” جوحکم اللہ کا ”

بوٹے سے قد کی وہ نازک دلہن اپنے چھ فٹ سے نکلتے قد والے شوہر کے ساتھ بہت بھلی لگتی تھی . سر پر دوپٹہ لیے، پلو کا کونا منہ میں دبائے بھاگ بھاگ کر اپنے ساس سسر کی خدمت بجا لاتی، چھوٹے دیوروں سے چھوٹے بھائیوں اور بیٹوں کی طرح پیار کرتی ،سب کے دلوں میں اپنا گھر خود بخود بناتی چلی گئی ۔شادی کو کچھ عرصہ گزرا تو شوہر اسے اپنے ساتھ لے گیا ،اسے روٹی پانی کی تنگی تھی . وہ اندرون سندھ میں ایک ہندو حلوائی کے ہاں ملازم تھا ، جو اپنی خاص الخاص مٹھائی "رام چند کا خالص کھویا "کے لیے مشہور تھا فاطمہ کا شوہر عبداللہ کھویا بنانے کا کاریگر تھا . فاطمہ کا سگھڑاپ اس کے ہنر کے ساتھ مل گیا تو کھویا تیار کرنے کا کام بھی فاطمہ کے نازک کندھوں پر آ پڑا . گھر بار کے بکھیڑے، نئے جی کا ساتھ اور منوں کھوئے کی روزانہ تیاری ، بہت سا وزن اٹھانا پڑتا تھا۔ اس حالت میں لاعلمی اور ناتجربہ کاری کی بدولت فاطمہ کا حمل گر گیا۔ دونوں میاں بیوی رو دھو کر قسمت کا لکھا سمجھ کر چپ ہو رہے۔ پردیس میں اپنا تھاہی کون . لے دے کے حلوائی لالاجی کھوئے والے نے فاطمہ کو اپنی بیٹی بنایا ہوا تھا جسے عید شبرات پر ایک روپیہ دیا کرتے . اچھے زمانے تھے سادہ لوگ تھے . اگر کبھی دماغ میں کوئی خیال سرسراتا بھی تو فاطمہ یہ سوچ کر جھٹک دیتی کہ لالا جی ہمارے بزرگ ہیں اب میں بیٹی ہو کر ان سے کھویا تیار کرنے کی محنت کا معاوضہ کیسے مانگوں . مٹھائی کا کام دلہن کے سنبھال لینے سے عبداللہ کو فراغت نصیب ہو گئی تو لالا جی نے اسے دکان کا مال دوسری دکانوں تک پہنچانے کا کام سنبھالنے پر لگا دیا . بیٹا بننے کی خوشی میں تابعدار عبداللہ نےبھی بخوشی یہ کام سنبھال لیا. دکان اور مارکیٹ کے دکانداروں میں اس کی ٹور بڑھ گئی . بس نہ بڑھا تو صرف معاوضہ نہ بڑھا . . اسی طرح چند مزید سال ،چند اور حمل کے ضائع ہونے کے ساتھ گزرے. پردیس میں ہونے اور ان کے حالات سے ناواقف ہونے کے باوجود اب عبداللہ کے گھر والوں میں اس کے آنگن کے سونا ہونے کی چہ میگوئیاں شروع ہو چکی تھیں. ابھی تو انہیں اوپر تلے کئی حمل ضائع ہونے کا علم نہ تھا ورنہ فاطمہ کی زندگی اجیرن ہو جاتی. دونوں میاں بیوی ایکدوسرے کے ساتھ خوش اور مگن تھے۔
.
اب فاطمہ بھی خاصی سمجھدار ہو چکی تھی ، کھوئے سے بھرا تھال خود ہی سر پر اٹھا کر لالا جی کی دکان تک پہنچا آتی . عبداللہ کام میں مصروف ہوتا ،اسے بھی دیکھ آتی اور پھر خیالوں میں مگ گھر لوٹ آتی۔

معاشی تنگی اب تک ان کی محبت کے رنگ نہ دھندلاسکی تھی. ہر بچے کےضائع ہونے کا غم انہیں ایک دوسرے سے مزید جوڑ دیتا عبداللہ سےاس کے ساتھی کبھی کبھی پوچھتے تو وہ آسمان کی طرف اشارہ کر کے ”جو حکم اللہ کا ”کہتا اور سرجھکا دیتا . اس بار اللہ نے پھر کرم کیا . اورعبداللہ نے فاطمہ کو ہاتھ کا چھالا بنا لیا . گھر کے کام کاج کے لیے ماچھی کی بہو سے بات کر لی.اور کھوئے کا کام خود سنبھال لیا . مکمل آرام، شوہر کی محبت اور دن رات کی دعاؤں کا ثمر ایک پیارے سے بیٹے کی صورت ملا.فاطمہ اور عبداللہ کی دنیامکمل ہو گئی۔. .

لالا جی نے بھی بچے کا نانا بن کے دکھایا ، نانی چھک کے طور پر جوڑے، مٹھائی اور بچے کو چاندی کا تعویذ ڈالا اور عبداللہ کی تنخواہ میں یک مشت ڈیڑھ روپے کا اضافہ کر دیا . عبداللہ فاطمہ اور عبدالرحمن کی تکون مکمل تھی، اور گھر کی معیشت کھوئے کے پیڑے کے گرد گھومتی رہی۔چند سال مزید گزرے .چند حمل اور گرے. اب فاطمہ کا روپ بھی سنولانے لگا تھا اور عبداللہ کے کندھوں پر نئے کاروبار کی مصروفیت بڑھ گئی تھی. کھوئے کا کاریگر تو تھا ہی لالا جی کی ناگہانی وفات کے بعد جب ان کے بچوں نے شہر جا کے رہنے کی ٹھانی تو اپنا کاروبار اونے پونے عبداللہ کے ہاتھ تھما گئے. قسمت نے ساتھ دیا ، ہنر ، ذائقےاور اپنے کاروبار کے لیے نئے جذبے اور فاطمہ کے ساتھ نے دن دوگنی ترقی دی، عبداللہ بھی اس ساری خوشحالی کا کریڈٹ فاطمہ کو دیتا.جسے وہ خوشدلی سے قبول کرتی اور اور مزید تندہی سے کھویا بنانے میں جت جاتی۔.

عبداللہ حلوائی دکان پر اپنی گدی پر بیٹھتا خود مٹھائیاں تول کر دیتا تمام گاہکوں سے نرمی سے بات کرتا . کبھی کبھار اس کے یار دوست اس سے مزید بچوں کے متعلق پوچھتے تو وہ حسب سابق آسمان کی طرف اشارہ کر کے” جو حکم اللہ کا” کہتا اور چپ ہو رہتا کسی کو دوسری بار کہنے کی ہمت نہ ہوتی.

چند ماہ سے عبداللہ کی ماں اس کے گھر آنے کے لیے آئی ہوئی تھی. اس دوران اس نے روایتی ساسوں کی طرح فاطمہ پر کڑی نظر بھی رکھی اور اپنے بیٹے کے کان بھی بھرے. عبداللہ تابعدار بیٹے کی طرح سن لیتا اور محبوب شوہر کی طرح رات کو بیوی کو بہلا بھی لیتا . چند دن تک ساس نے واپس چلے جانا تھا سو فاطمہ بھی دل میں گلہ نہ پالتی. .اسی دوران فاطمہ کا چھٹا حمل گرا . دور رہنے کی وجہ سے ساس بار بار کے حمل گرنے سے ناواقف تھی لیکن گاؤں کی تجربہ کار دائی جب فاطمہ کو سمیٹ سنبھال کر کمرے سے باہر آئی تو ساس سے افسوس کرنے لگی کہ بےچاری بہت حوصلے والی ہے ، اتنی دفعہ کے دکھ کے بعد بھی صبر سے کام لیتی ہے ساس کے کان کھڑے ہوگئے. ہر طرح سے مناسب بہو یکدم غیر مناسب لگنے لگی. اس رات لگنے والی عبداللہ کی کلاس بھی طویل تھی اور اس میں ڈسکس کیا جانے والا مسئلہ بھی حقیقی تھا . عبداللہ نے ماں کو بھی اللہ کا حکم کہہ کر ٹالنا چاہا تو ماں بانجھ عورت کے الزام کے ساتھ عبدالل کے لیے دوسری شادی کا حکم الہی لیے کھڑی تھی. آج کی رات فاطمہ کے لیے کڑی تھی . بچہ کھونے کا دکھ ، حکومت کھونے کا خوف بھی ساتھ لایا تھا. لیکن عبداللہ اپنی بات پر قائم رہا. ماں کو سمجھا بجھا کر خاموش کروایا اور کمرے میں آ یا توتھر تھر کانپتی فاطمہ کو اپنی بانہوں میں سمیٹ لیا . گویا بزبان خاموشی اسے اپنے ساتھ کا یقین دلا رہا ہو.

والدہ رخصت ہوئیں ، گھر کا نظام اپنے معمول کے مطابق چلنے لگا فاطمہ گھر اور بیٹے کے ساتھ مگن تھی عبداللہ کاروبار میں مصروف تھا . زندگی گزرتی رہی. عبدالرحمن کالج جا پہنچا اپنے والد کی طرح سوا چھ فٹ کا کڑیل جوان کالج کی ہر گیم میں آگے رہتا. ہاکی کا عمدہ کھلاڑی تھا . ورزش کا عادی، کسرتی بدن کا مالک ماں باپ اسے دیکھ دیکھ کر جیتے تھے۔

ایساطاقتور کہ بھاری سے بھاری بوری پشت پر اٹھاتا اور ماتھے پر شکن تک نہ آتی.اس کے مقابلے کا کوئی جوان علاقے میں دور دور تک نہ تھا . ماں باپ کو اکلوتے بیٹے کا سہرا دیکھنے کی خواہش تھی پس نوجوانی میں ہی ایک خوبصورت سی بہو بھی گھر آ گئی.
بہو کے آنے سے خوب رونق ہوگئی. عبداللہ کا گھر میں ٹکنا کم ہو تے ہوتے بالکل نہ ہونے کے برابررہ گیا۔اسے نئے دور کی بچی سے شرم آتی تھی. اسی لیے گھر بھی دیر سے آتا اور کبھی کبھار باہر بیٹھک میں ہی سو رہتا . فاطمہ بھی سمجھتی تھی، پچھلے چند سالوں سے وہ اپنا زیادہ وقت نماز اور قرآن میں صرف کرنے لگی تھی .اب اس میں مزید اضافہ کر دیا. . شوہر سے حج عمرے کی فرمائش بھی کر ڈالی.

عبداللہ جب بھی گھر آتا تابعدار بہو روٹی پانی پوچھتی سر پر ڈوپٹہ رکھتی . نئی نویلی دلہن کی چھب پردے میں سے جھلک جھلک جاتی کچھ دلہن تھی بھی کم عمر اور نٹ کھٹ. کھلکھلا کر ہنستی تو عبداللہ چونک چونک جاتا . اس نے کہاں ایسی آوازیں سنی تھیں. .اسے اپنی شادی کے ابتدائی دن یاد آنے لگے. جوان فاطمہ یاد آتی لیکن ساتھ ہی کھوئے کے پیڑے کے ارد گرد گھومتی زندگی میں نئے سہانے دن غائب سے ہو جاتے . عبداللہ سوچوں میں گم ہو جاتا . فاطمہ اسے پکارتی اجی سنتے ہو . تو وہ گویا کسی سہانے خواب سے جاگتا. جہاں جوان عبداللہ اور فاطمہ ہوتے تھے. لیکن آنکھ کھلتے ہی سفید دوپٹے میں سفید بال سمیٹے ایک بوڑھی عورت نظر پڑتی جو فاطمہ کا سایہ محسوس ہوتی.

بہو اور بیوی کے اس تقابل نے عبداللہ کو گھر سے دور کر دیا. وقت ضائع ہو جانے کا دکھ سرد آہ کی صورت عبداللہ کے سینے سے نکلتا اور ہوا میں تحلیل ہو جاتا. پے درپے ضائع ہونے والےہر بچے نے ان گزرتے سالوں میں فاطمہ کو نچوڑ ڈالا تھا ۔ ضائع ہونے والا بچہ عورت کے جسم کا حصہ ہوتا ہے مرد کی کاٹھی قائم رہتی ہے .عبداللہ بھی پچپن سال جسم میں پچیس سال دل لیے بیس سالہ خواہش سے بچتا پھر رہا تھا .. لیکن تابہ کے .

گھر کے کمرے سے بیٹھک اور بیٹھک سے دکان تک محدود ہوتے ہوتے اس نے آخر کار ایک بیس سالہ بیوی تلاش کر ہی لی. فاطمہ اپنا وقت گزار چکی تھی .اب عبداللہ کا وقت تھا زندگی دوبارہ نہیں ملتی. اور اب تو فاطمہ کے بنائے پیڑوں کی بھی ضرورت باقی نہ تھی۔ عبداللہ نے اک نیا جہان دریافت کرکے اس میں جینا شروع کر دیا۔

ابھی عبدالرحمن کی شادی کوایک سال بھی نہ گزرا تھا کہ بہو بیگم ناراض ہو کر میکے گئیں اور پھر طلاق ہی منگوالی. ان ساری الجھنوں میں عبداللہ کا اپنے گھر میں آنا جانا صفر فیصد تھا۔ جسے محسوس کرکے فاطمہ نے عبدالرحمن سے پوچھا کہ تمہارے ابو کدھر رہتے ہیں اب گھر بھی کم ہی آتے ہیں . اب تو بہو بھی نہیں تو گھر آنے میں شرم کیسی؟.

پتا چلا کہ عبداللہ بہو کی عمر کی ایک نئی نویلی بیوی کے ساتھ نیا گھر بسا چکا ہے۔ جواز یہ تھا کہ مجھے اور اولاد چاہیے.اور بہانہ یہ تھا کہ مجھے بہو سے شرم آتی تھی. یا شاید فاطمہ بوڑھی ہو چکی تھی. . غیور فاطمہ نے اپنے بیٹے سے وعدہ لیا کہ اب ہم دونوں اپنی زندگی گزاریں گے.. ان سفید بالوں کے ساتھ میں سوکن سے تذلیل نہیں کروانا چاہتی. فاطمہ نے عبداللہ کو خاموشی کی مار دی. اس سے بات چیت چھوڑ دی. خرچہ پانی بھی نہ لیا . دنیا بات کرتی تو اب فاطمہ آسمان کی طرف اشارہ کر کے کہتی ” جو حکم اللہ کا”. عبداللہ بھی دوسری شادی کا راز کھلنے اور اس پہ کوئی ردعمل نہ آنے کے بعد شیر ہو گیا تھا. اس نے بھی کچھ خاص پروا نہ کی ،آدھی عمر کی خوبصورت بیوی جو امید سے بھی ہو ، بھلا کچھ یاد آنے بھی کب دیتی ہے. سو اس نے بھی اپنے نئے جہان میں گم کر باقی سب کچھ فراموش کر دیا. فاطمہ اور عبدالرحمن نے اپنی دنیا بسا لی.ایک اچھی سی گھریلو لڑکی دیکھ کر عبدالرحمن کی شادی کر دی. بانو بھی اپنے والدین کی اکلوتی بیٹی تھی جس کی والدہ کینسر سے وفات پا چکی تھی اور بیٹی کا فرض ادا کرتے ہی اس کے والد نے بھی دوسری شادی کر لی .اب بانو کے لیے عبدالرحمن ہی سب کچھ تھا .گویا ؎
یہی رشتہ ہمیں جوڑے ہوئے ہے
کہ دونوں کا کوئی اپنا نہیں ہے

بانو معصوم سی بڑبولی اور بھولی لڑکی تھی جس کی بےوقوفیوں سے فاطمہ عاجز تو آجاتی لیکن انہی بےوقوفیوں کی وجہ سے بانو اس گھر میں بآسانی بس بھی گئی. فاطمہ نے ایک دفعہ عبدالرحمن کو اپنی محنتوں اور شوہر کی تنگدستی میں اس کا ساتھ دینے کی طوی داستان سنائی اور اس کے بعد چپ سادھ لی جب جب عبداللہ کے ہاں اولاد آتی. فاطمہ کی خاموشی مزید گہری ہو جاتی رب سے راز و نیاز مزید طویل ہو جاتے. اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ عبدالرحمن کو اللہ نے کثیرالاولاد کیا دونوں میاں بیوی اپنے اکلوتے پن کے ڈسے ہوئےاور رشتوں سے محروم لوگ تھے ۔ پس دونوں نے ہر آنے والی روح کی خوب پذیرائی کی . فاطمہ کو اپنی اولاد کی کمی کا غم بھول گیا. اس کا گھر بھر گیا تھا ،وہ اب اپنے پوتے پوتیوں سے لاڈ کرتی ،بانو کو جھڑکتی نمازیں پڑھتی ،وظیفے کرتی ،دعائیں مانگتی، وقت سیانے طور پر گزار رہی تھی کہ فالج کے حملے نے فاطمہ کو بستر کا کر دیا ، اس کے جانثار پوتے اس کی خدمت میں پیش پیش رہے.چند روز کی علالت کے بعد فاطمہ اپنے آخری سفر پر چل دی. افسوس کرنے والوں نے عبدالرحمن کو پھوٹ پھوٹ کر روتے دیکھا. اس کی ماں اس کی ساری زندگی کا ساتھ تھی گویا اس کی جڑ آج کٹ گئی تھی ۔ تعزیت کے لیے آنے والےجب تسلی دیتےتو عبدالرحمن سر آسمان کی طرف اٹھاتااور شہادت کی انگلی سے اشارہ کر کے ہچکیوں میں کہتا:۔”جو حکم اللہ کا ”

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے