تاریخی فیصلے میں فیصلے کے سوا سب کچھ موجود ہے، دو ججز نے صادق اور امین ماننے سے انکار کر دیا اور تین ججز نے قرار دینے سے، مگر پانچوں نے معاملے کو مشکوک قرار دیا۔ درست کہا گیا تھا 450 صفحات میں سے فیصلہ ڈھونڈتےصدیاں لگ جائینگی، سمجھ یہ نہیں آیا کہ اگر ساری ذمہ داری جے آئی ٹی پر ڈالنی تھی تو اسکے لئے 5 ماہ کے دوران 36 سماعتوںاور فیصلے کیلئے 57 دنوں کی کیا ضرورت تھی۔ منی ٹریل پر شریف خاندان عدالت کو مطمئن کرنے میں ناکام رہا، جے آئی ٹی کیا تحقیقات کریگی، کتنی شفاف ہونگی اور کون کون اعتبار کریگا یہ ایک سوالیہ نشان ہے جو انتخابی مہم میں بھرپور استعمال کیا جائیگا۔ ملکی تاریخ میں شاید دو فیصلے ناقابل فراموش ہیں، مولوی تمیز الدین کیس میں جسٹس منیر کا نظریہ ضرورت اور جسٹس مولوی مشتاق کا بھٹو کو پھانسی کا فیصلہ، ان دونوں ججز کی جانبداری اگرچہ اب ایک حوالہ بن چکی ہے مگر جیسے فیصلے اسکے بعد آئے اور اب تک آ رہے ہیں، یہ دونوں بزرگ منصف عالم بالا میں ہنستے ضرور ہوں گے
ناگاہ ہم مجبوروں پر یہ تہمت ہے مختاری کی
جو چاہیں سو آپ کرین، ہم کو عبث بدنام کیا
پاناما کیس میں تین فریق تھے حکومت، اپوزیشن اور عدلیہ، حکومت اور اپوزیشن دونوں ہی جیت گئے۔ اب صورتحال کچھ یوں ہے کہ حکومت بھی خوش ہے اور اپوزیشن بھی، دونوں یوم تشکر و نجات منا رہے ہیں مگر عدلیہ کے بارے میں راوی خاموش ہے۔ سوشل میڈیا پر ایسا طوفان مچا ہے کہ دھرانے سے زبان جل جائے۔ ایک جانب ن لیگ جیت کے بھنگڑے ہیں تو دوسری جانب تحریک انصاف، پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی کے شادیانے، رہے بیچارے عوام سو سر پکڑے بیٹھے ہیں۔ بہرحال کم از کم یہ تو ہوا کہ ملک میں پھیلے سیاسی ہیجان کا خاتمہ ہوا، اب تمام جماعتیں نئے ولولے، عزم اور یکسوئی کیساتھ عوام کیلئے 2018 انتخابات کے سبز باغ تیار کرینگی۔ عدالت عظمیٰ کے فیصلے میں واضح ہے کہ رقوم کی بیرون ملک منتقلی ثابت نہ کی جا سکی، قطری شہزادے کا خط مسترد کر دیا گیا، حسن اور حسین نواز کو مزید وضاحت دینی ہو گی، اسحاق ڈار اور کیپٹن صفدر بھی زد میں ہیں، گویا پارلیمنٹ سمیت وزیر اعظم کی تقاریر کو سچ ماننے سے انکار کر دیا گیا۔ اگر میں غلط نہیں تو 1973 میں جب دبئی میں گلف اسٹیل قائم کی گئی اس وقت پاکستان میں اسٹیٹ بینک کے فارن ایکسچینج ریگولیشن 1947 نافذ تھے جس کے تحت ایک ڈالر بھی بلااجازت ملک سے باہر لے جانا جرم تھا، اس صورت میں لاکھوں ڈالر کی قانونی ترسیل بنا ثبوت و شواہد ممکن ہی نہ تھی۔ ضخیم فیصلے میں اگر کسی کو کلین چٹ ملی ہے تو وہ مریم نواز ہیں، یہی اس فیصلے کا اہم ترین پہلو ہے کہ جانشینی کا مسئلہ حل ہو گیا۔ مجھے سیاسی تجزیہ کار ہونے کا دعوی نہیں مگر کم از کم گزشتہ تین کالمز میں ذکر کر چکا ہوں کہ پاناما کیس کا فیصلہ ایسا ہو گا کہ سب مطمئن ہو جائیں، ہم بھی خوش، تم بھی خوش اور پرانی تنخواہ پر کام جاری، نقصان پہنچا ہے تو صرف عدلیہ کی ساکھ کو۔
اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں کی سادہ لوحی قابل رشک ہے کہ اخلاقی بنیادوں پر وزیر اعظم سے استعفیٰ کا مطالبہ کر رہی ہیں۔ پاکستان آئس لینڈ تو نہیں کہ وزیر اعظم سگمندر گلولکسن اور انکی اہلیہ کا نام پاناما پیپرز میں آئے اور فوری استعفیٰ دیدیں، پاکستان برطانیہ بھی نہیں کہ وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون اخلاقی بنیادوں پر عہدہ چھوڑ دیں۔ یوکرائن کے وزیر اعظم اور چلی کے صدر بھی عوامی دبائو کے تحت مستعفیٰ ہو جائیں۔ شاید مغربی اور مشرقی جمہوریت میں یہی فرق ہے۔ مشرق میں آمریت اور بادشاہت کی آمیزش نے جمہوریت کو مزید حسین بنا دیا ہے۔ عوامی دبائو، احتساب، قوانین کی پابندی، مشرقی طرز جمہوریت میں یہ سب نعروں کی حد تک چلتا ہے عملدرامد کا کوئی امکان نہیں، حکمراں اور اشرافیہ تمام قوانین سے ماورا تصور کی جاتی ہیں۔ پاناما پیپرز میں لگ بھگ 400 سے زائد پاکستانیوں کے نام شامل ہیں، آف شور کمپنیوں کے حوالے سے سابق وزیر اعظم بینظیر بھٹو، سابق وزیر داخلہ رحمان ملک، عمران خان، علیم خان، جہانگیر ترین، عثمان سیف اللہ سمیت دیگر کئی سیاستدان، ججز، بیوروکریٹس، تاجر، صنعتکار اور دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد شامل ہیں۔ لگتا نہیں کہ شریف خاندان کا معاملہ کسی منطقی انجام تک پہنچے گا سو دیگر ملزمان بھی جمہوری آزادی سے لطف اندوز ہوتے رہینگے۔ سپریم کورٹ فیصلے کے تحت جے آئی ٹی میں ایف آئی اے، اسٹیٹ بینک اور ایس ی سی پی شامل ہیں جبکہ آئی ایس آئی اور ایم آئی کے نمائندوں کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ منی ٹریل اور دیگر امور کی مرکزی تحقیقات تو بہرحال وفاقی اداروں کی ذمہ داری ہو گی سوال یہ ہے کہ وفاق کے براہ راست ماتحت ادارے کیا حکومت وقت کے خلاف کارروائی کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ حسین نواز، حسن نواز، اسحاق ڈار، کیپٹن صفدر سے تحقیقات کی جائیگی، شاید معاملہ وزیر اعظم تک بھی پہنچ جائے، پیاسا کنویں کے پاس جائیگا کا کنویں کو پیاسے کے پاس آنا پڑیگا، سوال یہ ہے کہ کیا جے آئی ٹی سپریم کورٹ کے تیرہ سوالوں کا تشفی بخش جواب حکومت سے حاصل کر پائیگی ؟
حضور ملک میں انتخابات صرف ایک سال کی دوری پر ہیں، گویا انتخابی مہم شروع ہو چکی ہے۔ پاناما کیس نے ایک بار پھر ثابت کر دیا کہ حقیقی اپوزیشن تحریک انصاف ہے۔ ویسے تو مفاہمت کے بادشاہ آصف زرداری پنجاب جیتنے کی بیشک بڑھکیں مارتے رہیں مگر اندرون سندھ کے علاوہ پیپلز پارٹی کی دال کہیں گلتی نظر نہیں آتی۔ اگر پیپلز پارٹی بلاول بھٹو کو سیاسی بلوغت کا سرٹیفیکٹ عطا کر دیتی تو صورتحال کچھ بہتر ہو سکتی تھی۔ تحریک انصاف کی سیاسی جدوجہد اپنی جگہ مگر اب بھی پنجاب میں دوسری بڑی قوت ہے۔ خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کا زور جاری رہیگا مگر وفاق میں حکومت بنتی نظر نہیں آتی۔ ہوسکتا ہے آپ کو کچھ زیادہ خوشی نہ ہو مگر صورتحال اسی طرح رہی تو سپریم کورٹ کے فیصلے کے باوجود وفاق میں حکومت ن لیگ ہی نظر آتی ہے اور اپوزیشن لیڈر تحریک انصاف سے ہو گا۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کی اہم ترین بات یہ ہے کہ اختلافی نوٹ لکھنے والے دو سینئر ترین ججز بالترتیب آئندہ کے چیف جسٹس ہیں جبکہ آئندہ انتخآبات کی خاص ترین بات یہ ہے کہ دو سیاسی جانشینوں اور مستقبل کے وزرا اعظم کا پارلیمانی کیریئر شروع ہو گا،
اختتام خلیل جبران کی ایک چشم کشا نظم کیساتھ
قابل رحم ہے وہ قوم
جس کے نام نہاد سیاستداں
لومڑیوں کیطرح مکار اور دھوکے باز ہوں
اور جس کے دانشور
محض شعبدہ باز اور مداری ہوں
اور قابل رحم ہے وہ قوم
جو اپنے نئے حکمرانوں کو
ڈھول بجا کر خوش آمدید کہتی ہے
اور جب وہ اقتدار سے محروم ہوں
تو ان پر آوازیں کسنے لگے
اور قابل رحم ہے وہ قوم
جس کے اہل علم و دانش
وقت کی گردش میں
گونگے بہرے ہو کر رہ گئے ہوں
اور قابل رحم ہے وہ قوم
جو ٹکڑوں میں بٹ چکی ہو اور جس کا ہر طبقہ
اپنے آپ کو پوری قوم سمجھتا ہو