جامئ دوراں

کتاب کی تلاش میں سرگرداں رہنا میرا پرانا شوق ہے۔اپنے اس شوق کی تکمیل میں مجھے کئی مہربان ملے جن سے مل کر زندگی حسین لگنے لگتی ہے۔اکتوبر ۲۰۱۵ء میں ایک دن فیس بک پر ایک کتاب ’’آوارہ گرد اشعار‘‘پر نظر پڑی جس کو معراجؔ جامی صاحب نے لگایا تھا۔کتاب کا عنوان پسند آیا تو ان سے عکسی نقل کی فرمائش کر بیٹھا ۔جامیؔ صاحب نے پتا لیا اور کمال مہربانی سے چند دن بعد کتاب ارسال کر دی۔تعلق بنتا چلا گیا۔۲۲ اپریل ۲۰۱۶ء کو میری شادی طے ہوئی جس کی دعوت جامی ؔ صاحب کو بھی دی ۔اس وقت مجھے حیرت بھی ہوئی اور خوشی بھی کہ نہ صرف انھوں نے دعوت قبول کی بل کہ مقررہ تاریخ پر شریک بھی ہو گئے۔ان کی شرکت سے جہاں ہر کوئی مسرور اور حیران تھا وہیں حسنؔ ظہیر راجا نے مشاعرے کا اہتمام کر کے ان کی شرکت کو مزید یادگار بنا دیا۔میں نے بارہا ان کے حوالے سے لکھنا چاہا لیکن ہر دفعہ یہ سوچ کر چپ رہا کہ میرے الفاظ ان کی شخصیت کے کیوں کر عکاس ہو سکتے ہیں۔میں شکر گزار ہو اپنے محترم پروفیسر حبیب گوؔ ہر کا جنھوں نے پہل کر کے مجھے ہمیشہ کی طرح حوصلہ فراہم کیا اور میں کچھ خامہ فرسائی کرنے کی ہمت یک جا کر سکا ۔

میرے محسن اور بزرگ دوست سید معراج ؔ جامی کا اصل نام سید معراجؔ مصطفی ہاشمی ہے ۔۱۲ مارچ ۱۹۵۵ء کو کراچی میں ولادت ہوئی۔یوں تو آپ نے ہائیکو ،سفر نامہ ،نظم ،تنقید ،تحقیق ،صحافت،کالم نگاری ،اداریہ نگاری سمیت ادب کی کئی اصناف میں طبع آزمائی کی لیکن اردو غزل آپ کی محبوب صنف رہی اور غزل نے بھی آپ سے وفا کی ۔کراچی میں دبستا نِ داغ کے آخری شاعر فدؔ ا خالد دہلوی صاحب کے باقاعدہ شاگرد ہوئے ۔اردو اور مطالعہ اسلامی میں ماسٹرز کرنے والے سید معراجؔ جامی نے بھرپور زندگی بسر کی جس میں ادب کی رنگینیاں ،فوٹو گرافی کی رعنائیاں اور سیاحت کی سحر انگیز یاں ہونے کے علاوہ کتب بینی کی انگڑائیاں بھی ہیں۔

۱۹۹۲ء میں پہلا شعری مجموعہ ’’روزن خیال‘‘ کے نام سے شائع ہوا اور بھرپور پذیرائی حاصل کی ۔جاپانی صنف سخن’’سین ریو‘‘ پر جناب معراجؔ جامی نے کامیاب طبع آزمائی کی جس کا ثبوت ۲۰۰۳ء میں شائع ہونے والا مجموعہ ’’بیوی سے چھپ کر‘‘ ہے ۔یاد رہے یہ اردو میں سین ریو کا بھی پہلا مجموعہ ہے ۔

کچھ تو خدا سے ڈر
ماں کی خدمت کرتا ہے
بیوی سے چھپ کر

انگلستان کا سفر نامہ ’’انگلستان ،خدا کی شان ‘‘۲۰۱۱ء میں زیور طبع سے آراستہ ہونے والا آپ کا پہلا سفر نامہ ہے ۔۲۰۱۱ء میں ہی مقالات افتتاحیہ کے نام سے آپ کے مضامین کا مجموعہ منظر عام پر آیا۔آل نبیؐ اور آل ہاشمی سید معراجؔ جامی کی نبیؐ سے محبت کا ثبوت آپ کا ۲۰۱۳ء میں شائع ہونے والا نعتیہ کلام’’ معراج عقیدت ‘‘ہے ۔جناب معراجؔ جامی کے کامیاب ادبی سفر میں مختلف اصناف پر بے شمار کتب ہیں جو آپ کی پہچان بن گئیں جن میں ’’اور ٹیلی فون بند ہو گیا‘‘ ،’’معراج محبت‘‘ ،’’معراج خیال‘‘ ،’’معراج فکر‘‘ چند نام ہیں جب کہ شعرائے کراچی کا تذکرہ سمیت کئی اہم کام جلد مکمل ہونے کے روشن امکانات ہیں۔جناب معراجؔ جامی نے افریقہ ،بھارت ،ترکی ،برطانیہ ،جاپان سمیت کئی ممالک کے ادبی سفر بھی کیے ،کئی معروف ادبی رسائل کی ادارت کا سہرا بھی آپ کے سر ہے ۔ترکی کے شہر استنبول سے شائع ہونے والے سہ ماہی’’ ارتباط‘‘ کے ساتھ ساتھ گزشتہ ۱۶ سال سے ماہ نامہ’’ پرواز‘‘ لندن اور لیوٹن سے چھپنے والے سہ ماہی’’ سفیر ‘‘کی ادارت بھی آج کل آپ ہی سنبھالے ہوئے ہیں ۔

ڈاکٹر جمیل جالبی صاحب کی تاریخ ادب اردو کا اشاریہ لکھنے کی سعادت بھی جامیؔ صاحب کے حصے میں آئی ،جامیؔ صاحب کی ذات محبت ،مروت اور شفقت کا زندہ نمونہ ہے ۔ کتابوں سے محبت ان کی گھٹی میں پڑی ہے ۔کتابیں دینے میں بھی جتنی سخاوت معراج جامی کو اللہ نے عطا کی وہ کم ہی کسی کے حصے میں آتی ہے۔میرے ساتھ بھی جامیؔ صاحب کے تعلقات قاضی عبدالودود صاحب کی کتاب’’آوارہ گرد اشعار‘‘کے مرہونِ منت ہیں جب کہ میری لائبریری میں کتب کا ایک بڑا ذخیرہ ہے جو جامی ؔ صاحب کی محبتیں بکھیر رہا ہے۔ پروفیسر حبیب ؔ گوہر کے بہ قول ’’پاکستان میں کتاب دوستوں کی فہرست مرتب کی جائے تو آپ کا نام پہلے صفحے پر ہو گا‘‘معراج ؔ جامی کی محبتیں ایسی ہیں کہ ہر کوئی ان کو سمیٹنے کا خواہاں ہے۔آپ کا یہ شعر آپ کی ذات کی غمازی کرتا ہے۔

؂ دشمنوں کے لیے بچا ہی نہیں
دوستوں میں بٹ گیا ہوں میں

پروفیسرحبیب ؔ گوہرلکھتے ہیں’’ نام کی طرح شخصیت بھی دل ربا ہے ،آپ شائستگی اور تہذیب کا پیکر ہیں‘‘سید معراج ؔ جامی کی محبتو ں کا ہر کوئی اسیر نظر آتا ہے ان کی ذات میں بے شمار ایسے اوصاف ہیں جن کی بدولت لوگ ان سے ملنے کی تمنا کرتے ہیں۔جناب عادل حسن (کراچی)کے مطابق ’’جامیؔ صاحب کا پیغام صرف محبت ہے جو ماشاء اللہ ہر سمت میں پہنچ چکا ہے ان کی محبتوں کے سبھی اسیر ہیں‘‘۔معراجؔ جامی کی انسان دوستی ہی بارے میں پروفیسر محمد ظہیر قندیل( حسن ابدال) کے الفاظ ملاحظہ ہوں:’’سید معراجؔ جامی کھرے اور خالص انسان ،خالص دوست ہیں اور خالص انسان دوست ہیں۔‘‘جو ایک مرتبہ ان سے ملتا ہے وہ بار بار ملنے کی تمنا کرتا ہے۔وہ ایک ایسا پیڑ ہیں جس کی چھاؤں میں ہر کوئی بیٹھتا ہے اور جس کا میوہ سبھی کے لیے ہے۔ان کے مزاج میں مروت اس قدر ہے کہ کسی بھی مزاج کا آدمی ہو وہ اس کو اپنا گرویدہ بنا ہی لیتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ دنیا کے کئی ممالک کے بیسیوں شہروں میں اور وطنِ عزیز کے ہر چھوٹے بڑے شہر میں آپ کے چاہنے والے کثرت سے موجود ہیں۔لیکن ہر کسی کو جامی ؔ صاحب سے شکایت ہی رہتی ہے وہ یہ کہ کبھی کسی کو وہ اپنے کارنامے نہیں بتاتے،شاعر ہو کر بھی شعر سنانے سے گریزاں رہتے ہیں۔وجہ پوچھیں تو جواب ملتا ہے’’بہت ہو چکی شاعر میں دوستوں سے ملنے آتا ہوں شاعری سنانے نہیں۔‘‘ یونس اگاسکر صاحب کے مطابق ’’میں نے ایک طویل عرصہ معراج ؔ جامی کے ساتھ گزارا لیکن کبھی بھی ان کی تمام خوبیاں اور صلاحتیں مجھ پر آشکار نہ ہوئیں۔‘‘میں نے جامی ؔ صاحب کے بارے جتنی بھی معلومات جمع کی وہ ابھی نامکمل ہے ان کی اس سے کہیں زیادہ خوبیاں ہیں مگر عجیب انسان ہیں اپنی تعریف سننا بھی پسند نہیں کرتے۔ان کا ہر ہر رنگ زمانے سے جدا ہے شاید یہی وجہ ہے کہ پروفیسر شبنم امان( کراچی) کو کہنا پڑاکہ’’جامیؔ صاحب کے لیے ہی کہا گیا ’’ڈھونڈ گے اگر ملکوں ملکوں ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم۔۔۔جامیؔ صاحب جیسی ہستی اس دنیا میں کم ہی ہو گی‘‘۔

آخر میں سرور ؔ بارہ بنکوی کا یہ شعر جامیؔ صاحب کے نام۔

؂ جن سے مل کر زندگی سے عشق ہو جائے وہ لوگ
آپ نے شاید نہ دیکھے ہوں مگر ایسے بھی ہیں

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے