رب کی منشاء کے لیے ہماری جدو جہد

انسان کو رب تعالیٰ نے کس مقصد کے لیے پیدا کیا ؟ وہ مقصد اس نے اپنے مخصوص بندوں یعنی انبیا اور رسولوں کے ذریعے ہر انسان تک پہنچایا کہ اے انسان تو یہ نہ سمجھ کہ تیرا اس دنیا میں آنا یا پیدا ہونا کوئی حادثہ ہے ،تجھے پیدا کرنے والی ایک ذات ہے جو کل کائنات پہ قادر ہے ،تجھے ایک خاص مقصد کے تحت اس دنیا پہ بھیجا گیا ۔وہ مقصد ہمیں اس کے رسولوں اور نبیوں کے ذریعے ہم تک پہنچ چکا ۔قرآن میں رب تعالی کا ارشاد ہے
"بیشک ہم نے جن و انس کو اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ”

اللہ نے انسان کو اس دنیا پر بھیج کر بتا دیا کہ انسان کو اس نے اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا۔اب اس نے انسان کو کھلا اختیار دے دیا اور دو مختلف راستے بتائے کہ وہ کس راستے پرچل کر اس کی خوشنودی حاصل کر سکتا ہے اور کس راستے پر چلنا اس کی منشا ءکے خلاف اور ناراضگی کا باعث ہے ۔ اب یہ انسان پرمنحصر ہے کہ وہ کونسا راستہ اختیار کرتا ہے۔ اگر وہ سیدھا راستہ اختیار کرتا ہے تو اس کےلیے اس دنیا میں بھی اجر ہے اور آخرت کے لیے بھی اور اگر وہ اس سیدھے راستے سے بھٹکتا ہے تو دنیا میں بھی ذلیل و خوار اور رسوا ہو گا اور آخرت کا شدید ترین عذاب کا حق دار بھی ہو گا۔اس نے رب کی منشا کے مطابق زند گی گزارنے کے طور طریقے اپنی کتاب قرآن مجید میں واضح بیان کر دیے ،اور جس ہستی پہ یہ با برکت کتاب کا نزول ہو ا اسے ساری انسانیت کے لیے رحمت اللعلمین بنا کے بھیجا گیا اور اس با برکت ہستی کی زندگی کو عملی نمونہ قرار دیا گیا ۔

اب میں کچھ ذکر کرتا چلوں کہ ہمارے معاشرے اور ہم اس رب کی منشا کے لیے کتنی جدو جہد کرتے ہیں ۔آج کا انسان پیدا ہوتے ہی اس دنیا کے پیچھے باگنا شروع کر دیتا ہے ۔ وہ اتنا دوڑتا ہے کہ اس کے شب و روز اسی دور میں گزرتے ہیں اور اسی دوڑ میں اس کی پھر ہمیشہ کے لیے شام ہو جاتی ہے ، یعنی اسے پیدا ہوتے ہی یہ احساس دلایا جاتا ہے کہ اس کا مقصد زندگی یہی دنیا ہے ۔ ایک پچہ جب پیدا ہوتا ہے وہ کچھ بول نہیں سکتا ،وہ کچھ سمجھ نہیں سکتا لیکن پھر بھی اس کو بتا یا جاتا ہے کہ اس نے اس دنیا کا بہت بڑا انسان بننا ہے ،اس بچے کی زبا ن کچھ بول نہیں سکتی ، ذہن کچھ سمجھ نہیں سکتا لیکن اسے کہا جاتا ہے بیٹاتم نے بڑے ہو کر انجینئیر بننا،ڈاکٹر بننا یا پائلٹ مین بننا ہے ۔ اس کے شعور رکھنے تک اسے یہی باتیں بار بار بتائی جاتی ہیں اور جب وہ شعور رکھتا ہے تو اسی بڑے انسان کے پیچھے بھا گنا شروع ہو جاتا ہے ۔اب والدین کی تربیت کے بعد اسے استاد سے ترتیب مطلوب ہوتی ہے تو اسے سکول بھیج دیا جاتا ہے ۔

جب و ہ سکول جاتا ہے تو استاد بھی اسے اسی دنیا کہ پیچھے لگا دیتا ہے ، شاید ی کہ میری یہ بات بہت سوں کو گراں گزرے پر میری سوچ کا زاویہ ضروری نہیں کہ کسی دوسرے انسان سے ملے ۔میں سب اساتذہ کو تو نہیں کہہ سکتا لیکن میرا جو تجربہ ہے یا میرے تعلیم حاصل کرنے کے دوران جو کچھ دیکھا ،سیکھا تو وہ کہیں اس اصل تربیت سے زیادہ دنیا کی بھاگ دوڑ کی تربیت زیادہ تھی ۔ جب وہ بچہ تعلیم حاصل کرنے جاتا ہے تو صرف اس غرض سے کہ اسکا کل، مستقبل پر امن و پر سکون ہو۔ وہ سکول جاتا ہے تو استاد بھی اسے سیکھاتا ہے کہ یہ دنیا ایک ریس کی طرح ہے اگر تم اس میں تیز نہیں بھاگو گے تو پیچھے رہ جاو گے ۔یعنی پھر وہ ایک بار اسی ریس کے پیچھے لگ جاتا ہے جو تربیت اسی ریس کے لیے اسے اپنے گھر اور معاشرے کے ماحول سے ملی ۔پھر وہ کالج جاتا ہے اسےبھی کالج میں ایسی ہی تربیت ملتی ہے پھر یونیورسٹی جاتا ہے وہاں اسے اس کے پروفیشنل کی تربیت دی جاتی ہے ۔ اب وہ ایک اچھا روزگار،ایک بہتر جاب کی تلاش میں ہوتا ہے جب اسے جاب مل جاتی ہے تو اس کے والدین اس کی شادی کروا دیتے ہیں پھر شادی کےکچھ عرصہ بعد اس کی اولاد ہو جاتی ہے ۔ اب اس کی ساری سوچ و فکر اپنی اولاد کے لیےہوتی ہے۔اب وہ اپنے بچوں کی تربیت بھی ویسی ہی کرے گا جیسی اس کی ہوئی تھی ۔

وہ بچوں کو بھی اس دنیا کے پیچھے لگا دے گا کہ تم نے کل ڈاکٹر بننا ہے یا کوئی اور بڑا انسان۔جب ایسا ہی سلسلہ چلے گا تو اس کی آنے والی نسلیں بھی ایسا ہی کریں گی ۔ جب وہ بوڑھا ہو جاتا ہے تو اسے اس وقت احساس ہوتا ہے کہ اسے رب کے ہاں بھی حاضر ہونا ،اسکی زندگی پر امن و پر سکون تو ہو گئی کیونکہ اس نے اسے حاصل کرنے کے لیے دن و رات ایک کئے تھے ۔اب عمر کے آخری حصے میں رب کی منشا کے مطابق گزار لوں ۔ اگر اسکی تربیت کچھ ایسے ہوتی تو کتنا بہتر انسان ہوتا ۔کہتے ہیں کہ انسان کی پہلی درسگاہ اس کی ماں کی گود سےشروع ہوتی ہے ۔اگر اسے ماں یہ کہے کہ بیٹا تم نے کبھی جھوٹ نہیں بولنا ،تم نے کبھی نماز ترک نہیں کرنی ،تم نے کبھی ان فرضوں کو ترک نہیں کرنا جو رب نے تم پر فرض کیے ہوئے ہیں ، تم کبھی یتیموں اور مسکینوں کا ناحق حق نہیں چھیننا ،تم بڑوں کی عزت کرنا اور چھوٹوں پر شفقت کرنا تو کتنا اچھا ہوتا اسے کہا جاتا کہ یہ سب کام تیری اولین ترجیح ہونی چاہیے ان کاموں کو بجا لاتے ہوئے دنیا کے کاموں کو بھی نمٹانا ہے اور ماں کی درس گاہ کہ بعد جب سکول جائے تو اسے یہ بتایا جائے کہ تم تعلیم حاصل کرنے کا مقصد کل کو ایک بڑا آدمی بننے کے ساتھ ایک با اخلاق و با کردار آدمی بن سکو ۔ تم میں اور ایک ان پڑھ میں ایک فرق ہونا چاہیے بات چیت کرتے ، اٹھتے بیٹھتے کھاتے پیتے اور ایک دوسروں سے ملتے وقت ۔ تمہارے لیے یہ لاکھ درجے بہتر ہو گا کہ کل کو اگر تمہیں ایک بہتر روزگار نا بھی ملے پر تم ایک بہتر با اخلاق انسان بن گئے تو ۔
جب انسان کی تربیت ایسی ہو گی تو وہ یقیناً تو وہ ایک انسان معاشرے میں بدلاو لائے گا جس سے ایک معاشرہ اور پھر ایک ملک میں بدلاو آئے گا اور یقیناًً اس تربیت کی ہی بدولت ہم رب کی منشاء حاصل کرنے میں کامیاب ہونگے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے