عمران خان اپنی پوزیشن واضح کریں

ہماری سیاست کاالمیہ ہے کہ اقتدارپرچندمخصوص خاندان کئ دہائیوں سے قابض ہیں۔عوام چہروں کی تبدیلی سے تنگ آگئے ہیں۔ہرنئے حکمران کی صورت میں اپنامسیحاتلاش کرتے ہیں ایکن اے بساآرزوکہ خاک شدہ کے مصداق ہمیشہ ہی نتیجہ ڈھاک کے تین پات کی صورت میں برآمدہوتاہے۔حکمران حلف اٹھاتے ہی تمام دعوے اوروعدے بھول کرانکل سام کی نازبرداری میں لگ جاتے ہیں کیوں کہ انھیں ابتداہی میں باورکرادیاجاتاہے کہ اقتدارجس کی دین ہے اس کی بقابھی اسی کی حکم برداری سے ممکن ہے۔اب حکمرام دوکام کرتے ہیں۔انکل سام کے احکامات کی تکمیل اورعوام کوطفل تسلیوں کے ذریعے ہاتھ میں رکھنا۔یہ کام اکثرمشیران باتدبیرکیاکرتے ہیں جن کی مثال ملادوپیازہ اوربیربل کی سی ہوتی ہے۔دوسری طرف اپوزیشن کی حکومت مخالف سرگرمی بھی فرینڈلی فائرکی حدوں سے آگے نہیں جاتی۔کیوں کہ اس کامطمح نظربھی دونکاتی ایجنڈے پرمبنی ہوتاہے:حکومت سے بڑھ کرانکل سام کی نازبرداری اورعوام کومصروف رکھنا۔یہ سلسلہ عرصے سے جاری ہے۔اورجانے کب تک وطن عزیزاس المیے سے دوچاررہے گی۔

ہرالیکشن میں ایک نیامسیحاسامنے آتاہے اورعوام اپنی تمام توقعات اس سے وابستہ کربیٹھتے ہیں۔وہ بھی قوم کوبے وقوف بنانے میں کوئ کمی نہیں کرتا۔جس قوم کی مابعدالطبیعات کایہ عالم ہوکہ اسے شیخ رشید علامہ طاہرالقادری اوربلاول ذرداری کی شکل میں مسیحانظرآتاہواسے بے وقوف بناناکون سامشکل ہے۔جب کہ سونے پہ سہاگہ اس کاحافظہ بھی مثالی ہے اوریہ صبح کے بھولے کوشام کے وقت بھولانہیں سمجھتی چاہے وہ گھرلوٹ کربھی نہ آئے!

آمدم برسرمطلب۔جوقوم اب بلاول کومسیحابنانے جارہی ہے گزشتہ الیکشن میں اس نے دردکادرماں ایک سابق کھلاڑی کوباورکرلیاتھاکہ کرکٹ کے میدان میں فتوحات کے جھنڈے گاڑنے والاکپتان سیاسی محاذپربھی کامیاب ثابت ہوگا۔سونے کاچمچہ منہ میں لے کرپیداہونے والانوواردسیاست دان مڈل کلاس کے دکھوں کامداواکرے گا۔اس نے بھی انصاف کانعرہ لگایا۔اس کی جماعت کے بانیان میں سنجیدہ اورپڑھے لکھے لوگوں کے نام دیکھ کریہ تاثرمزیدمضبوط ہورہاتھایہ توبہت بعدمیں معلوم ہواکہ یہ مقتدرشخصیات بھی محض حسن ظن کی بنیادپراس قافلے میں شامل ہوئ تھیں اورجوں جوں عمران خان نیازی صاحب کے تیورواضح ہوئے وہ سب ایک ایک کرکے انھیں چھوڑگئے۔شایدیہ واحدجماعت ہے جس کے مؤسسین میں سے شایداب ایک بھی خان کے ہم رکاب نہیں۔اب یہ جماعت مخصوص مفادات رکھنے والے دانش وروں تاجروں اورمستردشدہ کائیاں سیاست دانوں کامجموعہ رہ گئ ہے جن میں سے ہرایک مختلف خوبیوں کی وجہ سے خان کامنظورنظرہے۔

خان کاواحدمطمح نظروزارت عظمی ہے اوروہ اس مقصدکوپانے کی جدوجہد میں اس قدرمگن ہیں کہ ان کے دائیں بائیں کیاہورہاہے؟اس سے انھیں کوئ سروکاربھی نہیں۔ان کااوران کی جماعت کاامیج ان ابن الوقتوں کی وجہ سے کتناگررہاہے اس حوالے سے سوچنے کے وہ روادارہیں اورنہ ہی ان کوروکنے کاان کے پاس وقت ہے۔شایدمسلم لیگ (ن)کے سیکولرولبرل ایجنڈے کودیکھتے ہوئے انھیں لیلائے اقتدارکوپانے کی واحدسبیل یہی نظرآتی ہے کہ ان سے بڑھ کرخودکولبرل وسیکولرثابت کرناہوگایوں بھی ان کی جماعت میں ایسے شہ دماغوں کی کمی نہیں جن کایہی ایجنڈاہے۔ان کااپنالائف اسٹائل بھی ایساہی ہے سوانھیں لبرل وسیکولرکہلانے کے لیے کسی ملمع سازی اورتصنع کی بھی ضرورت نہیں۔

تحریک انصاف کی راہ نماشیریں مزاری نے کہاہے کہ اگرنوازحکومت نے توہین رسالت ایکٹ کوختم نہ کیاتوتحریک انصاف اقتدارمیں آکریہ کارنامہ انجام دے گی۔وہ اسمبلی کے فلورپرقراردادبھی لارہی ہیں۔ان کایہ بیان ذاتی حیثیت سے نہیں بلکہ تحریک انصاف کی ترجمان کی حیثیت سے ہے۔ اب عوام کوسمجھ جاناچاہیے کہ تحریک انصاف اقتدارمیں آنے کے بعدکیاعزائم رکھتی ہے؟ اس سے قبل متعددعالمی ایشوزپرتحریک انصاف کی ایسی متعددترجیحات سامنے آتی رہی ہیں جوکسی طوربھی قومی امنگوں کی ترجمان قرارنہیں دی جاسکتیں جن میں پاکستان کی مسلم ممالک کے فوجی اتحادمیں شمولیت اورجنرل(ر)راحیل شریف کی بطوذکمانڈرانچیف تعیناتی کی مخالفت سرفہرست ہے۔

شیریں مزاری کے اس بیان کی وجہ سے تحریک انصاف کاووٹرسخت مایوس ہے کیوں کہ شان رسالت کامعاملہ ہرمسلمان کے ایمان کامعاملہ ہے خواہ وہ کتناہی بے عمل کیوں نہ ہو۔اسلامیان پاکستان اس حوالے سے ہمیشہ ایک ہی مؤقف کے حامل رہے ہیں۔شیریں مزاری کی سابقہ شہرت دفاعی تجزیہ کارکی رہی ہے۔کیاوہ یہ بات نہیں سمجھتیں کہ جب گستاخوں کے خلاف قانونی چارہ جوئ کی راہیں مسدودہوجائیں گی تووہ اپنے نبی کے گستاخ سے خودانتقام لینے کاراستااختیارکریں گے جس سے گلی گلی خانہ جنگی کاخطرہ ہوسکتاہے۔کیاوہ مغرب کی خوشنودی کے حصول کے لیے پاک دھرتی کوعدم استحکام کاشکارکرناچاہتی ہیں؟یہ بات تومعقول ہوسکتی ہے کہ اس قانون پرعمل درآمدکے حوالے سے مل بیٹھ کرسب کے لیے قابل عمل نظام وضع کیاجائے لیکن سرے سے قانون کے خاتمے کی بات کرنا۔۔۔ایک قومی جماعت کااسے اپنا مستقبل کے ایجنڈاقراردینا۔۔۔کسی طورقابل برداشت نہیں ہوسکتا۔شایداقلیتوں کے غم میں گھلنے والوں کواحساس وادراک نہ ہولیکن یہ اٹل حقیقت ہے کہ اس قانون کی وجہ سے اقلیتیں محفوظ ہیں۔اگریہ حفاظتی حصارنہ رہاتواللہ جانے کیاہوگا۔

عوام کامطالبہ ہے کہ عمران خان صاحب قانون توہین رسالت کے حوالے سے اپنی پوزیشن واضح کریں۔شیریں مزاری کایہ بیان اگرجماعت کی پالیسی کے خلاف ہے توانھیں شوکازنوٹس جاری کریں۔یہی وہ واحدصورت ہے جوان کی گرتی ساکھ اورہاتھ سے نکلتے ووٹ بینک کوبچاسکتی ہے۔ورنہ 2018کے الیکشن میں ان کی جو درگت بنے گی کوئ بعیدنہیں کہ وہ عوامی نیشنل پارٹی کی شکست کے ریکارڈبھی توڑدے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے