موبائل بیٹری کی چارجنگ کا مسئلہ ، اب مسئلہ نہیں رہا 

طاہر عمر 

آئی بی سی اردو

. . .

Screen-Shot-2012-02-07-at-10.47.48-AM

ٹیکنالوجی کی برق رفتار ترقی نے ہر وہ چیز ممکن کردی ہے، جس کو صرف سوچا جاسکتا تھا۔
ابھی کچھ ہی عرصہ پہلے کی بات ہے کہ لوگ سوچتے تھے کہ تھری ڈی ویڈیوز کے بعد آخر کیا جیز نئی آئے گی؟ اور جو فوری جواب ذہن میں آتا تھا وہ تھا احساسات کا شامل ہونا، بظاہر یہ چیز مشکل نظر آتی تھی کہ کیسے ممکن ہوگا؟ لیکن تھوڑے ہی وقت کے بعد فور ڈی کی آمد نے یہ گتھی بھی سلجھا دی، ٹھہریے
بہت سے لوگوں کو بات سمجھ ہی نہیں آرہی ہوگی، آپ ذرا تصور کریں کہ آپ سیمنا میں ایک فلم دیکھ رہے ہیں ، جس میں ایک باغ کا منظر ہے۔۔۔۔ آپ صرف باغ کے منظر کو دیکھ ہی سکتے ہیں ، اس میں خوشبوؤں کو سونگھ نہیں سکتے، لیکن فور ڈی فلموں میں یہ عنصر بھی شامل کردیا گیاہے۔۔۔ کیسے؟؟؟ اس کی تفصیل پھر کسی دن۔۔۔ !!!

بتانے کا مقصد صرف اتنا ہے کہ جو چیزیں ہمارے خیال میں آسکتی ہیں ، ان کو یا تو عملی جامہ پہنا دیا گیا یا پہنایا جارہا ہے۔۔۔۔ !!!

ذرا سوچیں آپ کے پاس جو موبائل ہے، اس کی بیٹری چارج کرنے کےلئےچارجر کی ضرورت پڑتی ہے، کیا مستقبل قریب میں ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ بیٹری چارج کرنے کے لئے کسی چارجر کی ضرورت ہی نہ پڑے۔

مستقبل میں کیا، یہ تو ممکن ہوبھی چکا،جی ہاں بیٹری کو بغیر کسی تار کے چارج کیا جاسکتا ہے۔

لیکن اس کے لئے کسی چارجنگ مشین ، گیجٹ یا کسی بجلی کے ذریعے کا قریب ترین ہونا ضروری ہے۔
مختلف کمپنیاں مثلاً
Energous (WATT) and Nikola Labs
آج کل اس طریقے کو مزید سہولت کار بنانے کی کوشش کررہی ہیں ۔
Energous
کے ماڈل کی بنیاد
Radio Frequency Wave energy
کے استعمال پہ ہے، جو کہ موبائل فون سے خود بھیجی جاتی ہیں یا آتی ہیں ۔
جبکہ
Nikola Labs
نے اسمارٹ فون کیس بنایا ہے، جو اس انرجی کو کنٹرول کرے گا جو موبائل فون سگنلز اور وائی فائی روٹرز کی تلاش میں ضائع کرتے ہیں ۔ریڈیو ویو انرجی کو کنٹرول کرنے کے لئے ایک اسٹیشن بنایا گیا ہے، جو ریڈیو انرجی کو الیکٹرک انرجی میں تبدیل کرے گا۔ اس کے لئے ایک ٹرانسمیٹر بھی ہوگا جو انرجی بھیجے گا اورایک ریسیور جو سگنلز کو ریسیو کرے گا، وہی سگنلز انرجی میں تبدیل ہوکر بیٹری چارج کریں گے۔
یوں آپ اپنے قریب ترین وائی فائی راؤٹر سے اپنا موبائل چارج کرسکیں گے۔ دونوں کمپنیاں اس پہ کام کررہی ہیں اور 2015 کے آخر تک وہ اسے پیش کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں ۔ دیکھتے ہیں وہ اپنے دعویٰ کو کس حد تک پورا کرتی ہیں ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے