میرا ایمان ہے کہ ہماری نجات کا واحد ذریعہ اس سنہری اصولوں والے ضابطہ حیات پر ہے جو ہمارے عظیم واضح قانون پیغمبر اسلامﷺ نے ہمارے لیئے قائم کر رکھے ہیں۔ہمیں اپنی جمہوریت کی بنیادیں سچے اسلامی اصولوں اور تصورات پر رکھنی چاہئیں۔اسلام کا سبق یہ ہے کہ مملکت کے امور اور مسائل کے بارے میں فیصلے باہمی بحث و تمحیص سے کیئے جائیں۔یہ کلمات قائداعظم محمد علی جناح نے ۴ فروری ۸۴۹۱ کو سبی میں خطاب کے دوران ارشاد فرمائے تھے ۔
۳۱ جنوری ۸۴۹۱ کو اسلامیہ کالج پشاور کے جلسہ میں خطاب کرتے ہوئے قائداعظم نے فرمایا تھا :
ہم نے پاکستان کا مطالبہ ایک زمین کا ٹکڑا حاصل کرنے کے لیئے نہیں کیا تھا بلکہ ہم ایک ایسی تجربہ گاہ حاصل کرنا چاہتے تھے جہاں ہم اسلام کے اصولوں کو آزما سکیں۔قائداعظم کے ان ارشادات پر ایک غور کیا جائے تو ایک بات واضح ہوجاتی ہے کہ قائداعظم کے ذہن میں کسی سیکولر ریاست کا تصور بالکل نہ تھا ،قائداعظم پاکستان کو ایک مکمل اسلامی ملک دیکھنا چاہتے تھے،جہاں پر اسلامی قوانین کا نفاذ ہو اور اسلامی اصولوں کو آزمایا جاسکے۔
۰۷ برس گزر گئے مگرہم پاکستان کو ایک مکمل اسلامی ملک نہیں بنا سکے ۔آج ملک میں سیکولرریاست کی بات کی جاتی ہے ،سیکولرزم کے نفاذ کے لیئے مقتدرحلقوں میں سنجیدہ کوششیں ایک عرصے سے جاری ہیں،سیکولر نظام کے حامی قائداعظم کے تصورات کو بھی سیکولرزم کا نام دیتے ہیں اور مفاد کی خاطر وقت کے ساتھ ساتھ سیکولرزم کی تعریف بھی تبدیل کرتے ہیں۔سیکولرزم کے ساتھ مذہب کو بھی جوڑا جاتاہے اور کہا جاتا ہے کہ پاکستان کی بقا ’’سیکولر اسلام‘‘ میں ہے ۔
پہلی بات تو یہ کہ سیکولرزم مذہب کو برداشت ہی نہیں کرتااگرچہ یہ بھی کہاجاتا ہے کہ مذہب فرد کا نجی معاملہ ہے اور سیکولرزم کا اس سے کوئی سروکار نہیں مگر حقیقتاََ یہ دھوکے کے سوا کچھ نہیں۔سیکولرزم کا اسلام میں دور دور تک کوئی تصور نہیں۔
قرون وسطیٰ میں جب یورپ کے زمانہ جاہلیت کا تصور غائب ہوگیا اور اس کی جگہ منصفانہ جنگ نے لے لی،یہ دور یورپ میں صد سالہ،سی سالہ،اور ہفت سالہ جنگوں سے عبارت تھا ۔صد سالہ جنگ فرانس اور انگلستان کے درمیان لڑی گئی اور سی سالہ جنگ وسطی یورپ میں لڑی گئی جو معاہدہ ’’ویسٹ فالیا‘‘ پر منتج ہوئی ۔سی سالہ جنگ نے ہیومنزم پر جو مظالم ٖڈھائے اس کے نتیجے میں روشن خیالی،سائنسی انقلاب،اور عقلیت پرستی کے نعروں نے جنم لیا۔انگریز مفکر جان لاک کا کہناتھا’’ریاست کو سول اور فطری قوانین کی حدود میں رہ کر کا م کرنا چاہیئے‘‘یوں فطری قوانین کی آڑ میں سیکولرزم کی بنیاد رکھ دی گئی۔
یہ دوریورپ میں ریاست میں کلیسایا مذہب سے علیحدگی کا دور تھا ۔جس کا اظہار عقلیت پرستی اور فطری قوانین کی شکل میں پاپائیت کے انسانیت کش جبر کے نتیجے میں مذہب کو ریاست سے الگ کر کے کیا گیااور سیکولرزم کا دور دورہ ہواحتیٰ کہ جمہوریت اور سیکولرزم لازم و ملزوم ٹھہرے ۔ریاست کو الہامی قوانین سے قطع تعلق کر دیاگیا،فطری قوانین کے اطلاق کے نتیجے میں زناکاری،اغلام بازی،عریانی اور فحاشی کو فروغ ملااور یہ اخلاقی برائیاں تہذیب مغرب کا طرہ امتیاز ٹھہریں،انسانی اخلاق معاشرتی ضرورتوں کے تابع قرار پائے ۔چنانچہ اخلاقیات سے عاری یورپ کی مسیحی قوم مغربی افریقہ سے سیاہ فام مسلمانوں کو غلام بنا کر براعظم امریکہ میں غلاموں کی منڈیوں میں بیچنے لگیں۔
یہ تو تھی سیکولرزم کی بنیاد کی بات اب اگر پاکستان کی بات کی جائے تو پاکستان بھی اپنے قیام کے ساتھ ہی مختلف سازشوں کی زد میں آگیا تھا،مغربی ابلیسی نظریات سے اسے اپنی اماج گاہ بنانے کی بھرپور کوشش جاری رکھی ۔۰۵۹۱،۰۶۹۱اور ۰۷۹۱ کی دہائیوں میں سیکولرزم کے دوش بدوش یہاں سوشلزم اور کمیونزم کے غیر اسلامی نظریات کا پرچار کرنے کی کوشش کی گئی۔کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان نے یہاں ۱۵۹۱ میں کمیونسٹ انقلاب برپا کرنے کی ناکام کوشش کی جسے ’’راولپنڈی سازش کیس‘‘ کہا جاتا ہے ۔۷۶۹۱ میں جب ذوالفقار علی بھٹو نے پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی اور سوشلزم کا پرچم تھاماتو کمیونسٹ اور سیکولر نظریات رکھنے والے بیشتر لوگ ان کے ہمنوا بنے انہیں سیکولر نظریات کے جاہ پرست جرنیلوں کی حمایت بھی حاصل ہوگئی۔پھر وقت نے دیکھاسیکولر نظریات کے حامیوں کی ملی بھگت اور بیرونی سازشو ں کی بھینٹ چڑھ کہ ۱۷۹۱ میں پاکستان دولخت ہوگیا،اسکے باوجود بھی ملک میں سیکولرزم اور سوشلزم کا پرچار جاری رہا،جو اب تک جاری ہے اور اب تو حالات اس حد تک پہنچ گئے کہ سیکولر زم کو ملک کی بقا کے لیئے ضروری قرار دیاجانے لگا ہے ۔
حال ہی میں وجاہت مسعود صاحب نے’’ سیکولرزم جرم نہیں ‘‘کے نام سے کالم لکھا اورپھر مختلف دلائل دیتے ہوئے یہ بات ثابت کرنے کی کوشش کی کہ سیکولرزم کوئی جرم نہیں اور سیکولر نظام بہترین نظام ہے ،مگر وجاہت مسعود صاحب نے یہ نہیں بتایاکہ جس ریاست کے دستور کے پیش نظرشریعت اسلامی رہی ہو کیا اس ریاست کو سیکولر ریاست کا درجہ دیا جاسکتا ہے؟کیا سیکولر زم کا اسلام میں کوئی تصور ہے؟۔
اگر ملک کو سیکولر ریاست ہی بنانا تھا تو پھر دو قومی نظریے کی کیا ضرورت تھی؟یہ بات میری سوچوں کے محور سے ٹکراتی تو ضرور ہے مگر دماغ یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ اسلام کے نام پر بننے والے ملک میں سیکولرزم کا تصور کس بنیاد پر عام کرنے کی کوشش کی جاری ہے ؟ اگر سیکولرزم ہی ہماری منزل تھی تو پھر ہندوستان سے الگ ہونے کی ضرورت ہی کیا تھی ؟کانگریس بھی سیکولرزم کی بنیاد پر یک قومی نظریے کی بات کر رہی تھی اس لیئے وہاں کا آئین بھی سیکولر بنا۔
پاکستان میں سیکولرزم کے حاملین یہ بات کیوں بھول گئے ہیں کہ سیکولرزم یورپ کی پیداوار ہے اور اس کا اصل ہدف امت مسلمہ کو موجودہ دور میں اسلام سے بیزار کر کے مادیت سے وابسطہ کرنا ہے تاکہ مغرب کی بالادستی قائم رہے اور مسلمان کبھی سر نہ اٹھا سکیں۔
اسلام کے خلاف مغرب کی اس فکری یلغار کو ثقافت اور تبادلہ ثقافت کا نام دیا جاتا ہے،تاکہ فکری یلغار کا احساس زندہ نہ ہو اور مسلمان من و عن مغربی ثقافت کو قبول کریں۔بلادلیل اسلام کو دہشت گرد اور مسلمانوں کو متعصب ،ظالم ،قاتل اور سفاک ثابت کیا جاتا ہے تاکہ لوگ اسلام اور مسلمانوں سے متنفر رہیں۔
قارئین کرام:سیکولرزم سراسر ہماری اصلیت اور حاکمیت اعلیٰ کے خلاف ہے ۔اس کے وجود کے پس منظر کا مسلمانوں سے کوئی تعلق نہیں،ہماری قدریں،ہمارے شعائراور ہمارے عقائد اس سے بالکل مختلف ہیں۔اہل مغرب نے سیکولر نظام اپنے مفاد کے لیئے اختیار کیامگر ہمارے ہاں سیکولرزم کو اپنانے کا مطلب بے شمار مسائل کو جنم دینا ہے ،جن کا حل ناممکن ہوگا۔
سیکولرزم نے اہل مغرب کے عقیدہ،شریعت اور ان کے رب کی جانب سے ان پر عائدکردہ احکام سے متصادم نہیں جبکہ ہمارے عقیدہ سے متصادم ہے ،کیونکہ ہمارے عقیدہ کا بنیادی تقاضا اللہ اور اس کے رسولﷺ کے احکامات پر عمل پیرا ہونا ہے۔مغرب میں سیکولرزم نے دین،مذہب اور رجال دین کے اثر ورسوخ کو ختم نہیں کیابلکہ دنیاوی اقتدار اور روحانی اقتدار میں تفریق کر دی ہے ۔کلیسا اپنے لوگوں اور اپنے مال و دولت کے ساتھاپنے اقتدار اور اثرورسوخ کو بدستور بروئے کار لا رہا ہے ۔
اسلام میں علیحدہ اور مستقل کوئی دینی اقتدار موجود نہیں۔سیکولرزم کا ہمارے یہاں مطلب یہ ہوگا کہ اسلام کا وجود ملک سے ختم ہوجائے اور اسکا کوئی اثر کوئی اختیار باقی نہ رہے اور مغربی باطل نظریات کی تقلید عام ہوجائے۔