احسان اللہ احسان کی شرط؟

لیاقت علی عرف احسان اللہ احسان کو اسٹبلشمنٹ کی طرف سے یہ یقین دہانیاں کرائی گئی ہیں کہ اس کے خلاف فوجی عدالت سمیت کسی بھی عدالت میں دہشت گردی یا فوجداری مقدمہ نہیں چلایا جائے گا۔

اعلیٰ سطح ذرائع نے ’’دی نیوز‘‘ سے گفتگو میں انکشاف کیا ہے کہ احسان کو یہ یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ اس کے خلاف کوئی بھی مقدمہ نہ تو شروع کیا جائے گا نہ ہی اس کے خلاف دائر مقدمات کی پیروی کی جائے گی۔

ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ عصمت اللہ معاویہ جو ایک وقت میں پنجابی طالبان کے سربراہ تھے، نے لیاقت علی عرف احسان اللہ احسان کے ایک سیکورٹی ایجنسی کے ساتھ رابطہ پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کیا جس کے نتیجے میں تحریک طالبان پاکستان جماعت الاحرار کے سابق ترجمان کی واپسی ہوئی۔

پنجابی طالبان کے سابق امیر کمانڈرعصمت اللہ معاویہ، وہ پہلے جنگجو کمانڈر تھے جنہوں نے سیکورٹی و انٹیلی جنس حکام کی معافی کی یقین دہانی کے بعد جولائی 2014ء میں شمالی وزیرستان سے تحریک طالبان پاکستان چھوڑی اور پاکستان کے بندوبستی علاقہ میں آئے۔

ایک ذریعہ جو ہتھیار ڈالنے کی تفصیلات سے آگاہ ہے، نے انکشاف کیا ہے کہ عصمت اللہ معاویہ احسان اللہ احسان کے قریبی دوست ہیں۔ احسان اللہ نے پہلی بار 2015ء میں معاویہ سے اس معاملے پربات کی جس میں معاویہ احسان اللہ کو قائل کرنے میں کامیاب رہے۔

معاویہ نے سوشل میڈیا پر اپنے تازہ بیان میں احسان اللہ احسان کے ساتھ اپنے تعلقات کا پس منظر بیان کرتے ہوئے کہاکہ جب احسان اللہ احسان کو ٹی ٹی پی کا ترجمان مقرر کیا گیا تو اس وقت اس سے تعارف کرایا گیاتھا۔

انہوں نے مزید کہا کہ بیس ماہ قبل ایک معاہدہ کے تحت جب میری واپسی ہوئی تو ہمارا دوبارہ رابطہ ہوا جو اس کی واپسی تک جاری رہا۔ اس نے اپنی واپسی کے حوالے سے مجھ سے مشاورت جاری رکھی تاہم فیصلے کا حق اس کے پاس تھا جو اس نے استعمال کیا اور واپس آیا۔

ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ یہ عصمت اللہ معاویہ تھا جس نے سیکورٹی ایجنسی سے رابطہ کیا اور انہیں یہ بتایا کہ لیاقت علی عرف احسان اللہ احسان براہ راست بات کرنا چاہتا ہے۔ احسان اللہ احسان نے 6فروری کو چمن کے قریب پاک افغان سرحد پر اپنی اہلیہ اور بیٹے سمیت خود کو حکام کے حوالے کیا تھا تاہم ڈی جی آئی ایس پی آرنے 17؍ اپریل 2017ء تک اس کے ہتھیار ڈالنے کا اعلان نہیں کیا گیا۔

اس تاخیر کی وجوہات ظاہر ہے کہ کچھ خاص معلومات حاصل کرکے بعض تیز آپریشنز کرنے تھے۔ یہ بات ابھی تک صیغۂ راز ہے کہ 7فروری اور17اپریل کے درمیانی عرصہ میں فوری کارروائی کے لئے کچھ معلومات لی جا سکی یا نہیں۔

اس کے ہتھیار ڈالنے کے رسمی اعلان کے بعد ٹی ٹی پی جماعت الاحرار کے ترجمان اسد منصور نے اپنے بیان میں دعویٰ کیا کہ احسان کواپنے دیگر دو ساتھیوں سمیت افغان صوبے پکتیکا سے گرفتارکیا گیا تھا۔ تاہم ترجمان نے یہ نہیں بتایا کہ اس کے ساتھ گرفتار ہونے والے دیگر دو افراد کون تھے۔ دراصل احسان نے اپنی اہلیہ اور بیٹے کے ساتھ ہتھیار ڈالے تھے۔ لیاقت علی عرف احسان اللہ احسان جس کا تعلق مہمند ایجنسی سے ہے، نے ٹی ٹی پی اور ٹی ٹی پی جماعت الاحرار کے بچوں اور عورتوں سمیت معصوم شہریوں پر وحشیانہ حملوں کا دعویٰ کررکھا تھا، پشتو زبان کا شاعر بھی ہے۔ ایک بار اس نے اس نمائندے کے ساتھ معروف رومانوی شاعر احمد فرازکی اردو شاعری کا پشتو زبان میں ترجمہ شیئر بھی کیا تھا۔

احسان اللہ احسان کے خلاف مقدمات نہ کھولنے کی یقین دہانی کے ساتھ اسے سیکورٹی، رہائش اور کھانے پینے کی فراہمی کی بھی یقین دہانی کرائی گئی ہے۔ ذرائع اس پر خاموش ہیں کہ کیا جنگجوکمانڈر کے لئے کوئی وظیفہ مقرر کیا گیا ہے یا نہیں۔ یہ بات بھی واضح نہیں کہ احسان اللہ کو فراہم کی گئی سیکورٹی، رہائش اور کھانے پینے کی سہولت کب تک جاری رہے گی۔

دلچسپ امریہ ہے کہ عصمت اللہ معاویہ نے ایک ویڈیو پیغام میں ٹی ٹی پی چھوڑنے کا اعلان کیا جس میں اس نے کہا تھا کہ اس کا طالبان دھڑا افغانستان میں نیٹو اور ایساف فورسز کے خلاف اپنے آپریشنز جاری رکھے گا۔ اس نے دیگر طالبان گروپوں پر بھی زور دیا تھا کہ وہ تشدد چھوڑکر حکومت کے ساتھ امن کے عمل کا ساتھ دیں۔

مولانا عصمت اللہ جن کا تعلق پنجاب کے ضلع وہاڑی سے ہے،اب سخت سیکورٹی میں پشاور میں خاموش زندگی گزار رہے ہیں۔ کوئی بھی نہیں جانتا کہ وہ کیا کررہے ہیں اور اپنی زندگی کیسے گزار رہے ہیں۔ احسان اللہ احسان کی قسمت بھی عصمت اللہ معاویہ جیسی ہی لگتی ہے۔ معاویہ نے اسی بیان میں یہ بھی کہا تھا کہ آپریشنز ردالفساد اور ضرب عضب کے جیسے آپریشنز مذاکرات کے نتائج نہ لاسکے۔

انہوں نے کہا کہ حکیم اللہ محسود کے حقیقی بھائی اور پھر چچا اور حکیم اللہ محسود کے قریبی ساتھی شیخ ابوبکر سمیت اب تک 85افراد ریاست کے سامنے ہتھیار ڈال چکے ہیں۔ تاہم دیگرلوگ جنہوں نے اس بیانیہ کو چیلنج کیا ان میں فوجی حملوں میں مرنے والوں کے رشتے دار شامل ہیں۔

چوہدری اسلم کی بیوہ نورین اسلم نے اس نمائندے سے گفتگو میں کہا کہ میں اپنے دشمن احسان اللہ احسان کو کیسے معاف کرسکتی ہوں وہ ایک قاتل ہے۔ ریاست کو پہلے ان لواحقین سے رائے لینی چاہئے جن کے پیارے اس جیسے لوگوں کے ہاتھوں مارے گئے۔ ریاست کوآرمی پبلک اسکول کے مقتول طلباء کی مائوں سے پوچھنا چاہئے۔ احسان اللہ احسان 19 ستمبر 2011ء کو کراچی میں چوہدری اسلم پر حملے کا نامزد ملزم ہے جس میں چوہدری اسلم کے کئی باڈی گارڈزبھی ہلاک کردیئے گئے تھے۔ چوہدری اسلم کراچی کے ایک معروف سپرنٹنڈنٹ آف پولیس تھے جنہیں 9؍ جنوری 2014ء کو خود کش حملے میں ماردیا گیا تھا۔

جب سابق آئی جی پنجاب پولیس شوکت جاوید سے اس سلسلے میں رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ احسان اللہ احسان کو طالبان کے مرکزی دھارے سے باہرنکال دیاگیا تھا اب اس کے پاس ہتھیار ڈالنے کے سوا کوئی چارۂ کارنہیں تھا۔

سابق آئی جی پولیس نے احسان اللہ احسان کے ہتھیار ڈالنے کو خوش کن قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ بالآخرسیکورٹی فورسز کو طالبان کے بارے میں تفصیلات جاننے کے سلسلے میں طریقہ کار اختیار کرنے میں مدد دے گی۔

وفاقی حکومت ملکی اور سطح پر اس بات کی یقین دہانی کرارہی ہے کہ وہ اچھے اور برے طالبان میں کوئی فرق نہیں کررہے بلکہ وہ تمام جنگجوئوں کے ساتھ یکساں سلوک کررہے ہیں۔ اس وقت تک حکومت نے پارلیمنٹ کے ساتھ جنگجوئوں کو دوبارہ ضم کرنے کے سلسلے میں اپنی کوئی پالیسی (اگر کوئی ہے) شیئر نہیں کی ہے

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے