اردو زبان کا مستقبل

اردو ہماری قومی زبان ہے شاید اسی لیے ہمیں ہمارے تعلیمی اداروں میں اسے ایک منفرد حیثیت حاصل ہے کیونکہ نہ ہی اساتذہ حضرات اردو میں کوئی دلچسپی رکھتے ہیں اور نہ ہی طالب علم ۔اردو بس محض ایک سبجکٹ کے طور پر نساب میں شامل ہے ۔ہم لوگ اپنی قومی زبان کو چھوڑ کے انگریزی زبان کو ترجیح دیتے ہیں یوں نہ ہی ہمیں انگریزی پہ عبور حاصل ہوتا ہے اور نہ ہی اپنی قومی زبان پہ۔اب ہمارا یہاں تک حال ہو چکا ہے کہ کسی سے اگر دنوں کے اردو میں نام پوچھیں تو سو میں سے ساٹھ فیصد حضرات کو صحیح نام بھی نہ آتے ہوں گے۔

میرا ایک یونیورسٹی کا دوست عرفان عارف، اس کا کزن ایک پرائیویٹ سکول میں ٹیچر ہے اور میٹرک کی اردو کی کلاس پڑھاتاہے ‘ اس نے اپنے سٹوڈنٹس کا ٹیسٹ لینے کے لیے انہیں کچھ اشعار تشریح کرنے کے لیے دیے۔ ان طالب علموں نے جو تشریح کی یقین جانیے دل خون کے آنسوں روتا ہے کہ ہم اردو زبان میں کس قدر مہارت رکھتے ہیں ، بس اس وقت غالب کا شعر یاد آیا
"حیراں ہوں،دل کو رووں یا پیٹوں جگر کو میں”
یقین جانیے اردو کی ایک نئی جہت متعارف کروائی ان طالب علموں نے ۔
اب آپ بھی پڑھ لی جیے۔۔۔
سوالنامہ میں اس شعر کی تشریح کرنے کے لیے کہا گیا تھا
بنا کر فقیروں کا ہم بھیس غالب ۔۔۔۔ تماشائے اہل کرم دیکھتے ہیں

ایک ذہین طالبعلم نے لکھا کہ
’’اِس شعر میں مستنصر حسین تارڑ نے یہ بتانے کی کوشش کی ہے انہوں نے ایک دن سوچا کہ کیوں نہ فقیر بن کے پیسہ کمایا جائے‘ لہٰذا وہ کشکول پکڑ کر "چونک” میں کھڑے ہوگئے ‘ اُسی "چونک ” میں ایک مداری اہل کرم کا تماشا کر رہا تھا ‘ شاعر کو وہ تماشا اتنا پسند آیا کہ وہ بھیک مانگنے کی "باجائے” وہ تماشا دیکھنے لگ گیا اور یوں کچھ بھی نہ کما سکا۔۔۔!!!‘‘
اگلا شعر تھا ,
رنجش ہی سہی ‘ دل ہی دُکھانے کے لیے آ
۔۔آ پھر سے مجھے چھوڑ کے جانے کے لیے آ ..
مستقبل کے ایک معمار نے اس کی تشریح کچھ یوں کی کہ
’’یہ شعر نہیں بلکہ گانا ہے اور اس میں "مہندی حسن” نے یہ کہنے کی کوشش کی ہے کہ اے میرے محبوب تم میرا دل دُکھانے کے لیے آجاؤ لیکن جلدی جلدی مجھے چھوڑ کے چلے جانا کیونکہ مجھے ایک فنکشن میں جانا ہے اور میں لیٹ ہورہا ہوں۔۔۔‘‘
تیسرا شعر تھا۔۔۔!!!
کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مرجاؤں گا ۔۔۔
میں تو دریاہوں سمندر میں اتر جاؤں گا .

ایک لائق فائق طالبہ نے اس کی تشریح کا حق ادا کر دیا۔۔۔پورے یقین کے ساتھ لکھا کہ
’’یہ شعر ثابت کرتا ہے کہ شاعر ایک کافر اور گنہگار شخص ہے جو موت اور آخرت پر یقین نہیں رکھتا اور خود کو دریا کہتا پھرتاہے ‘ اس شعر میں بھی یہ شاعر یہی دعویٰ کر رہا ہے کہ وہ دریا ہے لہذا مرنے کے بعد بحرِ اوقیانوس میں شامل ہوجائے گا اور یوں منکر نکیر کی پوچھ گچھ سے بچ جائے گا‘ لیکن ایسا ہوگا نہیں کیونکہ آخرت برحق ہے اور جو آخرت پر یقین نہیں رکھتا اس کا ٹھکانا دوزخ ہے۔ اللہ اسے ہدایت دے۔ آمین۔۔۔!!!
اگلا شعر یہ تھا۔۔۔!!!
مقام فیض کوئی راہ میں جچا ہی نہیں ۔۔۔
جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے ..

ایک سقراط نے اس کو یوں لکھا کہ ’’اس شعر میں شاعرکوئے یار سے لمبا سفر کرکے راولپنڈی کے ’فیض آباد‘ چوک تک "پونچا” ہے لیکن اسے یہ مقام پسند نہیں آیا کیونکہ یہاں بہت شور ہے‘ شاعر یہاں سے نکل کر ٹھنڈے اور پرفضا مقام "دار” پر جانا چاہتا ہے اور کہہ رہاہے کہ بے شک اسے ” سُوئے” مارے جائیں‘ وہ ہر حال میں "دار ” تک پہنچ کر ہی دم لے گا۔۔۔!!!‘‘
اگلا شعر یہ تھا۔۔۔!!!
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے ۔۔۔
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے ..
جواب تھا کہ
’’یہ شعر وصی شاہ کا ہے اور اس میں انہوں نے بڑی "محارت” سے یہ بتایا ہے کہ ہمیں چاہیے کہ ہم خود کو زیادہ سے زیادہ بلند کرلیں‘ اونچی اونچی بلڈنگیں بنائیں تاکہ خدا سے اتنے قریب ہوجائیں کہ خدا آرام سے ہم سے پوچھ لے کہ اے میرے بندے آخر تم اور کتنی ” اُنچی” منزلیں بنانا چاہتے ہو۔۔۔؟؟؟‘‘
اگلا شعر پھر بڑا مشکل تھا ۔۔۔!!!
سرہانے میر کے آہستہ بولو ۔۔۔
ابھی ٹک روتے روتے سوگیا ہے .
نئی تشریح کے ساتھ اس کا ایک جواب کچھ یوں ملا کہ
’’اس شعر میں "حامد میر ” نے اپنی مصروفیات کا رونا رویا ہے‘ وہ دن بھر مصروف رہتے ہیں‘ رات کو ٹی وی پر ٹاک شو کرتے ہیں‘ ان کی نیند بھی پوری نہیں ہوتی ‘ ہر روز شیو کرتے ہوئے اُنہیں "ٹک” (زخم) بھی لگ جاتاہے اور اتنی زور کا لگتا ہے کہ وہ سارا دن روتے رہتے ہیں اور روتے روتے سو جاتے ہیں لہٰذا وہ اپنی فیملی سے کہہ رہے ہیں کہ میرے سرہانے آہستہ بولو’ مجھے ” ٹَک ” لگا ھے ” ۔

اگلا شعر پھر ایک نیا امتحان تھا۔۔۔!!!
محبت مجھے اُن جوانو ں سے ہے ۔۔. ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند ..
ایک محنت کش سٹوڈنٹ نے اس کی بہترین تشریح کرتے ہوئے لکھا کہ
’’اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ مجھے صرف سلمہ ستارے کا کام کرنے والے جوان اچھے لگتے ہیں اور مجھے محبت بھی انہی سے ہے کیونکہ وہ سارا سارا دن کھڈی پر "کمند” ڈال کر سوئی دھاگے سے کپڑوں پر ستارے لگاتے ہیں اور اسی چکر میں اپنی آنکھیں بھی خراب کر بیٹھتے ہیں۔۔۔‘‘۔
آخری شعر یہ تھا۔۔۔!!!
نشیمن پر نشیمن اس طرح تعمیر کرتا جا ۔۔۔۔
کہ بجلی گرتے گرتے آپ ہی بیزار ہوجائے

علامہ اقبال کے اس شعر سے بھرپور ” انتقام ” لیتے ہوئے ایک لڑکی نے لکھا کہ
’’اس شعر میں شاعر لوڈشیڈنگ سے بہت تنگ نظر آتاہے اور لگتا ہے شاعر کے گھر میں نہ یوـ پی ـایس ہے نہ چارجنگ والا پنکھا‘ اسی لیے وہ کہہ رہا ہے کہ حکومت کوفوری طور پر "نشیمن یعنی کہ بڑے بڑے ڈیم” بنانے چاہئیں تاکہ لوڈشیڈنگ سے بیزار عوام کو کچھ ریلیف مل سکے‘ اس شعر ?”کالا باغ نشیمن” نہیں بنے گا‘ بجلی کا "ماسالا” حل نہیں ہو۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے