اسلام آباد: سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ امور نے وزارت داخلہ اور خیبرپختونخوا حکومت کو نوبیل انعام یافتہ طالبہملالہ یوسف زئی پر ہونے والے حملے کے مقدمے میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے سابق ترجمان احسان اللہ احسان کو بطور ملزم شامل کرنے کی ہدایات جاری کردیں۔
قائمہ کمیٹی نے احسان اللہ احسان سے تفتیش کے لیے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کے قیام کی تجویز بھی دی کیونکہ وہ اس معاملے میں بنیادی معلومات سے واقف ہے۔
قائمہ کمیٹی برائے داخللہ کے چیئرمین رحمٰن ملک کی جانب سے وزارت داخلہ، خیبرپختونخوا حکومت اور انسپکٹر جنرل پولیس کے نام لکھے گئے خط میں کہا گیا کہ چونکہ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے ملالہ یوسف زئی پر ہونے والے حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی اور اس وقت احسان اللہ احسان اس کالعدم تنظیم کے ترجمان تھے، لہذا انھیں بھی شامل تفتیش کیا جانا چاہیئے۔
خط کے مطابق ملالہ پر حملے کی ذمہ داری طالبان نے قبول کی تھی اور اس کا اعلان اُس وقت کے ترجمان احسان اللہ احسان نے خود کیا تھا۔
خط میں یہ بھی کہا گیا کہ ’اب جبکہ احسان اللہ احسان فورسز کی تحویل میں ہے اور وہ پاکستان میں ہونے والی دہشت گرد کارروائیوں میں بھارت، افغانستان سمیت دیگر ممالک کے ملوث ہونے کی نشاندہی بھی کرچکا ہے، لہذا یہ ضروری ہے کہ ملالہ پر ہونے والے حملے کے محرکات کا پتہ لگایا جائے اور یہ دیکھا جائے کہ آیا اس حملے میں کوئی دوسرا ملک ملوث تھا یا نہیں۔
قائمہ کمیٹی کی ہدایات میں کہا گیا کہ ’مزید تحقیقات یقینی بنانے کے لیے احسان اللہ احسان کا نام ملالہ حملے کی ایف آئی آر میں شامل کیا جائے، حملے کی بنیادی معلومات کے لیے جے آئی ٹی کا قیام کیا جائے گا اور اس سے قبل ہونے والی تحقیقات، ایف آئی آر کی تفصیل، ملالہ، اس کے والدین، ساتھیوں اور دیگر گواہان کے بیانات کو کمیٹی کے سامنے پیش کیا جائے’۔
خیال رہے کہ ملالہ یوسف زئی 1998 میں پیدا ہوئیں اور انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم منگورا، سوات سے حاصل کی تھی جہاں کئی سال سے طالبان نے لڑکیوں کو اسکول جانے سے محروم کر رکھا تھا۔
تعلیم اور خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم ملالہ پر 9 اکتوبر 2012 میں حملہ کیا گیا اور انہیں سر اور گردن میں گولیاں ماری گئیں، ملالہ کو علاج کے لیے برطانیہ لے جایا گیا تھا اور اب وہ اپنے اہل خانہ کے ساتھ وہیں رہائش پذیر ہیں۔