یار لوگوں کا کہنا ہے کہ پانامہ کیس کا سنایا جانے والا فیصلہ دنیا کا واحد عدالتی فیصلہ ہے جس پر تینوں فریق بھنگڑے ڈال رہے ہیں۔ اب آپ سوچ رہے ہوں گے دو فریقوں کو تو آپ ٹی وی پر مٹھائیاں تقسیم کرتے دیکھ چکے ہیں لیکن یہ تیسرا فریق کون ہے؟ تو جناب دل تھام کر بیٹھیں کیونکہ یار لوگوں نے تو دلائل سے ثابت بھی کر دیا ہے کہ اس فیصلے کا اصل فاتح تو تیسرا فریق ہیکیونکہ اس تیسرے فریق نے کمال مہارت سے ایسا فیصلہ سنایا ہے کہ پورا پاکستان ایک دوسرے کو مٹھائیاں کھلا رہا ہے۔فیصلہ ہوئے بیس گھنٹے گذر گئے اور میں نے ان بیس گھنٹوں میں فیصلے کے پانچ سو سے زائد صفحات کھنگال دیے تاکہ حسب وعدہ کوئی ایک انقلابی سطر تو تلاش کر پاؤں جسے بیس کروڑ عوام اگلے بیس سال تک یاد رکھے گی لیکن یار لوگ اس بات پر بضد ہیں کہ ضروری نہیں کہ یاد رکھے جانے والی بات انقلابی ہی ہو کسی اچھے لطیفے کو بھی سالوں یاد رکھا جا سکتا ہے۔
سننے میں آیا ہے کہ جب عوام کو یہ بتایا جارہا تھا کہ فیصلہ محفوظ ہے عین اسی وقت بہت سارے فریقین کیساتھ بیٹھ کر فیصلے کی نوک پلک سنواری جا رہی تھی۔ فیصلے میں موجود انقلابی سطور کے خاتمے یا اضافے کے لئیے بارگین ہو رہی تھی۔ فیصلے کے اندر ایک بڑی شخصیت کی بیٹی کے نام پر کم دھیان دینے رکھنے کے لئیے معاملات طے ہو رہے تھے تاکہ اسے مستقبل کا وزیراعظم بنانے کی فضا قائم کی جائے۔
ایک اہم بات کوئی نہیں پوچھ رہا کہ اگر جے آئی ٹی بنانے کا ہی فیصلہ کرنا تھا تو دو مہینے پہلے سنا دیتے کم از کم آج تک جے آئی ٹی اپنی سفارشات پیش کر چکی ہوتی اتنا عرصہ تک فیصلہ محفوظ رکھنے کی کیا دلیل ہے۔ کہیں کسی ایک فریق کے اقتدار میں طوالت بخشنے کے لئیے وقت تو نہیں دیا جارہا ہے۔ یاد رکھیے 60 دنوں میں جے آئی ٹی نے تحقیق مکمل کر کے سپریم کورٹ کو دینی ہے جس پر طویل مشاورت کے بعد شاید ایک بار پھر سے فیصلہ محفوظ ہو جائے اور کیا معلوم الیکشن کا بگل بھی بج جائے اور پھر وسیع تر قومی مفاد میں محفوظ ہی رکھا جائے۔ 60 دنوں میں انٹرنیشنل منی ٹریل کی کھوج کیونکر ممکن ہو گی یہ ایک الگ سوال اور بحث ہے۔زرداری صاحب کے دھواں دار بیانات بھی اس بات کا اشارہ دے رہے ہیں کہ الیکشن کا وقت آن پہنچا ہے ایک بار پھر نواز شریف کے ساتھ بیان بازی کر کے نورا کْشتی شروع کر دی جانی چاہیے۔ دیگر سیاسی جماعتوں کی سرگرمیاں بھی الیکشن کیمپین کا عندیہ دے رہی ہیں۔
فیصلے میں عجیب و غریب تضادات موجود ہیں۔ ایک طرف تو اداروں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے ان کو ناکام ترین قرار دیا گیا ہے اور دوسری طرف جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) انہی اداروں میں سے آفیسران پر مشتمل ہو گی۔ یہ آفیسران بھلے سپریم کورٹ کو ہی رپورٹ کیوں نہ کریں تحقیقات کے لیے معاونت اپنے ادارے سے ہی لیں گیاور آفیسر کا تعین بھی اسی ادارے کے سربراہ نے کرنا ہے جو وزیراعظم کے ماتحت ہے (ماسوائے ملٹری انٹیلی جنس)۔
دوسرا تضاد یہ کہ طیبہ تشدد کیس میں جب سیشن جج کے ٹرائل کا معاملہ آیا تو سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ ٹرائل مجسٹریٹ کے بجائے ہائیکورٹ سے کروایا جائے کیوں کے مجسٹریٹ سیشن جج کے ماتحت ہے لیکن جب وزیر اعظم نواز کے ٹرائل کی باری آئی ہے تو ایسے اداروں کی جے آئی ٹی تشکیل دی جاتی ہے جو سب وزیر اعظم کے ماتحت ہیں۔عین ممکن ہے جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم کے ممبران بھی بالآخر باہمی مشاورت سے موجودہ عدالتی فیصلہ کی طرح ایسی تحقیقاتی رپورٹ تیار کرلیں جس کے بعد ایک بار پھر سے تمام فریق مٹھائیاں بانٹ رہے ہوں گے۔
یار لوگ پوچھنے لگے کہ انجام کیا ہو گا؟ میں نے کہا میرے خیال سے یہ سارا عمل وقت گزارنے کے لئیے کیا جارہا ہے پہلے پانامہ کیس کو سننے کے لیے دی جانے والی درخواست کو مسترد کیا جاتا ہے پھر سال بعد اس پر ایکشن لے لیا جاتا ہے پھر ایمرجنسی کی بنیاد پر روزانہ سماعت کر کے کئی مہینے گزارے جاتے ہیں اور فیصلہ محفوظ ہونے کے نام پر کئی مہینے اور اب تحقیقات کے نام پر کئی مہینے اور پھر فیصلہ کرنے اور فیصلہ سنانے میں وقت لگے گا تو اس لیے اب اس بے بس عدالتی نظام سے مجھے کوئی خاص توقع نہیں ہے ہاں پیشنگوئی کے طور پر دو آپشن دے دیتا ہوں۔
1۔ قوی امکان یہی ہے تحقیقات کو لٹکانے کا کوئی نیا بہانہ تراش لیا جائے گا ہو سکتا ہے بین الاقوامی حکومتوں یا ایجنسیوں سے مدد کے نام پر مزید وقت مانگا جائے گا اور اسی دوران الیکشن کا اعلان بھی کر دیا جائے گا۔ اور پھر مظلوم بن کر عوام سے ووٹ مانگیں جائیں گے کے ہماری ٹانگیں کھینچی جاتیں رہیں اور ہمیں کام نہیں کرنے دیا گیا۔
2۔ نواز شریف صاحب طے شدہ معاملے کے تحت مستعفی ہو جائیں گے اپنے خاندان کے کسی اہم فرد کا سیاسی راستہ ہموار کرتے ہوئے وزیراعظم کی کرسی میں بٹھائیں گے اور لوگوں سے ہمدردیاں سمیٹتے ہوئے الیکشن میں جائیں گے اور ن لیگ کی قیادت بڑی چالاکی سے اپنی اگلی نسل تک منتقل کر دیں گے کیونکہ اس کیس کے سارے معاملات پوری ترتیب کیساتھ قدم بہ قدم فکس نظر آرہے ہیں۔
جیسا کے حسن نثار کہتے ہیں کے عدلیہ ایسا فیصلہ سنائی گی جو بلاول بھٹو زرداری کی طرح ہو گا جو نہ پوری طرح بھٹو ہے اور نہ پوری طرح زرداری۔ میرے ایک دوست جن کی بیکری ہے انہوں نے دلچسپ بات کی کے کوئی جیتے یا نہ جیتے جب تک کورٹس ایسے فیصلے دیتی رہے گی ہماری بیکریاں زبردست جیتتی رہیں گی۔
کچھ دوستوں کا یہ بھی ماننا ہے کہ پانچ سو زائد صفحات پر مشتمل اس خشک فیصلے کو اگلے بیس برس تک یاد رکھنے کے لیے بیکریوں کے علاوہ بادام اور دیگر خش میوہ جات کی دکانوں کا رخ بھی کرنا چاہیے تاکہ ان کا کاروبار بھی پھلے پھولے ۔