عمران خان نیازی بنام وزیر اعظم نواز شریف

اسلام آباد: سپریم کورٹ نے وزیراعظم نواز شریف کے خلاف پاناما کیس کی مزید تحقیقات کے لیے فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کے اعلیٰ افسر کی سربراہی میں مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) بنانے کا حکم دے دیا، جسے حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) نے ‘فتح’ قرار دیا۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے لارجر بینچ نے کورٹ روم نمبر 1 میں پاناما لیکس کے معاملے پر آئینی درخواستوں کا فیصلہ سنایا، جو رواں برس 23 فروری کو محفوظ کیا گیا تھا۔

فیصلہ 540 صفحات پر مشتمل ہے، جسے جسٹس اعجاز اسلم خان نے تحریر کیا۔

پاناما کیس کے تفصیلی فیصلے کے آغاز میں جسٹس آصف سعید کھوسہ نے 1969 کے مشہور ناول ‘دی گاڈ فادر’ کا ذکر کرتے ہوئے لکھا، ‘ہر بڑی دولت کے پیچھے ایک جرم ہوتا ہے’۔

فیصلے پر ججز کی رائے تقسیم ہے، 3 ججز ایک طرف جبکہ 2 ججز جسٹس آصف سعید کھوسہ اور جسٹس گلزار احمد خان نے اختلافی نوٹ لکھا اور وزیراعظم نواز شریف کو نااہل قرار دینے سے اتفاق کیا۔

فیصلے کے مطابق فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کے سینئر ڈائریکٹر کی سربراہی میں 7 دن کے اندر جے آئی ٹی تشکیل دی جائے گی جو 2 ماہ میں اپنی تحقیقات مکمل کرے گی، جبکہ جے آئی ٹی کو ہر 2 ہفتے بعد سپریم کورٹ بینچ کے سامنے اپنی رپورٹ پیش کرنے کی بھی ہدایت کی گئی ہے۔

عدالتی فیصلے میں وزیراعظم نواز شریف اور ان کے صاحبزادوں حسن اور حسین نواز کو جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہونے کی ہدایت کی گئی ہے۔

سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا کہ جے آئی ٹی میں فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے)، قومی احتساب بیورو (نیب)، اسٹیٹ بینک آف پاکستان، سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی)، انٹرسروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) اور ملٹری انٹیلی جنس (ایم آئی) کا نمائندہ شامل کیا جائے۔

عدالت نے وزیراعظم نواز شریف کے وکلاء کی جانب سے سماعت کے دوران بطور ثبوت پیش کیے گئے قطری خطوط کو مسترد کرتے ہوئے لکھا کہ اس بات کی تحقیقات کی ضرورت ہے کہ رقم قطر کیسے منتقل ہوئی، جبکہ گلف اسٹیل ملز کے معاملے کی بھی تحقیقات کا حکم دیا گیا۔

فیصلے میں سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) وائٹ کالر کرائم کی تحقیقات میں ناکام رہے۔

اپنے تفصیلی میں سپریم کورٹ نے لکھا، ‘ان پٹیشنز کی باقاعدہ سماعتوں کے دوران تمام پہلوؤں کا جائزہ لینے کے بعد اس عدالت کی جانب سے یہ فیصلہ کیا گیا کہ یہ اس عدالت کے لیے ممکن نہیں ہے کہ وہ ان درخواستوں کے محدود دائرہ کار کے اندر مدعا علیہ (وزیراعظم نواز شریف) اور ان کے خاندان کی کاروباری سرگرمیوں اور ذاتی زندگیوں کا جائزہ لے، یہ درخواستیں بنیادی طور پر، خاص طور پر نہیں، نواز شریف اور ان کے بچوں (مریم نواز، حسن نواز اور حسین نواز) کی جائیدادوں سے متعلق ہیں، جن کا انکشاف پاناما پیپرز کے ذریعے سے ہوا تھا’۔

لارجر بینچ نے چیف جسٹس سپریم کورٹ سے اس فیصلے پر عملدرآمد کروانے کے لیے خصوصی بینچ بنانے کی استدعا کی، تاکہ اس کیس میں لگائے گئے الزامات کی تحقیقات بند گلی میں نہ رہ جائیں۔

[pullquote]پاناما کیس کا فیصلہ جاری کرنے والے ججز کون ہیں؟[/pullquote]

فیصلہ سنانے والے پانچ رکنی بینچ کی سربراہی جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کی.

جمعرات (20 اپریل) کے روز سپریم کورٹ کے پانچ رکنی لارجر بینچ نے عدالت عظمیٰ کی تاریخ کے اہم ترین فیصلے سے متعلق اختلافی فیصلہ جاری کیا۔

5 رکنی لارجر بینچ کے حتمی فیصلے پر ججز کی رائے تقسیم رہی، 3 ججز ایک طرف جبکہ 2 ججز جسٹس آصف سعید کھوسہ اور جسٹس گلزار احمد خان نے فیصلے پر اختلافی نوٹ لکھا۔

اس اہم ترین کیس کی سماعت کرنے والے اور فیصلہ سنانے والے معزز جج صاحبان سے متعلق جانیے۔

[pullquote]جسٹس آصف سعید کھوسہ[/pullquote]

2010 میں سپریم کورٹ تک ترقی پانے والے جسٹس آصف سعید کھوسہ نے پاناما لیکس کے بعد وزیراعظم اور ان کے بچوں کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت کرنے والے بینچ کی سربراہی کی۔

ڈیرہ غازی خان سے تعلق رکھنے والے جسٹس کھوسہ 18 سال سے زائد عرصے میں 50 ہزار کے قریب کیسوں کے فیصلے سنا چکے ہیں۔

وزیراعظم نوازشریف کے خلاف فیصلہ سنانے والے دو ججز میں سے ایک جسٹس آصف سعید کھوسہ تھے۔

[pullquote]جسٹس گلزار احمد[/pullquote]

سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے اعزازی سیکریٹری منتخب ہونے سے قبل جسٹس گلزار نے ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ کے ایڈووکیٹ کی حیثیت سے اپنے کیرئیر کا آغاز کیا۔

2002 میں جسٹس گلزار احمد سندھ ہائی کورٹ کے جج کے عہدے پر فائز ہوئے اور فروری 2011 میں وہ سندھ ہائی کورٹ کے سینئر پیوسنے جج مقرر ہوئے۔

نومبر 2011 میں وہ سپریم کورٹ کے جج بنے۔

جسٹس گلزار احمد اختلافی نوٹ لکھنے والے دوسرے جج تھے۔

[pullquote]جسٹس اعجاز افضل خان[/pullquote]

1977 میں خیبر لاء کالج سے گریجویٹ کرنے والے جسٹس اعجاز افضل خان 1991 میں سپریم کورٹ کے ایڈووکیٹ کی حیثیت سے انرول ہوئے۔

پشاور ہائی کورٹ کے جج کی حیثیت سے 9 سال ذمہ داریاں نبھانے والے جسٹس اعجاز 2009 میں پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس مقرر ہوئے جس کے بعد 2011 میں وہ سپریم کورٹ کے جج کے عہدے پر ترقی پاگئے۔

[pullquote]جسٹس اعجاز الحسن[/pullquote]

پنجاب یونیورسٹی لاء کالج سے ایل ایل بی کرنے والے جسٹس اعجاز نے اپنی پوسٹ گریجویٹ تعلیم نیویارک کی کورنیل یونیورسٹی سے حاصل کی، انہیں 2009 میں بینچ تک ترقی دی گئی 2011 میں لاہور ہائی کورٹ کے جج کے عہدے پر فائز ہوئے۔

انہوں نے قصور، گجرانوالہ، اور لاہور ڈسٹرکٹس میں انسپیکشن جج کی حیثیت سے بھی اپنی ذمہ داریاں نبھائیں۔

2015 میں جسٹس اعجاز الحسن لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس مقرر ہوئے اور جون 2016 میں سپریم کورٹ تک ترقی پائی۔

[pullquote]جسٹس شیخ عظمت سعید[/pullquote]

جسٹس شیخ عظمت سعید 1980 میں لاہور ہائی کورٹ کے ایڈووکیٹ کی حیثیت سے انرول ہوئے اور اس کے اگلے ہی سال سپریم کورٹ آف پاکستان میں ایڈووکیٹ کے عہدے پر ترقی حاصل کی۔

جسٹس شیخ عظمت سعید نے 1997 میں احتساب بیورو میں خصوصی پراسیکیوٹر کی ذمہ داریاں بھی سرانجام دیں جبکہ لاہور ہائی کورٹ میں متعدد ہائی پروفائل کیسز کی پیروری کرنے والی قانونی ٹیم کے رکن رہے۔

وہ 2001 میں قومی احتساب بیورو (نیب) کے خصوصی پراسیکیوٹر کی حیثیت سے بھی اپنی ذمہ داریاں سرانجام دے چکے ہیں، انہیں 2004 میں لاہور ہائی کورٹ کا ایڈیشنل جج مقرر کیا گیا۔

2012 میں جسٹس شیخ عظمت سعید نے سپریم کورٹ آف پاکستان میں جج کے عہدے پر ترقی پائی۔

[pullquote]پاناما گیٹ فیصلہ: جسٹس آصف کھوسہ کے ریمارکس[/pullquote]

نواز شریف دیانتدار نہیں رہے، جسٹس آصف سعید کھوسہ

سپریم کورٹ کے لارجر بینچ کی جانب سے سنائے گئے پاناما لیکس کے فیصلے میں جسٹس آصف سعید کھوسہ کے اختلافی نوٹ کے چند اقتباسات درج ذیل ہیں۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ 5 رکنی بینچ کی سربراہی کر رہے تھے اور فیصلے میں ججز کی رائے 2:3 میں تقسیم رہی۔

1۔ جسٹس کھوسہ نے ’دی گاڈ فادر‘ کے قول سے آغاز کیا.

پاناما کیس کے تفصیلی فیصلے کے آغاز میں جسٹس آصف سعید کھوسہ نے 1969 کے ماریو پوزو کے مشہور ناول ’دی گاڈ فادر‘ کا ذکر کرتے ہوئے لکھا، ’ہر عظیم قسمت کے پیچھے ایک جرم ہوتا ہے۔‘

جسٹس کھوسہ نے کہا کہ ’یہ ایک طنز اور سرار اتفاق ہے کہ موجودہ کیس بھی بالزاک کی اسی بات کے گرد گھومتا ہے۔‘

2۔ دیگر اداروں نے نواز شریف کے خلاف تحقیقات سے انکار کیا یا ناکام ہوئے

جسٹس آصف سعید کھوسہ کا کہنا تھا کہ ’ان درخواستوں کو عدالت نے اس لیے سننے کا فیصلہ کیا کیونکہ ملک کے دیگر متعلقہ اداروں، جیسا نے قومی احتساب بیورو، وفاقی تحقیقاتی ادارے، اسٹیٹ بینک آف پاکستان اور فیڈر بورڈ آف ریونیو اور سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان اور قومی اسمبلی کے اسپیکر بدقسمتی سے یا تو معاملے کی تحقیقات میں ناکام رہے یا انہوں نے اس سے انکار کیا، جبکہ انہوں نے نواز شریف کے خلاف یہ معاملہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کو بھی نہیں بھیجا۔‘

3۔ عدالت عظمیٰ نے معاملہ اس لیے اٹھایا،تاکہ وزیر اعظم کو کھلی چھٹی نہ ملے

بینچ کے سربراہ نے کہا کہ ’اگر عدالت میں صرف اس لیے معاملے میں دلچسپی نہ لے کیونکہ اس میں حقائق جاننے کے لیے چند متنازع اور پیچیدہ سوالات شامل ہیں، تو یہ پیغام جائے گا کہ اگر ملک کا طاقتور اور تجربہ کار وزیر اعظم اپنے وفاداروں کو تمام متعلقہ اداروں کا سربراہ نامزد کرتا ہے، جو کرپشن کے الزامات کی تحقیقات کے ذمہ دار ہیں تو ایسی تحقیقات یا انکوائری میں وفادار وزیر اعظم کو احتساب سے مستثنیٰ کردیں گے۔‘

’یہ کہا جاتا ہے کہ آپ کتنے بھی بڑے آدمی بن جائیں قانون آپ سے بڑا ہی رہتا ہے، جمہوری، احتساب اور قانون کی حکمرانی کی اسی روح کے مطابق ہی یہ عدالت وفاق کے وزیر اعظم یا چیف ایگزیکٹو کو کھلی چھٹی نہیں دے سکتی اور وہ بھی صرف اس لیے کہ اس کا کوئی علاج نہیں ہے یا کرپشن کے الزامات کی تحقیقات نہیں کی جاسکتیں جو نواز شریف کے خلاف لگائے گئے ہیں۔‘

4۔ نواز شریف دیانتدار نہیں رہے

جسٹس آصف سعید کھوسہ کا کہنا تھا کہ ’یہ ثابت نہیں کیا جاسکا کہ کیسے اور کن وسائل کے ذریعے مدعا علیہ کے والد نے اتفاق فاؤنڈریز کی نیشنلائزیشن کے 18 ماہ کے اندر 6 نئی فیکٹریاں کیسے قائم کیں، بالخصوص تب جب یہ بتایا جاچکا ہے کہ مدعا علیہ کے بڑوں کی تمام جمع پونجی کا نام و نشان تک مٹ چکا تھا۔‘

’یہ بات بھی انتہائی قابل غور ہے کہ اس تقریر میں یہ بلکل واضح نہیں کیا گیا کہ دبئی میں بھی ایک فیکٹری قائم کی گئی جسے 1980 میں فروخت کیا گیا۔ تقریر میں مکہ کے قریب فیکٹری کے قیاما کے لیے دستیاب یا حاصل کیے جانے والے فنڈز کی تفصیلات بھی بلکل نہیں بتائی گئیں۔‘

’نواز شریف نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ وہ جو کہہ رہے ہیں وہ سچے حقائق ہیں، تاہم حقیقت میں ایسا نہیں ہے اور بدقسمتی سے نواز شریف نے اس وقت سچائی بیان کرنے میں کفایت شعاری سے کام لیا۔‘

5۔ لندن کی جائیدادیں کیسے حاصل کی گئیں؟

’تقریر میں یہ بلکل واضح نہیں کیا گیا کہ لندن میں متعلقہ 4 جائیدادیں کیسے حاصل کی گئیں اور نواز شریف نے اُس موقع پر یہ بلکل نہیں بتایا کہ ان کا ان جائیدادوں کی ملکیت سے کوئی لینا دینا نہیں ہے یا ان جائیدادوں کو حاصل کرنے کے لیے ان کا کوئی پیسہ استعمال نہیں ہوا۔‘ جسٹس کھوسہ کے مطابق ’22 اپریل 2016 کو نواز شریف نے اس معاملے پر ایک بار پھر قوم سے خطاب کیا، لیکن اس میں بھی یہ وضاحت نہیں کی گئی کہ لندن میں یہ جائیدادیں کیسے حاصل کی گئیں۔

6۔ وزیراعظم کے پہلے یا دوسرے خطاب میں دبئی فیکٹری کا ذکر نہیں

’16 مئی 2016 کو وزیر اعظم نے قومی اسمبلی میں تحریری تقریر کی جسے ٹیلی وژن اور ریڈیو پر براہ راست نشر کیا گیا۔ اگر اس تقریر کا باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ مدعا علیہ نے یہاں دبئی میں فیکٹری کی تعمیر اور اس کی فروخت کا ذکر کیا، لیکن معاملے پر قوم سے اپنے پہلے یا دوسرے خطاب میں وزیر اعظم نے اس کا کوئی ذکر نہیں کیا۔

’حالیہ تقریر میں مدعا علیہ نے کہا کہ 1999 میں ان کے خاندان کے کاروبار کا پورا ریکارڈ انتظامیہ نے اپنے قبضے میں کر لیا اور کئی بار کی درخواستوں کے باوجود انہیں وہ ریکارڈ واپس نہیں دیا گیا، لیکن بعد ازاں اسی تقریر میں وزیر اعظم کا دوٹوک الفاظ میں کہنا تھا کہ دبئی اور جدہ فیکٹریوں سے متعلق تمام ریکارڈ اور دستاویزات موجود ہے جسے کسی بھی کمیٹی یا فورم کے سامنے پیش کیا جاسکتا ہے۔

[pullquote]پاناما اسکینڈل پر کہاں کہاں تحقیقات ہوئی اور نتائج کیا نکلے؟[/pullquote]

پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت کی جانب سے 20 اپریل کی دوپہر کو سنائے گئے قدرے لچکدار فیصلے سے جہاں حکومت اپنی کامیابی کا جشن منا رہی ہے، وہیں اس کیس میں حکومت کا گھیرا تنگ کرنے والی پاکستان تحریک انصاف بھی اپنی جیت کا جشن منا رہی ہے۔

پاکستان میں پاناما اسکینڈل کیس کا فیصلہ کس کے حق میں آیا،اور کامیابی کس کی ہوئی، اس بحث سے ہٹ کر اگر ہم دنیا میں بھونچال مچانے والے اس اسکینڈل کا عالمی جائزہ لیں تو پتہ چلے گا کہ اس حوالے سے قدرے بہتر کام ہمارے ہاں ہی ہوا ہے، پھر چاہے وہ سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے لیے ہی کیوں نہ ہوا ہو۔

گزشتہ برس اپریل ہی کے مہینے میں دنیا بھر میں تہلکہ مچانے والے پاناما اسکینڈل میں پاکستان کے علاوہ، برطانیہ، امریکا، جرمنی، فرانس، چین، روس، بھارت، آسٹریلیا، سعودی عرب، قطر، سویڈن، آئس لینڈ، ارجنٹینا، میکسیکو، اور اٹلی سمیت دنیا کے 100 سے زائد ممالک کے ہزاروں افراد کے 15 لاکھ سے زائد دستاویزات جاری کیے گئے۔

دستاویزات جاری ہونے کے پہلے ہی 3 ہفتوں میں فوری طور پر دنیا کے 35 ممالک نے ان انکشافات پر تحقیقات کا اعلان کرتے ہوئے، آف شور کمپنیز بنانے والے افراد کو ملکی آئین و قانون کے تحت سزائیں دینے کا اعلان کیا۔

مگر آج ایک سال بعد اگر ان دعووں کا جائزہ لیا جائے تو ہمیں مایوسی کے سوا کچھ نظر نہیں آئے گا، کیوں کہ عملی طور پر دنیا میں کہیں بھی کوئی بھی بڑی تبدیلی نہیں آئی، صرف تحقیقات ہی چلتی رہیں، اور ابھی تک چل رہی ہیں۔

پاناما اسکینڈل کیس کے بعد سب سے زیادہ احتجاج یورپی ملک آئس لینڈ میں ہوا، اور شاید اس کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ اسکینڈل میں وہاں کے وزیر اعظم اور ان کی اہلیہ کا نام براہ راست شامل تھا، جب کہ دنیا کے دیگر ممالک کے سربراہوں کے براہ راست نام شامل نہیں۔

لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ آئس لینڈ کے علاوہ کسی بھی ملک کے دوسرے حکمران کا براہ راست نام پاناما اسکینڈل میں نہیں آیا، آئس لینڈ کے وزیر اعظم کے علاوہ بھی دیگر چند ممالک کے حکمرانوں کے نام براہ راست پاناما اسکینڈل میں شامل تھے۔

[pullquote]پاناما اسکینڈل کا پہلا شکار[/pullquote]

اسکینڈل سامنے آنے کے بعد آئس لینڈ میں احتجاج شروع ہوگئے، یہاں تک کہ آئس لینڈ کے وزیر اعظم سگمینڈر ڈیوڈ گیونلاﺅگسن پر انڈوں سے حملہ بھی کیا گیا۔

وزیراعظم نے اپنی اور اہلیہ اینا کی آف شور کمپنی سے متعلق انکشافات سے انکار کیا، مگر عوامی احتجاج کے سامنے مجبور ہوتے ہوئے انہوں نے گزشتہ برس اپریل میں ہی اپنے عہدے سے استعیفیٰ دے دیا۔

[pullquote]پاناما اسکینڈل پر احتجاج، مظاہرے، دباؤ[/pullquote]

دنیا میں بھونچال مچانے والے اسکینڈل کا دوسرا شکار کوئی بھی نہیں ہوا، تاہم دنیا کے مختلف ممالک میں مظاہرے، احتجاج اور سیاستدانوں پر دباؤ بڑھ گیا۔

برطانیہ کے سابق وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون پردیگرحکمرانوں کی بنسبت زیادہ دباؤ رہا۔

پاناما اسکینڈل کیس میں ڈیوڈ کیمرون کے والد کی آف شور کمپنی کا انکشاف ہوا تھا، حتیٰ کہ انہوں نے اس بات کا اعتراف کرتے ہوئے معذرت بھی کی تھی، تاہم عوام مطمئن نہیں ہوئے، بعد ازاں برطانیہ میں پاناما اسکینڈل پر تحقیقات کا اعلان کردیا گیا۔

[pullquote]اسکینڈل میں شامل حالیہ حکمران[/pullquote]

آئس لینڈ کے وزیر اعظم کے علاوہ جن دیگر چند ممالک کے حکمرانوں کے نام براہ راست اسکینڈل کا حصہ ہیں ان میں سعودی عرب کے فرمانروا شاہ سلمان، یوکرین کے صدر پیٹرو پوروشینکو، آسٹریلوی وزیر اعظم مالکوم ٹرن بل، ارجنٹائن کے وزیر اعظم شامل ہیں۔

دنیا کے جن ممالک کے حالیہ سربراہوں کا نام پاناما میں شامل ہے، ان کے خلاف بھی تاحال کوئی کارروائی نہیں ہوئی، اگر کسی ملک میں حکومتی یا عدالتی سطح کی کوئی تحقیقات چل بھی رہی ہیں تو وہ بھی تاحال بے نتیجہ ہیں۔

[pullquote]سابق حکمران اور سیاستدان[/pullquote]

آف شور کمپنیز رکھنے والوں میں برونائی کے سلطان کے نوجوان بھائی پرنس جیفری بولکیان، چینی صدر شی جن پنگ کے قریبی رشتہ دار، وزیر اعظم نواز شریف کی اولاد، بے نظیر بھٹو، ولادی میر پیوٹن کا قریبی دوست سرگی رولڈوگن، عراق کے سابق عبوری وزیر اعظم اور نائب صدرایاد علاوی بھی شامل تھے۔

اس فہرست میں سابق مصری صدر کے بیٹے آلا مبارک، آئس لینڈ کے وزیر اعظم اور ان کی اہلیہ، برطانیہ کے سابق وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کے والد، آذربائیجان کے صدر کے بچے، اسرائیل کے سابق وزیر ایرل شیرون, مراکش کے کنگ محمد ششم،ارجنٹینا کے صدرموریشو میکریز کے والد اوربھائی کے نام سمیت اسپین کے بادشاہ کنگ فلپ کی آنٹی کا نام بھی آیا۔

مجموعی طور پر پاناما میں صرف 140 سیاستدانوں کے نام شامل تھے، جن میں صرف 12 سیاستدان ایسے تھے، جنہیں قومی سطح کا سیاستدان تسلیم کیا جاتا ہے، ان میں سے بھی نصف درجن سے بھی کم سیاستدان ایسے تھے، جن کی براہ راست آف شور کمپنیز تھیں۔

[pullquote]پاناما میں شامل دیگر افراد[/pullquote]

یورپی یونین میں شامل ممالک کے افراد کی 3500 آف شور کمپنیز کا انکشاف ہوا، ہالینڈ کی بھی 500 سے زائد کمپنیاں سامنے آئیں، جب کہ بھارت کے 1800 افراد کے نام بھی سامنے آئے۔

آف شور کمپنیز رکھنے والوں میں زیادہ تر افراد کاروباری تھے، جب کہ اس فہرست میں کھلاڑی، اداکار، قانوندان، سماجی رہنما اور عام افراد بھی شامل تھے۔

پاناما اسکینڈل میں فیفا کی اخلاقیات کمیٹی کے رکن جان پیدرو دمیانی، معروف فٹ بالرلیونل میسی، فلم اسٹار جیکی چن، امیتابھ بچن، ایشوریا رائے، اجے دیو گن اور اسپینش آسکر ونر پیدرو الموڈوور کا نام بھی سامنے آیا۔

[pullquote]پاناما پر دنیا بھر میں تحقیقات[/pullquote]

پاناما اسکینڈل کے سامنے آتے ہی 35 ممالک نے تحقیقات شروع کرانے کا اعلان کیا ان میں برطانیہ، اسپین، اٹلی، جرمنی اور فرانس جیسے ممالک نمایاں تھے۔

پاناما اسکینڈل کی پہلی سالگرہ پر مختلف خبر رساں اداروں کی رپورٹس میں بتایا گیا کہ آف شور کمپنیز پر دنیا کے مختلف 70 ممالک میں 150 سے زائد تحقیقات جاری ہیں۔

خبر رساں اداروں کے مطابق ان ممالک میں ہونے والی تحقیقات کا تاحال کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہیں نکلا۔

جن ممالک میں تحقیقات جاری ہیں ان میں یورپی ملک آندورا، آسٹریا، سائپرس، جارجیا، یونان، اٹلی، مالٹا، ناروے، روس، سوئٹزرلینڈ، سویڈن، آرمنینیا، آذربائیجان، پاکستان، بنگلادیش اور بھارت شامل ہیں۔

[pullquote]کہاں کس طرح کی تحقیقات ہو رہی ہیں؟[/pullquote]

پاکستان میں سپریم کورٹ نے 20 اپریل کو دئیے گئے فیصلے میں جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دینے کا حکم دیا، تاہم دیگر کچھ ممالک میں بھی اسی طرز کی تحقیقات جاری ہیں، مگر ان کے نتائج تاحال برآمد نہیں ہوئے۔

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے بھی پاناما اسکینڈل پر مختلف اداروں پر مبنی تحقیقاتی ٹیم بنانے کا اعلان کیا، مگر تاحال وہاں بھی کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔

بنگلادیش میں اینٹی کرپشن کمیشن پاناما اسکینڈل کیس کی تحقیقات کر رہا ہے، ہالینڈ میں حکومتی ادارے تحقیقات کر رہے ہیں، جنہوں نے پہلی بار رواں ماہ عدالت میں پاناما کے حوالے سے اپنی رپورٹ جمع کروائی۔

یورپی یونین میں شامل ممالک میں یونین کا ’یوروپول‘ نامی ادارہ اور یورپی یونین پارلیمنٹ کی 65 رکنی تحقیقاتی کمیٹی کام کر رہی ہے، مگر تاحال ان کے بھی کوئی خاطر خواہ نتائج سامنے نہیں آئے۔

یورپی یونین پارلیمنٹ کی 65 رکنی کمیٹی نے پاناما اسکینڈل سامنے لانے والی ٹیم میں شامل صحافیوں سے بھی ملاقاتیں کیں ہیں، مگر تحقیقات کے نتائج برآمد نہیں ہوسکے۔

یورپی یونین کی اولاف نامی اینٹی فراڈ ایجنسی بھی اس حوالے سے تحقیقات کر رہی ہے۔

چین میں ایک 8 رکنی کمیٹی بنائی گئی، جس میں سابق اور حالیہ حکومتی عہدیداروں کو شامل کیا گیا، امریکا کے وزات انصاف و قانون نے اعلان کیا کہ وہ پاناما لیکس کے معاملے پر تحقیقات کریں گے۔

اسرائیل، اٹلی، فرانس، جرمنی، قطر، کوسٹا ریکا، یوکرین اور میکسیکو سمیت دیگر ممالک میں بھی پاناما پر تحقیقات کا اعلان کیے گئے۔

دنیا کے 70 ممالک میں کہیں حکومتی عہدیداروں پر مبنی، کہیں تحقیقاتی اداروں کے اہلکاروں پر مشتمل تو کہیں عدالتی وپارلیمانی طرز کی کمیٹیاں پاناما پر تحقیقات کر رہی ہیں، مگر کہیں بھی ان تحقیقات کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہیں ہوسکا۔

[pullquote]تحقیقات کے نتائج برآمد نہ ہونے کے اسباب[/pullquote]

اس حوالے سے کوئی حتمی اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں، مگر ماہرین کے مطابق دنیا کے مختلف ممالک میں پاناما پر ہونے والی تحقیقات کے نتائج برآمد نہ ہونے کا ایک سبب سیاستدانوں کا براہ راست ملوث نہ ہونا ہے۔

جب کہ کئی ممالک میں یہ خیال بھی کیا جاتا ہے کہ ٹیکس سے بچنے کے لیے قانونی راستے اختیار کرنا کوئی جرم نہیں۔

[pullquote]لیگی رہنماؤں کا ‘جیت’ کا اعلان[/pullquote]

پاناما کیس کا فیصلہ آنے کے بعد عدالت کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے حکمراں جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں نے فیصلے کو اپنی ‘جیت’ قرار دیتے ہوئے ‘گو عمران گو’ کے نعرے لگائے۔

وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ اللہ کا جتنا شکر ادا کریں وہ کم ہے، ہم سرخرو ہوئے ہیں، عدالت عظمیٰ نے فیصلہ دیا ہے، مزید تحقیقات کی جائیں جبکہ یہی بات 6 ماہ قبل خود وزیراعظم نواز شریف نے بھی کہی تھی۔

انہوں نے کہا کہ مخالفین نے جو شواہد پیش کیے، وہ ناکافی تھے، ان کی مزید تحقیقات کی ضرورت ہے۔

دوسری جانب وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ جے آئی ٹی کے ساتھ مکمل تعاون اور عدالتی فیصلے پر عمل کیا جائے گا۔

سعد رفیق نے مزید کہا کہ آج ثابت ہوگیا کہ ‘وزیراعظم صادق بھی ہیں اور امین بھی’۔

[pullquote]حکومت کو 60 روز کی مہلت ملی ہے: تحریک انصاف[/pullquote]

دوسری جانب پاناما کیس کے فیصلے کے بعد پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے ترجمان فواد چوہدری نے کہا کہ عدالت نے حکومت کے ثبوت کو ناکافی قرار دے کر ایک کمیشن بنانے کا حکم دیا ہے، جس کی تحقیقات 7 دن کے اندر شروع ہوں گی۔

پی ٹی آئی کے رہنما عمران اسماعیل کے مطابق سپریم کورٹ نے کہا کہ وزیراعظم اور ان کے بیٹے جھوٹ بولنے اور پاکستان کا پیسہ چوری کرنے کے مرتکب ہوئے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘انھیں صرف 60 روز کی مہلت ملی ہے’۔

[pullquote] پانامہ پیپرز پر جے آٹی ٹی کے فیصلے تک وزیر اعظم عہدے سے الگ ہو جائیں ۔سراج الحق [/pullquote]

پانامہ پیپرز پر سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد اسلام آباد میں پارٹی عہدیداروں کے ہنگامی اجلاس کے بعد جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے دیگر رہنماؤں کے ہمراہ نیوز کانفرنس میں کہا کہ جب تک جے آئ ٹی کا فیصلہ نہیں آتا وزیراعظم عہدے سے الگ ہو جائیں ۔وزیر اعظم کلئیر ہوۓ تو دوبارہ اختیارات سنبھالیں ۔انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے دو ججز نے وزیر اعظم کے خلاف فیصلہ دیا۔تمام پانچ ججز یہی فیصلہ دیتی تو اچھا ہوتا۔سراج الحق نے کہا کہ وزیر اعظم کو کلین چٹ نہیں دی گئ اورعدالت نے مزید تحقیقات کا حکم دیا ہے۔جے آئ ٹی کے قیام کا فیصلہ بڑی بات ہے۔ان کا کہنا تھا کہ اس فیصلے سے ثابت ہو گیا کہ ملک میں کرپشن ہےاورکرپشن کے خلاف جماعت اسلامی کی مہم پر مہر ثبت ہو گئ ہے۔سراجلحق نےکرپشن کے خلاف جدوجہد جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کیا اور کہا کہ ملک میں نالی اور سیاسی کرپشن بھی ہیں۔انہوں نے کہا کہ جماعت اسلامی نے تمام سیاسی جماعتوں سے رابطے کا فیصلہ کیا ہے کیونکہ یہ کیس ختم نہیں ہوا آگے بڑھا ہے۔ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ سپریم کوٹ کا فیصلہ کمیشن کے قیام دے بھی آگے ہے۔

پاناما انکشاف

[pullquote]آف شور اکاؤنٹس کیا ہوتے ہیں؟[/pullquote]

• کسی بھی دوسرے ملک میں آف شور بینک اکاؤنٹس اور دیگر مالیاتی لین دین کے نگران اداروں سے یا ٹیکس سے بچنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

• کمپنیاں یا شخصیات اس کے لیے عموماً شیل کمپنیوں کا استعمال کرتی ہیں جس کا مقصد اصل مالکان کے ناموں اور اس میں استعمال فنڈز کو چھپانا ہوتا ہے۔

پاناما لیکس کے معاملے نے ملکی سیاست میں اُس وقت ہلچل مچائی، جب گذشتہ سال اپریل میں بیرون ملک ٹیکس کے حوالے سے کام کرنے والی پاناما کی مشہور لا فرم موزیک فانسیکا کی افشا ہونے والی انتہائی خفیہ دستاویزات سے پاکستان سمیت دنیا کی کئی طاقت ور اور سیاسی شخصیات کے ‘آف شور’ مالی معاملات عیاں ہو گئے تھے۔

پاناما پیپرز کی جانب سے انٹرنیشنل کنسورشیم آف انویسٹی گیٹو جرنلسٹس (آئی سی آئی جے) کی ویب سائٹ پر جاری ہونے والا یہ ڈیٹا ایک کروڑ 15 لاکھ دستاویزات پر مشتمل ہے، جس میں روس کے صدر ولادی میر پوٹن، سعودی عرب کے فرمانروا شاہ سلمان، آئس لینڈ کے وزیر اعظم، شامی صدر اور پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف سمیت درجنوں حکمرانوں کے نام شامل تھے۔

ویب سائٹ پر موجود ڈیٹا کے مطابق، پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف کے بچوں مریم، حسن اور حسین ’کئی کمپنیوں کے مالکان ہیں یا پھر ان کی رقوم کی منتقلی کے مجاز تھے‘۔

موزیک فانسیکا کے نجی ڈیٹا بیس سے 2.6 ٹیرا بائٹس پر مشتمل عام ہونے والی ان معلومات کو امریکی سفارتی مراسلوں سے بھی بڑا قرار دیا جا رہا ہے۔

[pullquote]ملکی سیاست میں ہلچل اور سپریم کورٹ میں کارروائی[/pullquote]

پاناما انکشافات کے بعد اپوزیشن اور حکومت کے درمیان تعلقات کشیدہ صورت حال اختیار کرگئے تھے اور وزیراعظم کے بچوں کے نام پاناما لیکس میں سامنے آنے پر اپوزیشن کی جانب سے وزیراعظم سے استعفیٰ کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

اس سلسلے میں وزیراعظم نے قوم سے خطاب کرنے کے ساتھ ساتھ قومی اسمبلی میں بھی خطاب کیا اور پاناما لیکس کے معاملے پر اپنی پوزیشن واضح کرتے ہوئے کہا کہ وہ ایک اعلیٰ سطح کا تحقیقاتی کمیشن قائم کرنے کے لیے رضامند ہیں، تاہم اس کمیشن کے ضابطہ کار (ٹی او آرز) پر حکومت اور حزب اختلاف میں اتفاق نہیں ہوسکا۔

بعدازاں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے وزیراعظم کی پارلیمنٹ میں دی گئی تقریر کی بنیاد پر سپریم کورٹ میں ان کے خلاف نااہلی کی پٹیشن دائر کردی، ان کا مؤقف تھا کہ نواز شریف نے ایوان میں متضاد بیانات دیے، چنانچہ اب وہ صادق اور امین نہیں رہے۔

پی ٹی آئی کے علاوہ جماعت اسلامی، عوامی مسلم لیگ، جمہوری وطن پارٹی اور طارق اسد ایڈووکیٹ نے بھی پاناما لیکس کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ میں آئینی درخواستیں دائر کی تھیں۔

ابتداء میں سپریم کورٹ نے ان درخواستوں پر اعتراضات لگاکر انھیں واپس کردیا، تاہم بعدازاں 27 ستمبر کو عدالت عظمیٰ نے پاناما لیکس کی تحقیقات کے لیے دائر تمام درخواستوں پر رجسٹرار آفس کے اعتراضات ختم کرتے ہوئے درخواستیں سماعت کے لیے منظور کرلیں۔

20 اکتوبر 2016 کو سپریم کورٹ نے وزیراعظم کے خلاف دائر درخواستوں پر وزیراعظم نواز شریف، وزیر خزانہ اسحٰق ڈار، وزیراعظم کی صاحبزادی مریم نواز، داماد کیپٹن (ر) صفدر، بیٹوں حسن نواز، حسین نواز، ڈی جی فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے)، چیئرمین فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) اور اٹارنی جنرل سمیت تمام فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے کیس کی سماعت 2 ہفتوں کے لیے ملتوی کردی تھی، بعد ازاں اس کی سماعت کے لیے یکم نومبر کی تاریخ مقرر کی گئی تھی۔

پہلے پہل سابق چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی لارجر بینچ نے پاناما لیکس کی درخواستوں پر سماعت کی، تاہم 31 دسمبر 2016 کو ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد جسٹس ثاقب نثار نے چیف جسٹس کا عہدہ سنبھالا اور پاناما کیس کی سماعت کے لیے نیا لارجر بینچ تشکیل دیا گیا۔

رواں برس 4 جنوری سے سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں بننے والے پانچ رکنی نئے لارجر بینچ نے پاناما کیس کی درخواستوں کی سماعت کی، بینچ کے دیگر ارکان میں جسٹس اعجاز افضل خان، جسٹس گلزار احمد، جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس اعجاز الحسن شامل تھے۔

31 جنوری کو ہونے والی سماعت کے بعد لارجر بینچ کے رکن جسٹس شیخ عظمت سعید کو دل کی تکلیف کے باعث سماعت ملتوی کردی گئی تھی جس کا دوبارہ سے آغاز پندرہ روز بعد (15 فروری) سے ہوا تھا۔

بعدازاں جج جسٹس آصف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے اس کیس کا فیصلہ 23 فروری کو محفوظ کیا تھا، جو آج سنایا گیا۔

واضح رہے کہ اس فیصلے کو عوام کے سامنے لانے میں 57 دن کا وقت لگا ہے۔

[pullquote]نواز شریف فوری طور پر استعفیٰ دے دیں: عمران خان[/pullquote]

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی ) کے چیئرمین عمران خان نے سپریم کورٹ کی جانب سے پاناما کیس کے فیصلے کے بعد وزیراعظم نواز شریف سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ میں عدالت کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں ایسی ججمنٹ کبھی نہیں آئی۔

پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ‘آج قوم کے سامنے پانچوں ججوں کا مشترکہ طور پر جے آئی ٹی بنانے کا فیصلہ آیا ہے جس کا مطلب یہ سپریم کورٹ میں جو ثبوت جمع کیے گئے وہ ناکافی ہیں’۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘مستقبل کے دو چیف جسٹس نے کہا ہے کہ ان کو گھر بھیج دو یہ جج ملک کے معزز جج ہیں اور انھوں نے کہا کہ نواز شریف صادق اور امین نہیں رہے’۔

چیئرمین عمران خان کا کہنا تھا کہ ‘میں پاکستانی قوم کی طر سے نواز شریف کو کہتا ہوں کہ وہ فوری طور پر استعفیٰ دے کیونکہ ان کے پاس وزیر اعظم رہنے کا کون سا اخلاقی جواز رہ گیا ہے’۔

ان کا کہنا ہے کہ ان کے خلاف عزیر بلوچ کی طرح کریمنل تفتیش ہوگی تو ان کے پاس وزیراعظم رہنے کا کوئی اخلاقی جواز نہیں ہے۔

پاکستان مسلم لیگ نواز کی جانب سے خوشیاں منائے جانے کے حوالے سے انھوں نے کہا کہ ‘کس چیز کی مٹھائی تقسیم کی جارہی ہیں اس لیے کہ سپریم کورٹ کے دو جج نے کہا ہے کہ وزیراعظم جھوٹا ہے جبکہ تین ججوں نے بھی ایک چیز قطری خط نہیں مانا اس لیے جے آئی ٹی بنی ہے اس لیے خوشیان منائی جارہی ہیں، جھوٹ بولنے کی خوشیاں منارہے ہیں’۔

عمران خان کا کہنا تھا کہ ‘چونکہ سپریم کورٹ بھی کہہ چکی ہے کہ نیب ٹھیک کام نہیں کررہا ہے اسی لیے ان کی موجودگی میں ادارے اچھی طرح تفتیش نہیں کرسکیں گے اس لیے انھیں فوری طور پر مستعفی ہوجانا چاہیے’۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘جے آئی ٹی میں شامل سوائے دو اداروں کے باقی نواز شریف کے زیر کام کر رہے ہیں’۔

انھوں نے کہا کہ ‘وزیراعظم فوری مستعفی ہوں اور اگر 60 روز کے بعد یہ شفاف قرار دیے جاتے ہیں تو واپس آجائیں کیونکہ یہی مطالبہ انھوں نے یوسف رضا گیلانی سے کیا تھا’۔

ایک سوال پر عمران خان کا کہنا تھا کہ ‘صرف 60 دن کی بات ہے اس کے بعد جشن منائیں گے’۔

چیئرمین پی ٹی آئی نے اپنے کارکنوں کو مبارک دیتے ہوئے کہا کہ ‘اب وزیراعظم اور ان کے بچوں سے تفتیش ہوگی اور اگر ہمارے کارکن جدوجہد نہیں کرتے تو آج یہ نہیں ہونا تھا’۔

خیال رہے کہ سپریم کورٹ نے پاناما کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے تفتیش کے لیے نیب، اسٹیٹ بینک، آئی ایس آئی، ایم آئی اور ایف آئی اے کے افسران پر مشتمل جے آئی ٹی تشکیل دینے کا فیصلہ سنایا تھا جو 60 روز میں تفتیش کرکے اپنی رپورٹ بنچ میں جمع کرے جس کےبعد حتمی فیصلہ سنایا جائے گا۔

[pullquote]گلی گلی میں شور ہے ، نواز شریف چور ہے .آصف علی زرداری [/pullquote]

پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمینٹرینز کے صدر آصف علی زرداری نے بھی پاناما کیس کا فیصلہ سامنے آنے کے بعد وزیراعظم نواز شریف سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کردیا۔

انہوں نے کہا کہ ‘پاکستان میں عوام کو دھوکا دیا گیا ہے، ملک میں آج جمہوریت کو نقصان ہوا’۔

سابق صدر آصف زرداری نے کہا کہ’ 9 مہینے تک قوم کے ساتھ جو مذاق ہوتا رہا ہے اس کی مذمت کرتا ہوں اور اس فیصلے کی بھی مذمت کرتا ہوں’۔

آصف زرداری نے کہا کہ ‘ان دو سینیئر ججز کو سلام پیش کرتا ہوں جنہوں نے یہ فیصلہ دیا ہے کہ وزیراعظم نا اہل ہوچکے ہیں، سینیئر ججز کا فیصلہ جونیئر ججز پر غالب ہوتا ہے’۔

سابق صدر نے کہا کہ ‘میں یہ سمجھتا ہوں کہ وزیراعظم کو اخلاقی بنیادوں پر استعفیٰ دے دینا چاہیے، گوکہ میں یہ جانتا ہوں کہ وہ آخری دم تک استعفیٰ نہیں دیں گے اور ہماری جدوجہد جاری رہے گی’۔

آصف زرداری نے استفسار کیا کہ ‘سپریم کورٹ جو نہ کرسکی وہ وزیراعظم کے ماتحت 19 گریڈ کے افسر فیصلہ کریں گے؟ وہ تحقیقات کریں گے اور وزیراعظم کو نا اہل کریں گے؟ یا ان کا بیان وزیراعظم ہاؤس میں لیں گے یا تھانے میں لیں گے؟ اس بات کا فیصلہ قوم کو کرنا ہے’۔

انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت نا اہل ہے، ان سے ملک نہیں چلایا جاتا، ملک بحران کی طرف جارہا ہے۔

آصف زرداری نے استفسار کیا کہ ‘یہ کس بات کی مٹھائی بانٹ رہے ہیں؟ اس بات کی مٹھائی بانٹی جارہی ہے کہ دو سینیئر ججز نے کہہ دیا ہے کہ آپ نا اہل ہیں، انہوں نے کہہ دیا ہے کہ آپ صادق اور امین نہیں رہے’۔

انہوں نے کہا کہ ‘قوم کو یہ سوال پوچھنا چاہیے کہ یہ کیسے ہوا، ہمار شروع سے یہ موقف رہا ہے کہ کبھی بھی پیپلز پارٹی کو یا عوام کو ان ججز سے انصاف نہیں ملا’۔

عمران خان کو پیغام دیتے ہوئے آصف زرداری نے کہا کہ ‘ہم نے خان صاحب سے بھی کہا تھا کہ ہمارے ساتھ بیٹھیں، قانون سازی کریں اور پھر اس قانون کو لے کر عدالت میں چلیں لیکن انہوں نے ہماری بات نہیں مانی’۔

انہوں نے کہا کہ عمران خان ناتجربہ کار سیاستدان ہیں، انہیں نہیں معلوم کیوں کہ نہ کبھی وہ جیل گئے ہیں نہ کبھی ایف آئی آر میں اپنا بیان لکھایا، انہیں نہیں پتہ کہ جسٹس یہاں کیسے چلتے ہیں ججز کیسے کام کرتے ہیں، اس لیے وہ نہیں سمجھ سکے’۔

آصف زرداری نے کہا کہ عمران خان نے اپنی سیاست چمکانے کے لیے ایک ڈرامہ کیا جس سے میاں صاحب کو فائدہ ہوا اور یہ سلسلہ چلتا رہے گا، ہم دوبارہ کہتے ہیں کہ آج ملک میں جمہوریت کو اور جسٹس کو نقصان ہوا ہے جو نہیں ہونا چاہیے تھا’۔

زرداری نے کہا کہ ‘پاکستان میں عوام کو دھوکہ دیا گیا، بیوقوف بنایا گیا اور ان کے ساتھ مذاق کیا گیا’۔

انہوں نے کہا کہ ہماری قانونی ٹیم اور فیصلے کا تفصیلی جائزہ لے گی جس کے بعد جامع تبصرہ کیا جائے گا، پہلے دیکھیں گے کہ دیگر سیاسی جماعتیں کیا کررہی ہیں اور عوام کی کیا سوچ ہے، پھر عوام کی سوچ کو لے کر آگے بڑھیں گے.

آصف زرداری نے کہا کہ ‘اب دنیا کو پتہ چل گیا ہے کہ نواز شریف کا چہرہ وہ نہیں ہے جو آج تک دکھاتے رہے ہیں کہ وہ شریف ہیں، کسی کے پاس بھی چلے جائیں اور پوچھ لیں وہ کہے گا کہ گلی گلی میں چور ہے نواز شریف چور ہے’.

[pullquote]اعتزاز احسن نے کہا کہ ‘جے آئی ٹی بنانا نواز شریف کو راہ فرار دینے کے مترادف ہے’۔[/pullquote]

سینیئر قانون دان اور پیپلز پارٹی کے رہنما اعتزاز احسن نے اس موقع پر اپنے رد عمل میں کہا کہ ‘طویل مشاوت کے بعد ہم نے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ تین ججز کا جو فیصلہ ہے وہ ناقص ہے، اس کا احتسابی عمل پر کوئی اثر نہیں ہوگا’۔

انہوں نے استفسار کیا کہ ‘نواز شریف کے خلاف پہلے بھی سانحہ ماڈل ٹاؤن پر جے آئی ٹی بنی لیکن اس کا کیا بنا؟’

انہوں نے کہا کہ پانچ رکنی بینچ کے دو سینیئر ججز کا فیصلہ دیگر تین ججز پر بھاری ہے اور ان دو ججز نے نواز شریف کو صادق اور امین نہ ہونے کے باعث نا اہل قرار دیا ہے۔

اعتزاز احسن نے کہا کہ دیگر تین ججز نے اس کی تردید نہیں کی بلکہ یہ کہا کہ معاملہ جے آئی ٹی کے پاس جائے اور فیصلہ موخر کردیا لہٰذا دو سینیئر ججز کی رائے حقیقت میں سپریم کورٹ آف پاکستان کی رائے سمجھی جاسکتی ہے.

اعتزاز احسن نے کہا کہ 1993 سے آج تک سپریم کورٹ کی یہ روایت رہی ہے کہ وہ شریف خاندان پر ہلکا ہاتھ رکھتی ہے.

[pullquote]سپریم کورٹ کا فیصلہ تاریخی، ایم کیو ایم[/pullquote]

متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے سربرا ڈاکٹر فاروق ستار کا کہنا ہے کہ ایم کیو ایم پاناما کیس کے سامنے آنے والے فیصلے کو تاریخی سمجھتی ہے۔

کراچی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے فاروق ستار نے کہا کہ ‘نیب، ایف بی آر اور ایف آئی اے نے اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کیں’۔

انہوں نے کہا کہ فیصلے کے بعد انتظامی خامیاں سامنے آگئیں، ملک سے کرپشن کا مکمل خاتمہ چاہتے ہیں، تمام فریقین کو اس فیصلے کو تسلیم کرنا چاہیے۔

فاروق ستار نے مطالبہ کیا کہ پاناما اسکینڈل کی طرح کرپشن کے دیگر مقدمات کو بھی جے آئی ٹی یا کمیشن کے سپرد کیا جائے تاکہ اربوں روپے لوٹنے والوں کا احتساب ہوسکے۔

خیال رہے کہ پاناما کیس میں سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں رقوم کی بیرون ملک منتقلی کی مزید تحقیقات کے لیے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم بنانے کا حکم جاری کیا ہے جو 60 روز میں تحقیقات مکمل کرے گی جبکہ وزیراعظم اور ان کے صاحبزادے حسن اور حسین نواز جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوں گے۔

[pullquote]شیخ رشید احمد ، طاہر القادری ، چوہدری شجاعت حسین کی جانب سے وزیر اعظم سے مستعفیٰ ہونے کا مطالبہ کیا گیا .[/pullquote]

[pullquote]وزیراعظم و بچوں کو 14 سال قید کا امکان : فواد چوہدری[/pullquote]

اسلام آباد: سپریم کورٹ میں وزیر اعظم نواز شریف اور ان کے بچوں کے خلاف دائر پاناما کیس میں عدالت کی جانب سے دiے گئے فیصلے پر بات کرتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی) کے رہنما فواد چوہدری نے کہا کہ ہم نے وزیر اعظم کو جیل بھیجنے کی بات نہیں کی تھی۔

ڈان نیوز کے پروگرام نیوز وائز میں گفتگو کرتے ہوئے فواد چوہدری نے کہا کہ اب جو تفتیش ہو گی اس کے نتیجے میں وزیراعظم اور ان کے بچے جیل جا سکتے ہیں اور انھیں 14 سال کے قریب جیل ہو سکتی ہے۔

پی ٹی آئی کے رہنما نے کہا کہ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ اگر وزیراعظم اور ان کے بچے جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوتے ہیں تو وہاں گریڈ 18، 19 اور 20 کے افسران ہوں گے اور وہ فیصلہ کریں گے کہ کیا وزیر اعظم کو واپس گھر بھیجا جائے یا انہیں گرفتار کیا جائے۔

فواد چوہدری کے مطابق حیرت کی بات یہ ہے کہ مسلم لیگ ن اپنی سبکی کو کس طرح سے کامیابی قرار دے رہی ہے، شاید مسلم لیگ ن والوں نے فیصلہ نہیں پڑھا اس لیے مٹھائیاں تقسیم کر رہے ہیں، امید ہے کل اردو اخبار میں فیصلہ چھپے گا تو انہیں پھر شرمندگی ہو گی۔

اس حوالے سے مسلم لیگ ن کی رہنما عظمٰی بخاری نے کہا کہ وزیراعظم اور ان کے بیٹوں کے لیے جے آئی ٹی کے سوالات کا جواب دینا اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ ہو گا اور ان کے وقار میں بھی اضافہ ہو گا۔

پروگرام میں شامل ماہر قانون ایڈوکیٹ علی ظفر نے کہا کہ سپریم کورٹ کی جانب سے پاناما کیس میں کیا گیا فیصلہ آئین اور قانون کے مطابق ہے۔ کیس کے کے دوران وزیر اعظم اور ان کے بچوں کے وکلا کی جانب سے جس قسم کی صفائی پیش کی گئی تھی اس سے کوئی بھی مطمئن نہیں ہوا۔اس لئے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) بنانے کا حکم دیا گیا ہے جس کے ذریعے مزید تحقیقات کی جائیں گی۔

واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے وزیراعظم نواز شریف کے خلاف پاناما کیس کی مزید تحقیقات کے لیے فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کے اعلیٰ افسر کی سربراہی میں مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) بنانے کا حکم دیا ہے جسے حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) نے ‘فتح’ قرار دیا۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے لارجر بینچ نے کورٹ روم نمبر 1 میں پاناما لیکس کے معاملے پر آئینی درخواستوں کا فیصلہ سنایا جسے رواں سال 23 فروری کو محفوظ کیا گیا تھاْ۔

540 صفحات پر مشتمل اس فیصلے کو جسٹس اعجاز اسلم خان نے تحریر کیا۔

پاناما کیس کے تفصیلی فیصلے کے آغاز میں جسٹس آصف سعید کھوسہ نے 1969 کے مشہور ناول ‘دی گاڈ فادر’ کا ذکر کرتے ہوئے لکھا، ‘ہر بڑی دولت کے پیچھے ایک جرم ہوتا ہے’۔

فیصلے پر ججز کی رائے تقسیم رہی، 3 ججز ایک طرف جبکہ 2 ججز جسٹس آصف سعید کھوسہ اور جسٹس گلزار احمد خان نے اختلافی نوٹ لکھا اور وزیراعظم نواز شریف کو نااہل قرار دینے سے اتفاق کیا۔

فیصلے کے مطابق فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کے سینئر ڈائریکٹر کی سربراہی میں 7 دن کے اندر جے آئی ٹی تشکیل دی جائے گی جو 2 ماہ میں اپنی تحقیقات مکمل کرے گی، جبکہ جے آئی ٹی کو ہر 2 ہفتے بعد سپریم کورٹ بینچ کے سامنے اپنی رپورٹ پیش کرنے کی بھی ہدایت کی گئی ہے۔

[pullquote]پاناما اسکینڈل چوروں کے لیے جیل تیار[/pullquote]

پیرس: دنیا بھر میں تہلکہ مچانے والے پاناما اسکینڈل کے کرداروں کو تاحال کسی عدالت سے جیل کی سزا سنائے جانے کی خبر سامنے نہیں آئی، تاہم آف شور کمپنیز رکھنے والے ان افراد کے لیے جیل تیار کرلی گئی۔

جی ہاں پاناما اسکینڈل کیس کے ٹیکس چورافراد کے لیے پاناما شہر کے سمندر میں ہی ایک ایسی جیل تیار کرلی گئی، جسے ہالی ووڈ فلم ’گیم آف تھرونز‘ میں دکھائی جانے والی جیل سے متاثر ہوکر تیار کیا گیا۔

مگر یہ جیل حقیقی نہیں، بلکہ مصنوعی ہے، جسے سیانتاگو اور پیرس سے تعلق رکھنے والے ڈزائنرز نے کاغذ کی مدد سے تیار کیا۔

ون ویک ون پروجیکٹ نامی ادارے سے منسلک ڈزائنروں نے پاناما شہر کے قریب عالمی سمندر میں بحری جہاز پر بنے ایک ایسے جیل کی ڈیزائن پیش کی جس میں تمام ٹیکس چور افراد کو بند کیا جاسکتا ہے۔

ڈزائنروں کی جانب سے تیار کیے گئے جیل کی الگ الگ بیرکیں بنائی گئیں، جب کہ اس کی بلندی 100 میٹر اور لمبائی 350 میٹر رکھی گئی ہے، جیل کے ہر کمرے کا سائز 9 مربع میٹر ہے۔

ڈزائنرز کے مطابق جیل میں الگ الگ بیرکیں اس لیے بنائی گئیں ہیں کہ پاناما میں شامل مرد و خواتین کو الگ الگ بیرکوں میں رکھا جائے۔

کاغذ سے تیار کردہ اس مصنوعی جیل میں جیل حکام کا انتظامی دفتر اور دیگر کمرے بھی بنائے گئے ہیں۔جیل کو کاغذ سے اتنی مہارت اور خوبصورتی سے تیار کیا گیا کہ اسے دیکھتے ہیں حقیقی جیل کا گمان ہونے لگتا ہے۔خیال رہے کہ جس ادارے نے یہ مصنوعی جیل تیار کی ہے، وہ ادارہ ہر ہفتے عام زندگی کے کسی نہ کسی پہلو پر اپنی ڈیزائن پیش کرتا ہے۔

رواں ماہ پاناما اسکینڈل کیس کو سامنے آئے ہوئے ایک برس بیت جانے کے موقع کے بعد ڈزائنرز نے یہ مصنوعی جیل تیار کیا۔

[pullquote]پاناما فیصلہ: اسٹاک ایکسچینج میں زبردست تیزی[/pullquote]

سپریم کورٹ سے پاناما کیس کا فیصلہ آنے بعد اسٹاک مارکیٹ میں تیزی کا رجحان دیکھنے میں آیا جبکہ پاکستان اسٹاک ایکسچینج کا بینچ مارک کے ایس ای 100 انڈیکس 1140 پوائنٹس (2.39 فیصد) اضافے کے بعد 48743.56 پر بند ہوا۔

ایک موقع پر کے ایس ای 100 انڈیکس میں 1800 پوائنٹس کا اضافہ بھی دیکھنے میں آیا تاہم انڈیکس یہ مومینٹم برقرار نہیں رکھ سکا۔

مجموعی طور پر 19 کروڑ 98 لاکھ شیئرز کی خرید و فروخت ہوئی جس کی مالیت 20.33 ارب روپے رہی۔

383 کمپنیوں کے شیئرز کی لین دین ہوئی جن میں سے 305 کے شیئرز کی قدر میں اضافہ، 66 کی قدر میں کمی اور 12 کی قدر میں استحکام رہا۔

سب سے زیادہ 2 کروڑ 92 لاکھ شیئرز کے الیکٹرک لمیٹڈ کے خریدے و فروخت کیے گئے جبکہ اینگرو پولیمر کے 2 کروڑ 76 لاکھ، ٹی آر جی پاک لمیٹڈ کے 2 کروڑ 9 لاکھ، عائشہ اسٹیل مل کے 2 کروڑ 2 لاکھ اور فوجی سیمنٹ کے 1 کروڑ 35 لاکھ شیئرز کا کاروبار ہوا۔

خیال رہے کہ گزشتہ روز بھی پی ایس ایکس کا بینچ مارک کے ایس ای 100 انڈیکس 1.56 فیصد اضافے کے بعد 47716 پوائنٹس پر بند ہوا تھا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے