پہلے کچھ سطور پڑھ لیں :
(1)عدالت درخواست سماعت کیلئے منظور کرتے ہوئے حکم دیتی ہے کہ آزاد حکومت جلد شمالی علاقہ جات کا انتظامی کنٹرول سنبھالے اورانتظامی طور پر اسے آزاد کشمیر کے ساتھ یکجا کرے۔
حکومت پاکستان آزاد حکومت کو وسائل مہیا کرے تاکہ آزاد حکومت احکامات پر عمل درآمد کر سکے۔
(2)شمالی علاقہ جات (گلگت بلتستان)کے عوام کو ایکٹ 74 کے تحت تمام بنیادی حقوق فراہم کئے جائیں۔
جن میں حکومت بنانا، اسمبلی میں نمائندگی، کونسل میں نمائندگی ، سول سروس اور قانون کے مطابق قومی اداروں میں نمائندگی دی جائے۔
(3)آزاد حکومت شمالی علاقہ جات میں عبوری آئین کے مطابق انتظامات سنبھالنے کے اقدامات اور عدالتی نظام وہاں قائم کرے ۔
یہ نکات ہیں اس فیصلے کے جو 1993 میں آزاد کشمیر ہائی کورٹ کے اس وقت کے چیف جسٹس عبدالمجید ملک کی سربراہی میں فل کورٹ بنچ نے گلگت بلتستان کے علاقہ داریل کے باشندے ملک محمد مسکین(جو بعد میں مشرف دور میں بنائی گئی گلگت بلتستان کی قانون ساز کونسل 2004 اور پہلی قانون ساز اسمبلی 2007کے اسپیکر بھی رہے) کی گلگت بلتستان (شمالی علاقہ جات) کے حوالے سے1990 میں حکومت پاکستان کے خلاف دائر کردہ آئینی درخواست کی سماعت کے بعد دیا تھا۔(واضح رہے کہ تمام درخواست گزاروں کا تعلق گلگت بلتستان سے تھا)
1990 میں پاکستان میں پیپلز پارٹی کی حکومت تھی جبکہ آزاد کشمیر میں حکومت کے سربراہ سردار عبد القیوم خان (مرحوم) تھے۔کہا جاتا ہے اس وقت بے نظیر بھٹو گلگت بلتستان (شمالی علاقہ جات) کی آئینی حیثیت تبدیل کرنے کی کوششوں میں مصروف تھیں جس پر سیاسی برتری حاصل کرنے اور اسلام آباد پر دباؤ ڈالنے کیلئے سردار عبدالقیوم خان کی ایما پر ملک محمد مسکین نے ہائی کورٹ میں پٹیشن دائر کی۔ملک محمد مسکین ریاست جموں کشمیر کے پشتنی باشندہ نہیں تھے (داریل 1927میں ریاست جموں و کشمیر کا حصہ نہیں تھا یہ پاکستان بننے کے بعد 1951گلگت بلتستان میں شامل کیا گیا) ان کے ساتھ گلگت کے جان محمد بھی درخواست گزار بنے لیکن فیصلے میں ملک مسکین وغیرہ ہی لکھا گیا ہے ۔
سردار عبد القیوم خان کو اس بات کی امید نہ تھی کہ اس درخواست پر کوئی فیصلہ آ سکتا ہے لیکن جسٹس مجید ملک نے ہمت دکھائی اور اپنی ریٹائرمنٹ سے قبل اس معاملے پر فیصلہ (PLD 1993 AJK page1.Title Malik Maskeen vs Govt of Pak etc.)سنا دیا جو آزاد حکومت کی توقعات کے برعکس تھا۔ اس فیصلے نے آزاد حکومت کے ساتھ ساتھ اسلام آباد کو بھی ہلا کر رکھ دیا۔ اس پر ریاست پاکستان اور آزاد حکومت بذریعہ وزارت امور کشمیر و شمالی علاقہ جات ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ آف آزاد کشمیر گئے اورموقف اختیار کیا گلگت بلتستان کو ایکٹ 74 کے تحت آزاد حکومت میں شامل نہیں کیا جا سکتا لہذا ہائی کورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دیا جائے۔
ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف درخواست کی سپریم کورٹ آزاد کشمیرکے چیف جسٹس سردار سید محمد خان کی سربراہی میں فل کورٹ نے مقدمے کی سماعت کی اورستمبر 1994 میں ایک جج کے اختلافی نوٹ کے ساتھ فیصلہ (PLD 1995 SC (AJK)1,title Fed of Pak vs Malik M Maskeen)سنایا کہ گلگت بلتستان ریاست جموں کشمیر کا حصہ ہے لیکن آزاد کشمیر کے عبوری آئین کے ایکٹ 74 کے تحت ان کا آزاد کشمیر کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے اور آزاد کشمیر ہائی کورٹ کو یہ اختیار حاصل نہیں ہے کہ وہ گلگت بلتستان کے حوالے سے کسی بھی درخواست کی سماعت کرے جبکہ جسٹس (ر) بشارت احمد شیخ نے بنچ کے دو ججوں کے فیصلے کو تسلیم کرتے ہوئے اختلافی نوٹ میں لکھا کہ گلگت بلتستان کے حوالے سے آزاد کشمیر ہائی کورٹ کو گلگت بلتستان کے حوالے سے درخواست پر سماعت کا حق حاصل ہے اس لئے میں ریاست پاکستان کی درخواست خارج کرنا چاہوں گا۔
دونوں فیصلوں میں معائدہ کراچی کا کئی مرتبہ ذکرکیا گیا ہے۔ جسٹس مجید ملک اپنے فیصلے میں لکھتے ہیں گلگت بلتستان کا آزاد کشمیر کے ساتھ تعلق ہے جس کی وجہ سے آزاد کشمیر اور مسلم کانفرنس کی قیادت ریاست پاکستان سے معائدہ کراچی میں اس کا علاقے کا انتظام پاکستان کے حوالے کیا، اس وقت چونکہ آزاد کشمیر کے پاس کوئی آئینی انتظام نہیں تھا تاہم اب ہے اس لئے آزاد حکومت اس علاقے اپنے دائرہ اختیار میں لے اور مذکورہ اختیارات دے۔جبکہ سپریم کورٹ کے دو ججز اپنے فیصلے میں لکھتے ہیں کہ معائدہ کراچی میں گلگت بلتستان کا انتظام و انصرام پاکستان کے سپرد کیا گیا ہے ، اس لئے ایکٹ 74 کے تحت ہائی کورٹ یہ سماعت کرنے کا آئینی حق نہیں ہے۔
(راقم کی ذاتی رائے ہے کہ ’’اگر ہائی کورٹ اپنے فیصلے میں معائدہ کراچی منسوخ کرنے کے احکامات جاری کرتی تو شائد آزاد حکومت اس پر مجبور ہو جاتی اور معائدہ کراچی منسوخ ہو جاتا پھر سپریم کورٹ یہ اس فیصلے کو کالعدم قرار نہ دے سکتی‘‘)
یہاں یہ بات اہم ہے کہ سپریم کورٹ آزاد کشمیر کے فیصلے پر کسی نے بھی نظر ثانی کی درخواست نہیں دی تھی جو لمحہ فکریہ ہے کیونکہ یہ فیصلہ اختلافی نوٹ کے ساتھ کمزور فیصلہ تھا اس کے برعکس ہائی کورٹ کے بنچ نے مشترکہ فیصلہ دیا تھا۔
آزاد کشمیر سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد الجہاد ٹرسٹ نے سپریم کورٹ آف پاکستان میں گلگت بلتستان کے حقوق اور آئینی حیثیت کے تعین کیلئے درخواست دائر کی جس کی سماعت سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس اجمل میاں کی سربراہی میں پانچ رکنی بنچ نے کی اور1999 میں فیصلہ(1999 SCMR 1379, title Al-Jehad vs Fed of Pak) دیتے ہوئے کہا کہ شمالی علاقہ جات کے عوام ٹیکس دیتے ہیں اور پاکستان کے عام شہری کے برابر حقوق رکھتے ہیں وہ انصاف کیلئے براہ راست سپریم کورٹ آف پاکستان آ سکتے ہیں۔ س
پریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں پارلیمنٹ کو ہدایت کی تھی کہ چھ ماہ میں گلگت بلتستان کے عوام کو مکمل حقوق فراہم کرے جس میں آزاد عدلیہ کا قیام،اچھی حکومت کیلئے اپنے نمائندوں کا آزادنہ انتخاب اور آئین پاکستان کے تحت عام شہری کو حاصل حقوق مل سکیں ۔سپریم کورٹ نے فیصلہ میں کہا کہ اگر حقوق کی فراہمی کیلئے آئین میں ترمیم کرنا پڑے تو کی جائے یا ایک نوٹیفیکشن کے ذریعے ان کو حقوق فراہم کئے جائیں اور یہ چھ ماہ کے دورانیے میں کیا جائے۔(1999سے ابتک 18 سال گزر چکے ہیں سپریم کورٹ کے ان احکامات کی تعمیل نہیں ہو سکی۔)
اسی طرح گنگا ہائی جیکنگ کیس کی سماعت کے دوران پاکستان کے اٹارنی جنرل نے عدالت عظمی کے سامنے واضح کیا تھا کہ ’’ریاست جموں کشمیر کا کوئی حصہ اپنی مرضی سے پاکستان یا بھارت کے ساتھ الحاق نہیں کر سکتا‘‘۔
اب بھی اگر آزاد حکومت معائدہ کراچی کو منسوخ کرنے کو تیار ہو جائے تو نا صرف گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر یکجا ہو سکتے ہیں بلکہ بااختیار حکومت بن سکتی ہے جوحقیقی معنوں میں ریاست کی نمائندہ حکومت کہلوا سکے گی۔