لیپ ٹاپ پہ یو ٹیوب ویڈیو چل رہی تھی اور میری پانچ سالہ بیٹی “بڑا دشمن بنا پھرتا ہے جو بچوں سے لڑتا ہے” پر ایک اسکول کے بچوں کا ٹیبلو دیکھ رہی تھی۔ ٹیبلو کے دوران ایک ٹیچر نےاردو اور ہندی میں کچھ بات چیت شروع کی تو مجھے احساس ہوا کہ یہ پاکستان نہیں بلکہ بھارت کے کسی اسکول کی ویڈیوہے۔ ایک مختصر بات چیت کے بعد “ مجھے دشمن کے بچوں کو پڑھانا ہے” پر ٹیبلو دوبارہ شروع ہو گیا کہ اچانک میری بیٹی نےپوچھا:
“ماما! دشمن کیا ہوتاہے؟”
اور میں جواب ڈھونڈنے لگ گئ۔
آج سے۳۰ سال پہلےمجھے سکول میں پڑھایا گیا تھا کہ دشمن بھارت ہے۔
موجودہ دور کے ایک یونیورسٹی سے فارغ التحصیل گریجویٹ کے مطابق ایک محبِ وطن پاکستانی کی تعریف یہ ہے کہ وہ بھارت کو دشمن مانے۔
اب سوال یہ ہے کہ ایک ۵ سالہ بچی کے لئےدشمن کی تعریف کیسے کی جائے؟
کیا وہ ملک جو اپنے بچوں کو ہمارے بچوں کے قاتلوں کے بارے میں بتا رہا ہے۔اور یہ نغمہ چلا رہا تھا ۔وہ دشمن ہے؟
میرے پاس اس سوال کا کوئی جواب بن نہیں پڑ رہا کیونکہ کوئی بھی جواب اپنی موجودہ حیثیت میں قابلِ قبول نہیں۔
اپنے ارد گرد اس سوال کا جواب تلاش کیا اور اندازہ ہوا کہ آج کل کے والدین اسی تذبذب کا شکار ہیں کہ “دشمن” کس کو کہا جائے۔
یہ سوچ کے ہی دل ڈوب جاتا ہے کہ ایک بچے کو یہ کیسے سمجھا ئیں۔ کہ دشمن ہاتھ میں بندوق اٹھائے اسکول جاتے بچوں کی جان لے لیتا ہے۔