جبکہ ان جاہلوں کو کون سمجھائے کہ فردِ واحد کی نیکی اور بدی اور جزا و سزا سے قوم کی تقدیر بدلا نہیں کرتی۔