ہائے کمبخت، تو نے کبھی پی ہی نہیں

مکتب خیال

سبوخ سید

sabooh.syed@gmail.com

25FBF3B4-2457-447C-B0EF-DB10ADE874D9_cx0_cy11_cw0_w900_r1_s_r1

میرے کچھ بھائیوں ،دوستوں اور بزرگوں نے رمضان کے مہینے میں سوشل میڈیا پر تصوف کے حوالے سے  ایک شور مچا رکھا ہے۔ کان پڑی اؐواز نہیں سنائی دے رہی  ۔

یوں محسوس ہوتا ہے کہ مغفرت کے عشرے میں فیصلہ ہو جائے گا کہ تصوف کیا ہے ؟۔
میں خود ایک صوفی منش آدمی ہوں ۔ ملامتی لکھتاہوں اور سمجھتا ہوں کہ
صوفی بننے کے بجائے ملنگ بننا زیادہ بہتر ہے کیونکہ ملنگ کسی کا مقلد نہیں ہوتا ، اپنی کیفیت میں رہتا ہے ۔
چرس اور بھنگ اسے اس کی حق شناسی سے نہیں روک سکتی ۔ بلکہ حق شناسی کے لیے زاد راہ کا کام دیتی ہیں ۔
ایک چرسی نے کش لیا اور اسے اپنے وجود مسعود کی گہرائیوں کا اشنان کرانے کے بعد ایک بھرپور انگڑائ لی ۔
ہونٹوں کو گول کر کے مفتی صاحب کے چہرے پر تطہیری دھویں کے مرغولے بناتے ہو ئے بولا
"ہائے کمبخت تو کیا جانے ۔ تو نے کبھی پی ہی نہیں "

پو لئیے منجھے کا آئیڈیا ،انور مسعود صاحب نے اس چرسی کے علم علیم سے ہی لیا تھا۔

ایک صاحب سلوک نے درہ آدم خیل کی مارکیٹ میں مجھے چائے کے لیے بلایا ۔ اس کی دکان کا نام تھا "آفریدی گفٹ سنٹر ”
مجھے ایک سٹول پر بٹھایا اور خوشنما سیاہ ڈبی سے ایک کالی سی گٹکی نکالی اور بائیں ہاتھ کی تلی پر دائیں ہاتھ کے انگوٹھے سے ملنے لگا ۔
سگریٹ کی کلی سے تمباکو نکالا اور ماچس کی تیلی سے جلا کر اس موم کو سگریٹ کے مقام خاص پر رکھ کر نکالا گیا تمباکو دوبارہ سے اس میں ڈال دیا ۔
چار کش لگائے تو اس کی آنکھوں میں سرخی دوڑنے لگی ۔
درویشوں کی طرح کبھی زمین پر ہوتا اور کبھی آسمان پر ۔
میری طرف گھورتے ہوئے بولا
عصر پڑھی ہے ؟
میں نے کہا کہ
"انسان خسارے میں ہے ”
کہنے لگا ۔
کچھ لوگ دم سے متقی بنتے ہیں اور کچھ دارو سے
چرس پیتے ہیں اور اپنے وجود کو پاؤڈر بنا کر دنیا کو بتاتے ہیں کہ بقا کو فنا پر ترجیح دینا شیطنت ہے ۔ صاحبان کش ایک کش میں بتا دیتے ہیں کہ معرفت اور پارسائی کیا ہوتی ہے ۔
میں نے منزل مردود سے مقام محمود پر دیکھا اور سر جھٹکتے ہو ئے کہا کہ
جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے
باغ تو سارا جانے ہے ۔

ایک چرسی نے مجھے مصافحہ کیا اور کہنے لگا
مرشد ،ایک بات سمجھ لو
اللہ کی رضا کو ہمیشہ مقدم رکھو تاکہ منازل تقویٰ و طہارت حاصل کر سکو ۔
میں نے اس کی آنکھوں گھستے ہوئے عین الیقین کا نطارہ کیا اور مقام حق الیقین تک جا پہنچا ۔
میری نگاہوں کے سامنے عجز و انکسار کے پیکر ناصر کاظمی ،ساغر صدیقی اور ساحر لدھیانوی دوڑ گئے جو ہمہ وقت شراب کے نشے میں دھت رہتے تھے اور عشق و مستی ان پر وجد طاری رکھتی ۔
ندائے غیب آئی کہ
اللہ والے تھے ۔
اس سے پہلے کوئی میرا گریبان پکڑتا ، میں نے خود اپنے ہاتھوں سے اپنا گریبان پکڑ لیا لیکن کیا دیکھتاہوں کہ میرا گریبان گرفت میں ہے لیکن ہاتھ میرے نہیں ۔

چار برس ہونے کو ہیں ۔
” آذر بھائی جان "(تصیح کرانے کی کوشش نہ کرنا ) کے سفارت خانے نے سرینا ہوٹل میں اپنے قومی دن کی تقریبات کا اہتمام کیا۔ اس تقریب میں آزمائش کا ہر سامان موجود تھا ۔ میں نے اس دن بڑے بڑے عقیدت کے قلعے جھومتے دیکھے ۔
یہ ان دنوں کا واقعہ ہے کہ جب اس ملک کے وزیر داخلہ رحمان ملک صاحب اور وزیر قانون ڈاکٹر بابر اعوان ہوا کر تے تھے ۔
میں اور رحمان ملک سٹیج پر بیٹھے تھے اور دائیں طرف کونے میں دور پر دور چل رہے تھے ۔ رحمان ملک نے انجان بنتے ہوئے مجھ سے پوچھا کہ
یہ کونے میں رش کیوں ہے ؟
میں نے کہا کہ ملک صاحب ۔
یہ وہ لوگ ہیں جنہیں اللہ کی رحمت پر ہم سے زیادہ یقین ہے ۔
بابر اعوان صاحب قہقہ لگاتے ہوئے گرتے گرتے بچے اور رحمان ملک نے میرا ہاتھ تھامتے ہوئے کہا کہ
یار خدا کا واسطہ ہے ۔
میں نے کہا کہ
سامنے راستہ ہے ۔
باقی علی جانے

نوٹ :یہ تحریر نشے کی حالت میں نہیں بلکہ روزے کی حالت میں لکھی گئی ہے ،اس لیے کسی نے میرے خلاف کوئی بات بھی کہی تو میں صرف اتنا ہی کہوں گا کہ "میں روزے سے ہوں ”
دوسری بات ” ذہنی معذور اور بیمار حضرات ” اس تحریر کو پڑھ کر اپنا وقت ضائع کرنے کے بجائے ڈاکٹر کے پاس جا کر علاج کرائیں ۔
جو پڑھ لیں ،وہ افطاری لسی سے کریں

نوٹ :ادارے کا مضمون نگار کی رائے اتفاق ضروری نہیں

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے