ترس رہی ہیں تری دید کو جو مدت سے

چاروں طرف ایک سکوت ہے۔ گہرا اور مہیب سکوت۔ جو چیز جہاں تھی جس پوزیشن میں تھی وہیں تھم چکی ہے۔ آنکھیں ایک طرف لگی پتھرا چکی ہیں۔ کان کسی نامعلوم سمت سے کسی صدا کی آس میں سُن ہو چکے ہیں۔ اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا سانس نیچے ہی رکا ہوا ہے۔بولتی ہوئے زبانیں گنگ ۔ متحرک ہاتھ ، اُٹھے ہوئے قدم ، سب کچھ تھم چکا ہے۔چوکوں پر ، موڑوں پر سب سواریاں ۔ فضاﺅں میں اُڑتے پرندے اور جہاز۔ کچھ بھی تو حرکت نہیں کر رہا۔ چلتی ہو فلم پر جیسے کسی نے ”پاز” کا بٹن دبا دیا ہو۔ اور یہ سب کچھ آج نہیں ہوا۔ پچھلے 47دنوں سے سب کچھ ایسے ہی رکا ہوا ہے۔

فائینل ہونے کے قریب پہنچے ہوئے کاروباری معاہدے رکے ہوئے ہیں۔سفر پر جانے والے۔ بیرون ملک سے آنے والے ٹھہر گئے ہیں۔ہر شخص کے پاس ہر بات کا صرف ایک جواب ہے۔ ذرا رک جاﺅ۔ اسے آلینے دو۔ ہر کوئی انگلیوں پر دن گن رہا ہے۔ 47 دن سے لوگ اس کا رخ انور دیکھنے کو ایڑیاں پر کھڑے ہیں۔ لیکن وہ ہے کہ سامنے آکے نہیں دے رہا۔ اور اس کو بھیجنے والے۔ نہ نہ ان کے بارے کچھ کہنا بے ادبی اور گستاخی کے مترادف ہے۔ اگرچہ معلوم انہیں بھی ہے کہ چلتا ہوا پہیہ رکا ہو ا۔ تبھی تو بار بار کہتے ہیں آنے والا ایسا آئے گا کہ لوگ کبھی بھولیں گے نہیں۔ تو پھر وہ آ کیوں نہیں رہا۔ بھیجنے والے بھیج کیوں نہیں رہے؟ چہار سمت ایک شدید ذہنی اذیت اورد باﺅ کیوں پھیلا دیا گیا ہے۔ بڑھتی ہوئی”انزائیٹی ” انہیں دکھائی کیوں نہیں رہی۔ کوئی کچھ نہ بولے لیکن تکریم میں کمی آ رہی ہے۔ چھنجلاہٹوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ صبر کا پیمانہ خطرے کے نشان کو چھونے لگ گیا ہے۔

کیا یہ لوگوں کے ساتھ ۔ ان کے جذبات ان کی دلچسپی کے ساتھ کوئی مذاق ہو رہا ہے؟ اس کے انت کا بھی کوئی اندازہ نہیں۔ پورا ملک جھونک دیا گیا ہے ایک تکلیف دہ اور مکروہ قسم کے انتظار میں۔ کوئی پوچھنے والا نہیں۔ کوئی آواز اٹھانے والا نہیں۔ پوچھیں گے یا آواز اٹھائیں گے تو بے ادبی ہو جائے گی۔ گستاخی ہو جائے گی۔ لوگ تو خدا سے گلہ اور شکایت کر بیٹھتے ہیں۔

اور پھر اس قدر جان لیوا انتظار کے بعد۔ نسلوں تک یاد رہنے والے جملے کے بعد۔ اگر فیصلہ پھسپھسا آیا۔ اکثریت کو مایوسی ہوئی تو معذرت کے ساتھ تھوک میں گستاخیاں اور بے ادبیاں ہوں گی۔ اب بس کریں جناب۔ خدا کا واسطہ اب بس کریں۔ لوگوں کو اس مصنوعی عذاب سے نکال دیں۔ مسئلہ کشمیر کی جگہ اب پاناما کا فیصلہ ضرب المثل بنتا جا رہا ہے۔ فیصلے لٹک جائیں اور وقت پر نہ ہوں تو اس کے مضمرات اچھے نہیں بہت برے ہوتے ہیں۔ اب نکل آئے جو کچھ نکلنا ہے۔ مزید تاخیر مذاق بن رہی ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے