کیاآپ کام یاب لکھاری بنناچاہتے ہیں؟

ادارت وتحریرکے طویل تجربے کی روشنی میں ذیل میں کسی بھی تحریرکے ردہونے کی بنیادی اورعمومی وجوہات درج کی جارہی ہیں نوآموزلکھاری اس تحریرکے مطالعے کے ذریعے اپنی تحریرکے ردہونے کی وجہ تلاش کرکے اس کاتدارک کرسکتے ہیں:

کسی کتاب کااقتباس تھا حوالہ نہیں دیا۔۔۔کسی اورکی تحریراپنے نام سے بھیج دی۔۔۔جس اخباریارسالے اورویب سائٹ کوتحریربھیجی اس کی پالیسی جاننے کی کوشش کی اورنہ ہی شایع ہونے والی تحریروں سے اس کااندازہ لگایا۔۔۔مدارس کے اخبارمیں نمازروزے کی ابتدائ معلومات بھیح دیں یاسیاسی اخبارکواصلاحی مضمون بھیح دیا یاکرکٹ اورصحت کے حوالے سے کالم جمعہ ایڈیشن کوبھیج دیا۔۔۔جس سیکشن یاپیج کے لیے تحریرلکھی میل میں اس کاحوالہ دیااورنہ ہی تحریرکے شروع میں اس کی صراحت کی مثلا:ادارتی صفحہ۔اسلامی صفحہ وغیرہ۔۔۔لکھنے اورٹائپ کرنے کے بعدخودتصحیح کی اورنہ ہی کسی ماہرکودکھائی۔۔۔لکھتے وقت لغت دیکھی اورنہ ہی تصحیح کے وقت۔۔۔تحریرکسی اجنبی فارمیٹ میں ٹائپ کی۔۔۔لکھنے سے پہلے مطالعہ کیااورنہ ہی غوروفکربس جی میں جوآیالکھنے بیٹھ گئے۔۔۔تحریرمیں درج اشخاص۔مقامات۔سنین وتواریخ کی درستی کے لیے متعلقہ کتب یاویب سائٹس کی مراجعت نہیں کی بس اپنے حافظے پرتکیہ کیااورلکھ مارا۔۔۔رموزاوقاف کی رعایت نہیں کی۔۔۔پیراگرافنگ کے اصول وضوابط کے خلاف پیراگراف بنادیے۔۔۔

موقع محل کے خلاف لکھامثلا:رجب کے مہینے میں رمضان کاذکروغیرہ۔۔۔!کامیاب لکھاری وہ ہے جوکبھی اپنی تحریرسے مطمئن نہ ہو۔خودکوسب کچھ نہ سمجھ بیٹھے۔ہرتحریرکامطالعہ اس نیت سے کرے کہ مجھے اس سے سیکھناہے۔ہرچیزکامشاہدہ ایک ناقداورمبصرکی حیثیت سے کرے۔اردوزبان کے تحریری اسلوب میں آنے والی تبدیلیوں اوراجنبی الفاظ سے باخبررہنے کے لیے ادبی رسائل وجرائد جرنلزاورکتب کامطالعہ کرتارہے۔کافی عرصہ پہلے کی بات ہے ماہرلسانیات ونفسیات سیدعرفان احمدکے انٹرویوکی ایڈیٹنگ کررہاتھاایک سوال کے جواب میں ان کایہ جملہ بڑاپسندآیا:اخبارات کی زبان الگ ہوتی ہے تحریرکی الگ۔

اگراپنی اردوتحریربگاڑنی ہوتواخبارات سے اردوسیکھیں۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اورصحافت کے ایک بزنس کی شکل اختیارکرنے کے بعداس جملے کی اہمیت بڑھ رہی ہے کیوں کہ اخباری دنیامیں ایسے رپورٹرزکی کمی نہیں جنہیں اردوتحریرکی ہوابھی نہیں لگی اورسارازوررپورٹنگ یعنی خبرسازی پرہوتاہے۔اس کے مقابل ادبی کتب نے اب بھی اردوکابھرم قائم رکھاہواہے اوران کے مطالعے سے تحریرمیں روانی شائستگی اورمقصدیت بھی پیداکی جاسکتی ہے اوراغلاط سے بھی محفوظ رہاجاسکتاہے۔آخری بات یہ کہ تحریرآہستہ تیارہونے والی ڈش ہے جلدبازی سے جس کامزہ کرکراہوجاتاہے۔

مرحوم مشفق خواجہ کے الفاظ میں سبک رفتارلکھاریوں کوہمارامشورہ ہے:مقدارکے بجائے معیارکومدنظررکھاکریں۔کم لکھیں مگراچھااوربامقصدلکھیں۔ٹیپوسلطان نے کہاتھا:شیرکی ایک دن کی زندگی گیدڑکی سوسالہ زندگی سے بہترہے بعینہ محنت شاقہ سے ہفتوں میں تیارہونے والی ایک اچھی اورمعیاری تحریر دنوں اورگھنٹوں میں وجودمیں آنے والی سیکڑوں تحریروں سے بہترہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے