چین کو گدھے فروخت کرنے کے نقصانات

پاکستان میں گدھوں کی برآمد کے معاملے کو بہت ہلکے پھلکے انداز میں لیا جا رہا ہے۔ کسی میڈیا چینل نے اس معاملے میں سنجیدگی سے بات نہیں کی، اگر کسی نے کی بھی ہے تو فقط یہ کہ عوام کو گدھوں کا گوشت کھلایا جا رہا ہے۔ خیر گدھوں کا گوشت بھی ایک سنجیدہ معاملہ ہے کیوں کہ یہ بھی ان کی کھالوں سے جڑا ہوا ہے۔

چین صرف پاکستان سے ہی نہیں دنیا بھر سے گدھے خرید رہا ہے۔ ان میں براعظم افریقہ کے علاوہ لاطینی امریکی اور مصر جیسے ممالک بھی شامل ہیں۔

چین کی گدھوں کے لیے بھوک یہ تمام ممالک مل کر بھی پوری نہیں کر پا رہے اور اب پاکستان بھی اس میں شامل ہو گیا ہے۔

چین گدھوں کی گوشت اور کھالوں کا کیا کرتا ہے اس پر تو بات ہو رہی ہے لیکن پاکستان کو اس کا نقصان کیا ہوگا؟ اس پر بات نہیں ہو رہی۔

ابھی خیبر پختونخوا حکومت نے چین کے ساتھ ایک معاہدہ کیا ہے تو ساتھ ہی گدھوں کے قیمت میں اضافہ ہو گیا ہے۔ ابھی اس میں مزید اضافہ ہوگا کیوں کہ ابھی تو یہ صرف آغاز ہے۔

پاکستان کے دیہاتوں اور خاص طور پر پہاڑی علاقوں میں مال برداری کے لیے زیادہ تر گدھوں کا استعمال کیا جاتا ہے۔ زراعت کے ساتھ ساتھ ترقی پذیر پاکستانی ٹرانسپورٹ سسٹم میں بھی گدھوں اور گدھا گاڑیوں کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے۔

پاکستان بھر کے غریب علاقوں یا پھر گلی محلوں کی گلیاں تنگ ہیں اور وہاں بھی مٹی، ریت یا بجری کی منتقلی کے لیے گدھوں کا ہی استعمال کیا جاتا ہے۔

گدھوں کی افزائش نسل عام پالتو جانوروں کی نسبت دیر سے ہوتی ہے۔ پاکستان میں اس حوالے سے فارمز نہ ہونے کے برابر ہیں اور جو چند ایک بنے ہیں لیکن دوسری طرف قانونی اور غیر قانونی طریقوں سے گدھوں کی کھالیں اور گدھے چین برآمد کرنے کا سلسلہ تیز ہو چکا ہے۔

اس کا نتیجہ مندرجہ ذیل صورتوں میں برآمد ہو رہا ہے۔

گدھوں کی قمیتوں میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے، جنہیں کنٹرول میں رکھنا فی الحال ممکن نہیں رہا اور قیمتیں وقت کے ساتھ ساتھ مزید بڑھتی جائیں گی۔

گدھوں کی قیمتیں بڑھنے سے ان سے منسلک مال برداری اور کرایوں میں اضافہ ہو جائے گا۔ شاید ایکسپورٹر کے لیے یہ اضافہ کوئی مسئلہ نہ ہو لیکن غریبوں کے لیے یہ کرائے افورڈ کرنا مشکل ہوتا جائے گا۔

مقامی مارکیٹ میں گدھوں کی کمی اور قیمتیں بڑھنے سے جرائم میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔

پہلے دیہاتوں میں بھینسیں یا اس سے بھی قیمتی جانور وغیرہ چوری ہوتے تھے اب آئے دن یہ خبریں موصول ہوتی ہیں کہ فلاں فلاں گاؤں سے اتنے گدھے چوری ہو گئے ہیں۔

گدھوں کو چوری بھینسوں کی نسبت آسان ہے، ان کا وزن کم ہوتا ہے اور ٹرانسپورٹ کرنے میں بھی آسانی رہتی ہے۔ چوروں کے لیے گدھے سونا ثابت ہو رہے ہیں اور مزید ہوں گے۔

جب چوری ہوتی ہے تو ظاہر ہے قتل بھی ہوتے ہیں اور دیگر جرائم بھی جنم لیتے ہیں۔

چند دن پہلے میرے قریبی رشتہ داروں کے دیہات میں راتوں رات چند گدھوں کی کھالیں اتار لی گئیں۔ صبح ہوئی تو گدھوں کی لاشیں تو ادھر پڑی تھیں لیکن ان کی کھالیں شاید اسمگلنگ کے لیے کراچی پہنچ چکی تھیں۔

جب حالات ایسے ہو جائیں گے تو آپ کو گدھوں کی حفاظت بڑھانی پڑے گی جو ایک غریب کے لیے ایک الگ مسئلہ ہے۔

گدھوں کے کاروبار سے وابستہ طبقے یا کمہار زیادہ تعلیم یافتہ نہیں ہیں اور شاید یہی وجہ ہے کہ ان کے مسائل اور ممکنہ پریشانیوں کا تفصیل سے میڈیا پر ذکر نہیں کیا جا رہا۔

نائجیریا اور برکینا فاسو جیسے متعدد ملک چین کو گدھوں کی برآمدات پر پابندی عائد کر چکے ہیں، وجہ یہ تھی کہ وہاں گدھوں کی تعداد مسلسل کم ہوتی جا رہی تھی، قیمتیں بڑھ گئیں تھیں اور مقامی ٹرانسپورٹ سسٹم درہم برہم ہونے لگا تھا۔

پاکستان شوق سے گدھے برآمد کرے لیکن اس سے پہلے گدھوں کے فارمز اور ان کی اضافی کھیپ پیدا کرنی ہوگی۔
دوسری صورت ایک عام آدمی کے لیے اس کے نتائج بھیانک ہوں گے۔

ابھی پاکستان کے مقامی مارکیٹ میں گدھوں کی کمی ہے اور آپ نے برآمد کرنا شروع کر دیے ہیں۔

اس سے پہلے کہ دس برس بعد حکومت کی آنکھیں کھلیں۔ آپ کو آج منصوبہ بندی سے کام لینا ہو گا اور گدھوں کی غیرقانونی تجارت و اسمگلنگ کو ہر صورت روکنا ہوگا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے