دشمن مرے تے خوشی نہ کریے

داعش پاکستان میں ہے یا نہیں، یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے، حکومت بارہا تردید کرتی ہے جبکہ انتظامیہ جا بجا شواہد پیش کرتی نظر آتی ہے، مگر اس حقیقت سے بہرحال انکار ممکن نہیں کہ انتہا پسندی کا زہر نوجوان نسل کو تیزی سے اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے، سماجی رویوں میں واضح تبدیلی آئی ہے۔ یہ معاملہ ایسا نہیں جس پر سیاست کی جائے، اس معاملے کو کسی پر چھوڑ کر نہیں بیٹھا جا سکتا، مجھ اور آپ سمیت پورے معاشرے کی ہر اکائی کو اسکے خلاف کھڑے ہونا لازم ہے۔ ہماری صورتحال یہ ہے کہ مسئلے کا توڑ کرنا تو دور کی بات ابھی تک مسئلے کی سنگینی کا احساس تک نہیں کیا گیا۔ فوج کی جانب سے طلبا اور ماہرین تعلیم کا سیمیناراس سلسلے کی پہلی موثر کوشش ہے۔ پاکستان کے مستقبل کو انتہا پسندی کے زہر سے بچانے کیلئے یہ کوشش قابل تحسین و تقلید ہے۔ اگرچہ یہ فوج کا کام نہیں، آرمی چیف کا یہ کہنا حق بجانب ہے کہ سارے کام فوج نہیں کر سکتی، پورے معاشرے کو آگے بڑھنا ہو گا۔ ایک اور سوال بھی نہایت اہم ہے کہ انتہا پسندی کے پھیلائو کو فوری طور پر سوشل میڈیا سے جوڑ دیا جاتا ہے، مگر کیا یہ معاملہ صرف سوشل میڈیا تک محدود ہے؟

یہ درست ہے کہ سوشل میڈیا پر انتہا پسندانہ سوچ تیزی سے پھیل رہی ہے، یہ مسئلہ صرف پاکستان کا نہیں بلکہ پوری دنیا کیلئے لمحہ فکریہ بنا ہوا ہے۔ دنیا کے بیشتر ممالک اس سلسلے میں قانون سازی اور تدارک کیلئے مناسب اقدامات اٹھا چکے ہیں مگر پاکستان کا معاملہ مختلف ہے۔ ہمارے ملک میں اس مسئلے کی سنگینی نوعیت کو ابھی پوری طرح محسوس ہی نہیں کیا گیا، انتہاپسندانہ سوچ نوجوان نسل میں پھیلنے کا مطلب براہ راست مستقبل کی تباہی ہے۔ بلاشبہ فوج کی کوشش ہماری آنکھیں کھولنے کیلئے کافی ہونی چاہیئے، یہ بھی درست ہے کہ یہ فوج کا نہیں بلکہ محکمہ تعلیم کا کام ہے کہ تعلیمی اداروں میں موجود طلبا کو اس زہر سے بچائے۔ فوج کی جانب سے اس کوشش کے بعد وفاق اور صوبوں کو اپنا فرض پورا کرنے کیلئے آگے بڑھنا چاہیئے۔ ملک دہشتگردی کے خلاف جنگ کر سکتے ہیں، نظر آنیوالے دشمن کو نشانہ بنا سکتے ہیں یا کم از کم نشاندہی کر سکتے ہیں مگر سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلنے والے زہر کو گولی اور فوج سے نہیں مارا جا سکتا۔ آرمی چیف جنرل قمر باجوہ نے نشاندہی کی کہ ملک کی 50 فیصد آبادی 25 برس سے کم عمر نوجوانوں پر مشتمل ہے، اگر اپنے نوجوانوں کو اس زہر سے بچانے میں ناکام ہوتے ہیں تو دس سال بعد ایسی کثیر تعداد کا سامنا کرنا پڑیگا جو انتہاپسندی کا حصہ ہونگے۔ گویا پاکستان کا مستقبل دائوں پر لگا ہوا ہے، اگر نئی نسل کو انتہاپسندی سے نہیں بچایا گیا تو نوشتہ دیوار ہمارے سامنے ہے۔ اس مسئلے پر قابو پانا فوج کی ذمہ داری نہیں بلکہ اسکے بس کی بات بھی نہیں، فوج دہشگردی کے خلاف لڑ سکتی ہے، دشمن کو نیست و نابود کر سکتی ہے مگر کسی معاشرے کی تشکیل و تبدل کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ نوجوان نسل کو زہر سے بچانے کیلئے والدین، استاد، تعلیمی اداروں، مذہبی اور سیاسی قیادت سمیت سب کو آگے بڑھنا پڑے گا یہ کوئی رسمی جملہ نہیں بلکہ واقعی اگر ایسا نہ ہوا تو انجام بھیانک ہونے میں کوئی شک نہیں ہے۔

مدارس سے دہشتگردوں کو سپاہی ملا کرتے تھے مگر اب اعلیٰ تعلیم یافتہ اداروں سے ماسٹر مائنڈ ملتے ہیں۔ حقائق کو جھٹلانا، آنکھیں موند لینا ہماری فطرت کا حصہ ہے۔ پڑوسی کے گھر میں لگی آگ کی پرواہ نہ کی جائے تو یہ آگ آپ کے گھر کو بھی بھسم کر ڈالے گی۔ پہلے پہل مدرسوں کی تعلیم کا ذمہ دار ٹہرا کر انتہاپسندانہ مسائل سے جان چھڑا لی جاتی تھی مگر یہ مسئلہ اب مدرسوں تک محدود نہیں۔ مردان یونیورسٹی میں مشعال خان کو مارنے والے ٹوپی پہنے مدرسے کے بچے نہیں تھے، حیدرآباد کی نورین لغاری کسی مدرسے میں نہیں پڑھتی تھی۔ سانحہ صفورا کے ملزمان سعد عزیز اور یاسر کسی مدرسے کی نہیں بلکہ یونیورسٹیز کے اعلیٰ تعلیمیافتہ نوجوان نکلے۔ تو اب یہ ماننے میں تو کوئی حرج نہیں ہے کہ مدرسوں کے بعد اب نوبت اعلیٰ تعلیمی اداروں تک پہنچ چکی ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا یہ زہر صرف سوشل میڈیا کے ذریعے پھیل رہا ہے، ایسا ہرگز نہیں ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان کی 20 کروڑ آبادی میں سے صرف 3 کروڑ افراد انٹرنیٹ تک رسائی رکھتے ہیں۔ ڈیڑھ فیصد میں سے یقنینی طور پر ویب سائٹس، فیس بک، واٹس اپ اور دیگر ذرائع تک رسائی مزید کم ہو گی، تو کیا صرف سوشل میڈیا کو ذمہ دار قرار دیکر جان چھڑائی جا سکتی ہے؟ اب ذرا دیگر ذرائع پر غور کر لیں، ٹی وی پروگرام ہو یا خطبہ، محافل، کتب و رسائل کے علاوہ بیشمار میڈیمز کو عرصہ دراز سے اس مذموم مقصد کیلئے استعمال کیا جا رہا ہے۔ سوشل میڈیا تو صرف تین ارب نفوس تک پہنچ سکتا ہے مگر جن دیگر ذرائع کا ذکر کیا جا رہا ہے انکی پہنچ 15 سے 18 کروڑ تک بنتی ہے۔ یہ سلسلہ گلی اور محلے میں جاری ہے، پورا معاشرہ بالواسطہ یا بلاواسطہ اس کا شکار ہے تو اسکو روکنے کیلئے کوشش بھی خاندان، گلی اور محلے میں کرنی ہو گی۔ منافقانہ بیانات اور رسمی اقدامات نے نہ پہلے کبھی کوئی نتائج دیئے ہیں نہ اب دینگے۔

مجھے اپنی جہالت کا اعتراف ہے مگر یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ دین اسلام کا تعلق انتہاپسندی سے کس طرح ہو سکتا ہے، ہوش سنبھالنے سے اب تک دین کو اعتدال پر پایا، قران و سنت، احادیث، فقہ، تاریخ کھنگال کر دیکھ لیں اسلام دین فطرت، اعتدال، حسن سلوک اور روادری کا درس نظر آئیگا۔ کیا بات ہے کہ ہر ایک اعتدال کی بات تو کرتا ہے مگر انتہاپسندی کو رد کرنے میں بہت سارے اگر، مگر آ جاتے ہیں۔ بہرحال گزشتہ دو یا تین دہائیوں کے دوران سماجی رویوں میں جو تبدیلی آئی ہے اس سے آبکھیں چرانا ممکن نہیں ہے۔ فرقہ واریت اور انتہاپسندی معاشرے میں اس بری طرح سرایت کر چکی ہے کہ اسکا تدارک آسان نہیں ہو گا۔ مذہبی قیادت نجانے کیوں ایسے سنگین مرحلے پر اصلاحی کردار ادا کرنے سے قاصر نظر آتی ہے، انتہاپسندی کا تدارک کرنے میں سب سے بڑی ذمہ داری مذہبی اور دینی قیادت پر ہی عائد ہوتی ہے۔ افغان جنگ ہماری تھی یا امریکہ کی اسکا تعین تو اب تک نہ ہو سکا مگر نوجوان نسل کو بچانا ہماری ذمہ داری ہے کہ نہیں، اس سوال کا جواب پوری قوم پر واجب ہے۔ پارلیمنٹ، عدلیہ، فوج، میڈیا سمیت سماجی اداروں منافقت آمیز رویہ چھوڑ کر دوٹوک موقف اختیار کرنا ہو گا۔ یہ تبدیلی نہ ایک روز میں آئی نہ دور ہو گی، اجتماعی ذھنی تبدیلی کیلئے پورے معاشرے کو آنیوالے عظیم طوفان کا احساس دلائے بغیر مسئلے حل ممکن نہیں ہے۔ انتہا پسندی آگ ہے اور آگ کی صفت جلانا ہے، اگر اس آگ کو روکا نہ گیا تو صرف پڑوسی نہیں ہمارے گھر بھی زد میں آئینگے کیونکہ آگ مخالفین اور حامیوں کے درمیان فرق کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ کالم کا اختتام صوفی شاعر میاں محمد بخش کے اس مصرعے پر

دشمن مرے تے خوشی نہ کریئے سجناں وی مر جاناں

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے