پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز کی سفارشات کو سینیٹ میں بطور قرارداد لانے پر مسلم لیگ ن ،پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کا اتقاق

سینیٹ میں قائد ایوان سینیٹر راجہ ظفر الحق نے کہا ہے کہ پاکستان میں انتہا پسندی کے خلاف پالیسی سازی میں ماہرین اور دانش وروں کو شامل کرتے ہوئے سینیٹ میں” کمیٹی آف دی ہول “ کا اجلاس بلایا جائے گا جس میں ان کی مشاورت لی جائے گی ۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس سٹڈیز کے زیر اہتمام” محفوظ اور ہم آہنگ پاکستان “کے موضوع پر ایک قومی سمینار میں کیا ۔

سمینار سے وزیر اعظم کے مشیر بیرسٹر ظفراللہ خان ،سینیٹر فرحت اللہ بابر ، سینیٹر جہانزیب جمالدینی ،سابق سینیٹر افراسیاب خٹک ، اسلامی نظریاتی کونسل کے سابق چیئرمین ڈاکٹر خالد مسعود ، لوک ورثہ کی ڈائریکٹر فوزیہ سعید، ڈاکٹر سید جعفر احمد ، غازی صلاح الدین ، سلیم صافی ، نیکٹا کے بانی نیشنل کو آرڈینیٹر طارق پرویز، پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس سٹڈیز کے ڈائریکٹر محمد عامر رانااور ایم ضیا الدین شامل تھے ۔

سینیٹر راجہ ظفر الحق نے کہا کہ افغانستان ہمارا برادر اسلامی ملک ہے جس کا احساس ہونا چاہیے۔ اسی طرح جب ہم پر اقتصادی پابندیاں لگیں تو ایران نے کہا کہ گھبرائیں مت جو کچھ آپ کو چاہئے ہم زمینی راستے سے دیں گے ۔

سینیٹر راجہ ظفر الحق نے کہا کہ حالیہ دورہ افغانستان میں عبداللہ عبداللہ نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان جڑواں بھائی ہیں اگر ایک کو درد ہو گا تو دوسرا بھی محسوس کرتا ہے ۔

پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز کے ڈائریکٹر محمد عامر سینٹ میں قائد ایوان راجا ظفر الحق کو محفوظ اور ہم آہنگ پاکستان سے متعلق مشاورتی اجلاسوں کی رپورٹ دے رہے ہیں ۔ سینٹر افرسیاب خٹک اور وزیر اعظم کے مشیر بیرسٹر ظفر اللہ خان بھی موجود ہیں ۔

وزیر اعظم کے مشیر بیرسٹر ظفراللہ خان نے کہا کہ قوم میں برداشت کو فروغ دینا ہو گا اگر ہم نے ایک دوسرے کو برداشت نہ کیا تو پھر کسی تیسرے کو کرنا پڑے گا۔

سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ قوم کا فکری ڈھانچہ آزادی اظہار رائے سے مشروط ہے مگر اس کو قومی سلامتی کے نام پر ضبط کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اگر فاٹا اصلاحات کا موقع ضائع کر دیا گیا تومتبادل بیانیہ کا سوال کیسے پیدا ہو گا ؟

انہوں نے کہا کہ ہم نے پوری ایک نسل جہاد فی سبیل اللہ پر تیار کی ہے اور اب جو بیانیہ چل رہا ہے وہ یہی ہے ۔انہوں نے کہا کہ مولانا مسعود اظہر کی تنظیم کالعدم ہے مگر جب ان پر پابندی کی قرارداد سلامتی کونسل میں آئی تو کون تھا جو چین سے ویٹو کی درخواست کرنے گیا تھا ؟

سینیٹر جہانزیب جمال الدینی نے کہا کہ ہمارے نظام میں انتہا پسندوں کے بارے میں ”سافٹ کارنر “موجود ہیں ہم یہ تو کہتے ہیں کہ بھارت سیکولر رہے مگر اپنے ملک میں سیکولرازم کے خلاف ہیں ۔

سابق سینیٹر افراسیاب خٹک نے کہا کہ فاٹا میں طالبان کے دفاتر دوبارہ کھل رہے ہیں ۔ مشرق ِ وسطی ٰ میں داعش کمزور ہو رہی ہے مگر یہاں مضبوط ہورہی ہے۔

ڈاکٹر فوزیہ سعید نے کہا کہ نوروز اور بیساکھی کے تہوار منانے سے معاشرے میں تکثیریت کو فروغ ملتا ہے جس سے انتہا پسندی کے خلاف بیانئے کو طاقت ملتی ہے ۔

ڈاکٹر خالد مسعود نے کہا کہ 1973کا آئین محفوظ اور ہم آہنگ پاکستان کی دستاویز ثابت ہو سکتی ہے اس لئے اس پر عمل در آمد کیا جائے ۔

سابق ڈی جی نیکٹا طارق پرویز نے کہا کہ ہماری انسداد دہشت گردی کی پالیسی فوج کے ارد گرد گھومتی ہے، جب تک سول حکومت اس کی ذمہ داری نہیں لے گی اور اداروں کو اس قابل نہیں بنائے گی کہ وہ قائدانہ کردار ادا کر سکیں،،، دہشت گردی کے مسئلے کا مستقل حل نہیں ہو گا ۔

غازی صلاح الدین نے کہا کہ حکمران اشرافیہ کو صورتحال کی خرابی کا درست ادراک نہیں ہے ، ہمارے ہاں اخلاقی و فکری زوال ہے جب تک قوم کا فکری ڈھانچہ استوار نہیں ہو گا، ترقیاتی ڈھانچہ استوار نہیں ہو سکتا۔ اس مقصد کے لئے یونیورسٹیوں ، تھیٹر ز، لائبریریوں اور ثقافتی اداروں کو متحرک ہونا پڑے گا ۔

سلیم صافی نے کہا کہ جب تک پاکستان کے جغرافیائی مسائل حل نہیں ہو ں گے یہاں پر انتہا پسندی کا مسئلہ طے نہیں ہو گا ۔

ڈاکٹر سید جعفر احمد نے کہا کہ رد انتہا پسندی کی ضرورت صرف معاشرے کو نہیں بلکہ ریاستی اداروں کو بھی ہے کیونکہ وہی بگاڑ کے ذمہ دار ہیں ، متبادل فکر کے لئے سرسید احمد خان کی ترقی پسند سوچ کو ابھارا جائے ۔

ایم ضیا الدین نے کہا کہ ہمیں متبادل بیانئے یا فوجی ایکشن کی بجائے ”گڈ گورننس “ کی ضرورت ہے ۔عسکریت پسندوں کو غربت ، جہالت اور نا انصافی سے مدد مل رہی ہے ۔

محمد عامر رانا نے خطبہ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے کہاپارلیمنٹ متبادل بیانئے کی تشکیل میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے پارلیمنٹ سیکورٹی ، تعلیمی اور ثقافتی پالیسی بنائے ۔انہوں نے کہا کہ اگر پارلیمنٹ اپنا کردار ادا نہیں کرے گی تو پھر یہ خلا وہ ادارے پر کریں گے جن کے پا س طاقت ہے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے