اقبال بین الاقوامی ادارہ برائے تحقیق و مکالمہ کے زیرِ اہتمام پہلا بین المسالک تفریحی دورہ
پاکستان کے معاشرے میں ہمیشہ اتحاد و یگانگت کی ضرورت محسوس کی جاتی رہی ہے ۔عوام تو اتحاد کے پیاسے اور متلاشی ہیں ہی ، خواص بھی اس کی اہمیت کا گہرا ادراک رکھتے ہیں ۔ پاکستان جسے دنیا بھر کےلئے اسلام کے نمونے کے طور پر قائم کیا گیا تھا ، اُس میں پائے جانے والے مختلف مذاہب و مسالک و طبقات کے درمیان ہم آہنگی وقت کا اہم ترین تقاضہ ہے۔بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی بھی اِسی راہ پر گامزن ہے ، اس کے مختلف ادارے اپنے اپنے دائرے میں اپنی ذمہ داریاں ادا کر رہے ہیں ، اُنہی اداروں میں سے ایک اقبال بین الاقوامی ادارہ برائے تحقیق و مکالمہ بھی ہے جس نے اپنے قیام کے گزشتہ آٹھ سالوں میں اس سلسلے میں بھر پور کام کیا ہے۔ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے کہ ادارہ علامہ اقبال کے پیغام امن و محبت کو عام کرنے کا مشن اپنائے ہوئے ہے اور یہ بات کس سے پوشیدہ ہے کہ علامہ اقبال مسلمانوں کے اندرونی اختلافات کے شدید مخالف تھے ۔
وہ مسلمانوں کو مسلکی تنگنائیوں سے نکال کے اوج ثریا تک پہنچانے کے علمبرادار تھے۔ عالامہ اقبالؒ کے انہی افکار کی پیروی میں اقبال بین الاقوامی ادارہ برائے تحقیق و مکالمہ نے مختلف مکاتیبِ فکر کے علماء کو ایک ساتھ بٹھانے ، اپنی آراء کے اظہار اور دوسروں کی بات کو سننے کے لئے کئی پروگرام گزشتہ سالوں میں منعقد کئے ہیں ۔ ان میں استقبالِ رمضان ، سیرت رسول اکرم ﷺ، محرم الحرام کی اہمیت ، فکرِ اقبال اور وحدتِ امت ِمسلمہ اور تعلیمی ادارے خصوصاً دینی تعلیمی اداروں کے کردار پر مُلک کے ممتاز علمائے کرام اور ماہرین ِ تعلیم کو مدعو کیا گیا ۔ عام حالات میں شاید ایک دوسرے سے بہت دور شخصیات جب ادارے میں آئیں تو اتحاد و اتفاق کی ایک نادر تصویر اُبھر کر سامنے آئی تاہم گزشتہ سال ایک ورکشاپ میں ،جس میں تمام مکاتبِ فکر کے مدارس کے سربراہان موجود تھے اور جس سے اسلامی یونیورسٹی کے ریکٹر ، ڈاکٹر معصوم یسین زئی ، صدرِ جامعہ ڈاکٹر احمد بن یوسف الدرویش اور بین الاقوامی ادارہ برائے تحقیق مکالمہ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر حسن الامین نے خطاب کیا تھا،
ایک تجویز یہ سامنے آئی تھی کہ علمائے کرام اوپر کی سطح پر ایک دوسرے سے مل لیتے ہیں لیکن طلبہ میں دوریاں ختم نہیں ہوتیں ۔ تجویز میں کہا گیا کہ مختلف الخیال دینی مدارس کے طلبہ کو بھی قریب آنے کا موقع دیا جائے اور بین الاقوامی ادارہ برائے تحقیق مکالمہ کو یہ ذمہ داری سونپی گئی کہ وہ اس پروگرام کی داغ بیل ڈالے۔ تجویز کو سب نے بالا تفاق منظور کیا تھا اور اقبال بین الاقوامی ادارہ نے دینی مدارس کے طلبہ کے لئے تفریحی پروگراموں کے ایک سلسلے کے انعقاد کا فیصلہ کیا۔ادارہ کے اقبال فیلو محمد یونس قاسمی اور ایڈیشنل ڈائریکٹر سید مزمل حسین کو ان پروگراموں کے انعقاد کی ذمہ داری تفویض کی گئی ۔جمعہ 13 جنوری 2017 ء کو راولپنڈی اسلام آباد کے مختلف مسالک کے 30طلبہ اور اُنکے اساتذہ کو کوہستان نمک کی سیر کروائی گئی ۔ اس دورے کی ایک خاص بات یہ تھی کہ شرکاء کے گروپ اس طرح تشکیل دئے گئے تھے کہ ایک مدرسہ فکر کے شرکاء اپنی ہی سوچ کے طلبہ کے ساتھ نہیں بلکہ دیگر طلبہ و اساتذہ کے ساتھ گفتگو کریں تا کہ اُن میں برسہا برس سے پائی جانے والی خلیج کو پاٹا جا سکے ۔ اِن شرکاء کو کان نمک کی سیر کروائی گئی اور اختتامی تقریب میں اُنکے تاثرات لئے گئے تو بحثیت مجموعی یہ بات سامنے کھُل کر آگئی کہ وہ اپنے ہاں شدید تشنگی محسوس کرتے ہیں وہ ایک دوسرے کو قریب سے جاننے کے متمنی ہیں ۔ وہ مشترکات پربات کرنا چاہتے ہیں وہ اسلام کے پیغام امن و اتحاد کو عام کرنے کے لئے وارفتگی کی حد تک جانے کو تیار بیٹھے ہیں۔
اختتامی تقریب میں مختلف الخیال مدارس کے طلبہ و اساتذہ نے اظہار ِ خیال کیا۔
[pullquote] سید ثقلین فخری ،جامعۃ الرضا ،اسلام آباد: [/pullquote]اقبال بین الاقوامی ادارہ برائے تحقیق و مکالمہ نے زندگی میں ایک نیا پن پیدا کر دیا ہے ۔لازم ہے کہ اس طرح کے پروگرام ملک کے دیگر شہروں میں بھی منعقد کئے جائیں تا کہ اقبال ؒ کے خواب جو مسلمانوں کے اتحاد کا پیغام تھا کی عملاً صورت گری ہو سکے ۔
[pullquote]عثمان خان، جامعہ سلفیہ ،اسلام آباد: [/pullquote]ہم اتحاد و اتفاق کی راہ سے ہٹ کر قرآن و سنت کے پیغام کی اشاعت کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں ۔ دُنیا اسلام کے پیغام امن کی پیاسی ہے اور ہم اُسے اسلام کاصحیح پیغام پہنچانے سے قاصر ہیں ۔ اقبال بین الاقوامی ادارہ نے ہمیں ایک ساتھ بٹھا کر ہماری زندگیوں میں ایک مثبت تبدیلی کی جانب پیش قدمی کی ہے ۔
[pullquote] عادل خان ،جامعہ محمدیہ، اسلام آباد :[/pullquote] اقبال کے نام پر قائم ادارہ یہ عظیم خدمت انجام دے رہا ہے کہ اُمتِ واحدہ کے تصور کی راہ میں حائل سب بڑی رکاوٹ یعنی باہمی دوری کو دُور کر رہا ہے ۔ اسلامی یونیورسٹی کی قیادت اِس کے لئے مبارکباد کی مستحق ہے ۔
[pullquote]عبدالرحیم اسد ،ادارہ علوم اسلامی، سترہ میل، اسلام آباد :[/pullquote]ارے یہ تو ہمیں کھیل کھیل میں بہت کچھ دے گئے ہیں ۔ ہم نے کان ِ نمک کی سیر کی لیکن جس انداز میں یہ پروگرام ترتیب دیا گیا ، اُس نے اُسے با مقصد ترین بنا دیا ۔ انہوں نے ہمیں اِس طرح گُھل مِل کر وقت گزارنے کی راہ دکھائی کہ ہم وقتی طور پر ہی سہی ، خود کو ایک اور عالم میں محسوس کر رہے ہیں ۔
[pullquote] قطب الدین عباسی، دارالعلوم محمدیہ غوثیہ ،اسلام آباد :[/pullquote] اخبارات میں اقبال بین الاقوامی ادارہ کے بارے میں تھوڑا بہت پڑھ رکھا تھا، آج پتہ چلا کہ یہ ادارہ کس طرح رضائے الہی اور رضائے مصطٰفیؐ کی راہ پر گامزن ہے ۔ ظاہر ہےکہ رضائے الٰہی اور رضائے مصطٰفیؐ”ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے “ میں مضمر ہے ۔
اختتامی تقریب سے تفریحی پروگرام میں شریک اساتذہ میں سے مفتی شکیل احمد جامعہ محمدیہ ایف سکس فور اسلام آباد نے اِس طرح مختلف الخیال طلبہ اور اساتذہ کے ساتھ سفر اور پھر اُس کے ذریعے پیغام اخوت و محبت کو عام کرنے کو ایک تاریخ ساز قدم قرار دیا ۔
[pullquote] حافظ اعجاز احمد ، استاد ، جامعہ سلفیہ ،اسلام آباد[/pullquote] نےبرسہابرس پر محیط غلط فہمیوں کی بات کی اورکہا کہ اس طرح کے پروگرام اُن کے لیے تریاق ہیں تمام کلمہ گو مسلمان ہیں اور ان پر اپنے رب اور اُس کے آخری رسولؐ کے پیغام کو دوسروں تک پہنچانے کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے ۔یہ پیغام کیسے موثر انداز میں پہنچے ۔ تفریح کو اُس کا ذریعہ بنا نا کوئی اقبالؒ کے نام پر قائم ادارہ سے سیکھے ،
تقریب کے اختتام پر شرکاء میں اسناد تقسیم کی گئیں ،اقبال بین الاقوامی ادارہ برائے تحقیق و مکالمہ کے سربراہ ڈاکٹر حسن الامین کی نیابت کرتے ہوئے سید مزمل حسین ، ادارہ کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر محمد اسماعیل اور اقبال فیلو محمد یونس قاسمی اور احسان الحق نے شرکاء میں اسناد تقسیم کیں۔