میکیاولی کی نئی کتاب ’’دی خان‘‘

تازہ ترین خبر یہ ہے کہ میکیاولی کی ”دی پرنس‘‘ متروک ہو گئی ہے اور اب اس کی جگہ شہرت ہے ”دی خان‘‘ کی۔ دنیا بھر کے اہل سیاست خوش ہیں کہ ان کی سیاست کو عیارانہ رنگ دینے والے میکیاولی کو بالآخر عقل آ گئی ہے اور اب اس نے ایک نئی معرکہ آرا کتاب ”دی خان‘‘ لکھی ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ میکیاولی نے نئی کتاب ”دی خان‘‘ میں چانکیہ سیاست اور عیاّرانہ دائو پیچ کے نظریے سے مکمل ”یوٹرن‘‘ لیتے ہوئے ”خانانہ سیاست‘‘ کو اپنانے کا درس دیا ہے۔ میکیاولی نے کھلے دل سے اعتراف کیا ہے کہ اس نے آج سے ٹھیک 504 سال پہلے فلورنس اٹلی میں کامیاب سیاست اور بہتر طرزِ حکمرانی کے لیے جو اُصول ”دی پرنس‘‘ میں طے کئے تھے‘ وہ آج کے پاکستان میں ”خانانہ سیاست‘‘ نے غلط ثابت کر دیئے ہیں۔ نکولو میکیاولی نے اخلاقی جرأت سے کام لیتے ہوئے ماضی کے نظریات سے تائب ہونے کا اعلان کیا ہے اور ساتھ ہی ”دی پرنس‘‘ کے مندرجات سے مکمل لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے‘ اس نے اپنے دیباچے میں تحریر کیا ہے کہ 500 سال پہلے حالات اور تھے‘ اب حالات اور ہیں۔ پاکستان کا ذکر کرتے ہوئے اس نے لکھا ہے کہ ”خانانہ سیاست‘‘ نے سیاست کے پرانے گُر ناکام بنا دیئے ہیں پہلے عیاری ضروری تھی۔ خان نے ثابت کیا ہے کہ اصل چیز سادگی ہے‘ چالاک لومڑی کی سیاست کے مقابلے میں شیر کی بہادری تک کام نہیں آتی بلکہ شاہین اور عقاب جیسی تیزی اور انصاف ٹائیگر جیسی پھرتی اور ورزش کی ضرورت ہوتی ہے۔

میکیاولی کی کتاب ”دی خان‘‘ پر فرانسیسی جریدے ”لی ماند‘‘ میں تبصرہ کرتے ہوئے موسیو چارلس ڈیگال نے لکھا ہے کہ فرانسیسیوں کو سولہویں صدی ہی سے یہ یقین تھا کہ نکولو میکیاولی بھی دوسرے اطالویوں کی طرح بدنیّت ہے‘ اطالوی ہر کسی کو اپنے اخلاقی اصولوں سے مبرا دلائل سے زہر آلود کر ڈالتے ہیں۔ موسیو ڈیگال نے لکھا ہے کہ ”دی خان‘‘ دراصل سیاست میں اخلاق کی جیت کا مظہر ہے۔ دھرنے کی سیاست میں مستقل مزاجی ہو یا پھر سپریم کورٹ میں پاناما کیس کے لیے بھاگ دوڑ۔ یہ سب دراصل ”خانانہ سیاست‘‘ کا نقطہ عروج ہے۔ موسیو ڈیگال نے لکھا ہے کہ مسولینی گو اٹلی کا فاشسٹ حکمران تھا مگر اس نے ”دی پرنس‘‘ کے دیباچے میں لکھ دیا تھا کہ میکیاولی کا انسانیت پر ایمان کمزور تھا اس لیے اس نے اخلاقیات کو پس پشت ڈالتے ہوئے طاقت اور چالاکی کو اقتدار کا محور و مرکز قرار دیا۔

حال ہی میں ”خان‘‘ کے نظریاتی جیالوں نے ایک نئے میگزین ”انصافین‘‘ کا اجراء کیا ہے جس کے سرورق پر خان کی رنگین تصویر کے ساتھ ساتھ ”نئے پاکستان‘‘ کے اہم اصول تحریر کئے گئے ہیں۔ انصافین نے دو صفحے کا ایک تقابلی چارٹ بھی شائع کیا ہے‘ جس میں میکیاولی کی دونوں کتابوں ”دی پرنس‘‘ اور ”دی خان‘‘ کے نظریات میں فرق ظاہر کیا گیا ہے۔ ”دی پرنس‘‘ میں کہا گیا تھا‘ ایک کامیاب پرنس کو یہ رہنما اصول یاد رکھنا چاہیے کہ ”وہ اگر رعایا کے والدین کو قتل کر دے گا تو لوگ اس کو باآسانی بھول جائیں گے لیکن اگر رعایا کی زمینیں چھین لی جائیں گی‘ تو وہ اسے کبھی بھول نہیں پائیں گے‘‘ جبکہ ”دی خان‘‘ میں کہا گیا ہے کہ عوام کو جس نعرے کے پیچھے چاہو لگا دو پھر اسے بار بار دہرائو تو وہ عوام کا نعرہ بن جاتا ہے اور وہ پھر اسے کبھی بھی نہیںبھولتے۔ ”دی خان‘‘ میں اعتراف کیا گیا ہے کہ خان نے کرپشن کے نعرے سے میاں کو اخلاقی زوال میں مبتلا کر کے ثابت کر دیا ہے کہ ”دی پرنس‘‘ متروک ہو چکی اور اب ”دی خان‘‘ کا زور ہے۔

میکیاولی نے ”دی خان‘‘ میں لکھا ہے کہ ”دی پرنس‘‘ میں اس کا یہ قول خانانہ سیاست نے غلط ثابت کر دیا ہے کہ ”پارلیمنٹ اور جمہوریت سطحی قسم کے احمقانہ ادارے ہیں جو کبھی کسی فیصلے تک نہیں پہنچ پاتے‘‘ میکیاولی کا کہنا ہے کہ ”خانانہ سیاست‘‘ ایک سچی سیاست ہے اس لیے اگر یہ کہا جائے کہ جمہوریت ایک ڈھونگ ہے تب بھی لوگ تالیاں بجاتے ہیں اور اگر کہا جائے کہ جمہوریت ضروری ہے تو پھر بھی تالیاں بجتی ہیں۔ اسی طرح اگر پارلیمنٹ سے استعفے دیئے جائیں تو تب بھی وہ فیصلہ درست ہوتا ہے اور اگر پارلیمان میں واپس جایا جائے اور ‘کوئی شرم ہوتی ہے کوئی حیا ہوتی ہے‘ کہا جائے تب بھی وہ درست فیصلہ ہوتا ہے۔ یوٹرن لینے سے سیاست میں قد چھوٹا نہیں ہوتا بلکہ پہلے سے بلند ہو جاتا ہے۔ میکیاولی نے ”دی خان‘‘ میں دھرنے کی مثال دیتے ہوئے کہا ہے کہ ”دی پرنس‘‘ کو عسکری خانوں سے اچھے تعلقات رکھنے چاہئیں۔

اندر کی بات یہ ہے‘ دھرنا سیاست کی کامیابی کا پہلے ہی دن سے کامیابی کا تاثر اس لیے قائم ہو گیا تھا کہ 5 سینئر ترین عسکری خان ”سٹیٹس کو‘‘ توڑ کر پاکستان میں احتساب کا ایک نیا سلسلہ شروع کرنا چاہتے تھے مگر بڑا عسکری خان آن بورڈ نہ تھا۔ میکیاولی ”دی خان‘‘ میں لکھتے ہیں کہ جس طرح سے خان نے تقریریں کیں جس طرح سے اپنا مقدمہ لڑا‘ اسٹیج پر کھڑے کھڑے حکمران کی کرپشن ثابت کر دی‘ خالی کاغذ لہرا لہرا کر نت نئے سکینڈل ثابت کر دیئے‘ دراصل دھرنے نے ہی حکمران کی اخلاقی ساکھ کو شدید نقصان پہنچا دیا تھا۔ میکیاولی نے ”دی خان‘‘ میں دھرنا سیاست پر ایک پورا باب تحریر کیا ہے جس میں دھرنے کے اصول و ضوابط‘ کامیابی کے مختلف گُر‘ وزیر اعظم ہائوس پر حملے کے تیر بہدف نسخے اور پی ٹی وی پر قبضے کا باقاعدہ رنگین تصویری سکیچ کے ساتھ منصوبہ شائع کیا گیا ہے۔

”دی پرنس‘‘ سولہویں صدی میں شائع ہوئی تھی‘ اس میں لکھا گیا تھا کہ ”پرنس کو عوام سے محبت کرنی چاہیے مگر اس سے زیادہ ضروری ہے کہ عوام پر اس کا رعب اور دبدبہ قائم رہے‘‘۔ میکیاولی نے لکھا تھا کہ ”عوام کو یہ اختیار ہونا چاہیے کہ وہ پرنس سے محبت کریں مگر لوگوں پر پرنس کا رعب ضرور قائم رہنا چاہیے اور رعب کب اور کیسے قائم کرنا ہے اس کا اختیار بھی صرف اور صرف پرنس کے پاس ہی ہونا چاہیے‘ پرنس کو کوشش کرنی چاہیے کہ وہ کوئی ایسا اقدام نہ کرے کہ لوگوں کی نفرت کا ہدف بن جائے‘‘۔ میکیاولی کی نئی کتاب ”دی خان‘‘ میں لکھا ہے کہ ”عوام خان سے ہر صورت میں محبت کرتے ہیں وہ ان پر رعب ڈالے یا ان سے پیار کرے دونوں صورتوں میں پیار ہی پیار ہے۔ مرد ہوں یا عورتیں خان پر صدقے واری ہیں‘ نفرت والا معاملہ تو یہاں ہے ہی نہیں‘‘۔

میکیاولی نے سولہویں صدی میں دی پرنس میں یہ خیال ظاہر کیا تھا کہ ”عوام کی اصلی خود مختاری دراصل ایک المناک مذاق ہے اسے سنجیدہ نہیں لینا چاہیے‘‘۔ میکیاولی نے حال ہی میں شائع ہونے والی کتاب ”دی خان‘‘ میں مکمل ”یوٹرن‘‘ لیتے ہوئے لکھا ہے ”عوام کی خود مختاری دراصل ایک سنجیدہ معاملہ ہے حکمران نے اسے مذاق بنا رکھا ہے‘ جو غلط ہے‘‘۔

میکیاولی نے ”دی خان‘‘ میں یہ پیشین گوئی کی ہے کہ مستقبل میں عدالت خان‘ حکمران اور خان دونوں کے لیے خطرہ ہو گا اس لیے دونوں کو اس سے محتاط رہنا چاہیے اس نے مشورہ دیا کہ عدالت خان‘ عسکری خان اور اصلی خان کو اکٹھے بیٹھ کر مستقبل کا نقشہ طے کرنا چاہیے وگرنہ عدالت خان‘ حکمران کو آئوٹ کرتے کرتے مساوات کی خاطر کہیں خان کو بھی ہدف نہ بنا لے اور یوں خان کے حکمران بننے میں مسئلہ پیدا نہ ہو جائے۔ میکیاولی نے تجویز کیا ہے کہ خانانہ سیاست میں 70 سال کی عمر کے بعد حکمران بننا مشکل ہو جائے گا‘ اس لیے فوراً کوئی نیا دھرنا یا احتجاجی تحریک ڈیزائن کی جائے تاکہ وہ وقت جلد از جلد آئے جس کے ذریعے خانانہ طرز حکمرانی رائج ہو۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے