جے آئی ٹی… زندہ باد

میں پاکستان کا ایک عام مڈل کلاسیا ہوں اور آج کل میں بہت ہی خوش ہوں کیونکہ پہلی بار بالادست طبقوں کا احتساب شروع ہوا ہے۔ شہزادے گھنٹوں پیشیاں بھگت رہے ہیں اور ہمارے نام نہاد وی وی آئی پیز‘ جو پہلے جہازوں تک کو رکوا لیا کرتے تھے‘ اب انہیں خود پہروں انتظار کرنا پڑ رہا ہے جبکہ پہلے یہ پروٹوکول کے نام پر ٹریفک بند کرکے ہمیں کھڑا رکھتے تھے ۔

خدا کا شکر ہے کہ بقول ولیم شیکسپیئر ”پہیے نے اپنا چکر پورا کر لیا ہے‘‘ اب وقت آ گیا ہے کہ شریفوں اور زرداریوں سے لوٹی ہوئی پائی پائی کا حساب لیا جائے۔ جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم یعنی جے آئی ٹی میرے احتسابی خوابوں کی تعبیر ہے۔ اس نے میاں طارق شفیع اور حسین نواز شریف جیسے بڑے ناموں سے جس طرح بے لاگ اور کسی دھونس‘ دبائو میں آئے بغیر سوالات کئے‘ رئیسانہ مزاج کے مالک ان شہزادوں کو اس کی توقع نہ تھی۔ انہیں تو امید تھی کہ انہیں ادب آداب اور تعظیم سے بلا کر ”پولے پولے‘‘ سوال پوچھے جائیں گے‘ مگر ہوا الٹ جس پر ان کے پسینے چھوٹ گئے۔ جے آئی ٹی اگرچہ سرکاری ملازموں پر مشتمل ہے لیکن یہ باضمیر مڈل کلاسیے ہیں جو کسی رعب‘ خوف اور دبائو میں آئے بغیر اپنا کام کر رہے ہیں۔ پوری قوم کو چاہئے کہ ایک بار پورے زور سے نعرہ لگائے ”جے آئی ٹی… زندہ باد‘‘۔

مڈل کلاسیا ہونے کی بدولت مجھے شروع ہی سے کرپشن سے نفرت ہے‘ مجھے اندھا یقین ہے کہ حکمرانوں‘ شریفوں اور زرداریوں نے ہمارے وسائل لوٹ کر بیرون ملک جائیدادیں بنائی ہیں۔ مجھے یہ دکھ بھی ہے کہ میری غربت کی اصلی وجہ یہی ہے کہ میرے وسائل لوٹ لئے گئے۔ سوئٹزرلینڈ‘ لندن اور دنیا کے باقی ممالک میں پاکستان کی لوٹی ہوئی رقوم اگر واپس لائی جائیں تو ہمارا بیرونی قرضہ ختم ہو جائے‘ ہمارے معاشی حالات بہتر ہو جائیں اور یوں ”نئے پاکستان کی تعمیر شروع ہو جائے گی‘‘ مگر یہ بالادست طبقے ایسا کرنے کو تیار نہیں اس لئے ان کا کڑا اور بے لاگ احتساب ضروری ہے۔

یہ بات طے ہے کہ صرف مڈل کلاس ہی پاکستان کا دردِ دل رکھتی ہے باقی تو اس کو لوٹنے اور کھانے والے ہیں۔ یہ مڈل کلاس ہی تھی جس نے قائد اعظم کے ساتھ مل کر پاکستان بنایا‘ مہاجرت سہی‘ اپنے عزیز و اقارب کی جانوں کی قربانی دی۔ پیارا پاکستان بن گیا تو ہمارے ہی طبقے کے بعض لوگ متروکہ جائیدادوں کی الاٹمنٹ میں پڑ گئے۔ لوٹ کھسوٹ ہوئی مگر ظاہر ہے تقسیم سے جو نقصان ہوا تھا وہ پورا تو کرنا تھا۔ کرپشن کا احتساب اسی زمانے میں مڈل کلاس کا نعرہ بنا‘ ہم نے احتساب کے لیے پروڈا بنوایا‘ کئی وزرائے اعلیٰ کو نااہل بھی کروا کے چھوڑا۔ قیام پاکستان کے بعد 11 سالوں میں 7 وزیر اعظم تبدیل ہوئے‘ ہماری مڈل کلاس بہت تنگ آ گئی تھی اور تبدیلی چاہتی تھی۔ ایسے میں مردِ آہن اور ہماری مڈل کلاس ہی کے ایک فرد جنرل ایوب خان نے مارشل لا لگا کر کرپٹ‘ نالائق اور نااہل سیاستدانوں سے چھٹکارا دلا دیا۔ یوں سبز انقلاب اور صنعتی ترقی کا دور شروع ہوا۔

صدر ایوب کے زمانے میں بھی مڈل کلاس کے انتقام کی آگ ٹھنڈی نہ ہوئی۔ ہم ہی نے ایبڈو کا قانون بنوا کر سب سابق حکمرانوں سے بدلے لئے۔ بدقسمتی سے صدر ایوب نے اپنے عہدۂ صدارت کو لائلپور کا گھنٹہ گھر بنا دیا۔ آزادیاں محدود کر دیں‘ مڈل کلاس بہت ڈسٹرب ہوئی اور ہمارے دلوں میں پھر سے جوش ٹھاٹھیں مارنے لگا۔ ہم نے صدر ایوب کے خلاف نعرے لگانے شروع کر دیے۔ وہ ایسے دبائو میں آئے کہ مستعفی ہو گئے۔ پھر ہم نے جئے بھٹو کے نعرے لگا کر ذوالفقار علی بھٹو کو کندھوں پر اٹھا لیا۔ مشرقی پاکستان کے غداروں نے مکتی باہنی کی شکل میں خانہ جنگی شروع کی تو ہم مڈل کلاسیے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن گئے۔ ہم نے درخت کے ہر پتے پر ”کرش انڈیا‘‘ لکھ کر مادرِ وطن سے اپنی محبت کا اظہار کیا۔ افسوس کہ ہماری محبت کا جذبہ کام نہ آیا اور مسلح افواج کی طرف سے بہادری کی داستانیں رقم کرنے کے باوجود سقوط ڈھاکہ کا سانحہ رونما ہو گیا۔ نقصان تو بہت بڑا تھا مگر مڈل کلاس نے نیا پاکستان بنانے میں بھٹو کا بھرپور ساتھ دیا۔ جلد ہی پتہ چل گیا کہ بھٹو میں بھی بہت خرابیاں تھیں۔ وہ ایک جمہوری آمر تھا جو اپوزیشن کے ساتھ ظلم روا رکھتا تھا۔ بس پھر میری کلاس کی اکثریت‘ جس میں منڈیوں اور بازاروں کے لوگ شامل تھے‘ بھٹو کے خلاف ہو گئی۔ اس نے بھی تو ہماری فیکٹریوں اور جائیدادوں کو قومیا لیا تھا۔ پاکستان قومی اتحاد بنا تو ہماری اکثریت اس کے جلسوں اور جلوسوں میں شریک ہونے لگی۔ ہماری مڈل کلاس کا نیا لیڈر منکسرالمزاج ضیاء الحق تھا۔ وہ برسرِ اقتدار آیا تو ہماری امیدیں بر آئیں۔ ہم نے پہلے احتساب‘ پھر انتخاب کا نعرہ لگایا۔ ضیاء الحق کو بھی بہت پسند آیا۔ افسوس کہ ضیاء الحق احتساب میں بہت ہی سنجیدہ نکلا حالانکہ ہمارا کرپشن کے خلاف احتساب کا نعرہ ہماری عادتِ ثانیہ ہے‘ کیونکہ ہم ہر حکمران سے تنگ آ کر اس کو ہٹانا چاہتے ہیں۔

انقلابِ فرانس کے دوران مڈل کلاس کا یہی کردار تھا کہ بے چین رہو اور تبدیلیاں کرتے رہو۔ ضیاء الحق نے پیپلز پارٹی اور ذوالفقار علی بھٹو کا ایسا احتساب کیا کہ بھٹو کو پھانسی لگائی اور پیپلزپارٹی والوں کو کوڑے اور سزائیں۔ احتساب کا تڑکا بڑا نشہ آور تھا مگر جب مڈل کلاس کو ہوش آئی تو ملک میں کلاشنکوف کلچر‘ ہیروئین‘ تخریب کاری اور فرقہ واریت عام ہو چکی تھی۔ بس پھر ہماری مڈل کلاس نے ہاتھ اٹھا اٹھا کر ضیاء الحق کے لیے بددعائیں شروع کر دیں۔ یاد رہے کہ ہماری مڈل کلاس کی دعائیں لگیں یا نہ لگیں ہماری بددعائیں بہت لگتی ہیں۔ کرنا خدا کا یہ ہوا کہ ضیاء الحق ایک پراسرار دھماکے کے نتیجے میں جاں بحق ہو گئے۔ اب ہماری مڈل کلاس دو حصوں میں بٹ گئی۔ ایک حصے کو بھٹو یاد آنے لگا اور وہ وزیر اعظم بے نظیر کے نعرے لگانے لگا جبکہ دوسرے حصے کو ضیاء الحق کا جانشین نواز شریف اچھا لگنے لگا اور یوں مڈل کلاس کے درمیان کئی سال تک دونوں کو وزیر اعظم بنوانے اور پھر ہٹوانے کی کشمکش جاری رہی‘ مگر مڈل کلاس نے کرپشن کے خلاف احتساب کا اپنا فریضہ یہاں بھی نہیں بھولا‘ دونوں فریق ایک دوسرے کے احتساب کا نعرہ لگاتے رہے۔ دونوں دو دو بار وزیر اعظم منتخب ہوئے مگر دو دو بار کرپشن کے الزامات پر اقتدار سے فارغ ہوئے۔ مڈل کلاس ہی کے مشورے پر نواز شریف نے احتساب کی حدود پار کیں‘ احتساب الرحمن نے زیادتیوں کی حد کر دی اور بے نظیر بھٹو کو عدالت سے سزا دلوا کر جلاوطن کروا دیا۔ بس اس کے بعد مڈل کلاس کا دل نواز شریف سے بھی اچاٹ ہو گیا۔ زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ مڈل کلاس کی پھر لاٹری نکل آئی اور اسے پھر سے 6 نکاتی اصلاحی ایجنڈے والا لیڈر جنرل پرویز مشرف مل گیا‘ مڈل کلاس کی پھر سے امیدیں برآئیں احتساب‘ سخت گیر جنرل امجد کے سپرد ہوا۔

کرپشن‘ ٹیکس چوری اور ناجائز اثاثوں کے مقدمات میں بڑے بڑے صنعت کاروں اور سیاستدانوں کو گرفتار کر لیا گیا۔ نواز شریف کا خاندان جلا وطن ہوا‘ ہم نے بڑی تالیاں بجائیں‘ مگر پھر جنرل مشرف کو ق لیگ کی ضرورت پڑ گئی۔ اصول‘ مصلحت پر قربان ہو گئے۔ پیٹریاٹ بنانے پڑ گئے۔ یوں احتساب کا معاملہ گول ہوا‘ بے نظیر اور پیپلز پارٹی کے ساتھ احتساب کو ختم کرکے این آر او پر اتفاق کر لیا گیا۔ نواز شریف کو بھی ان کے غیر ملکی محسنوں نے واپس بھجوا دیا۔ بے نظیر بھٹو کو سرعام سڑک پر قتل کر دیا گیا۔ یوں وہ زندگی بھر کے احتساب سے چھٹکارا پا گئیں۔ زرداری رہ گئے تھے‘ ان پر ہمیں بے نظیر کے قتل کے بعد بہت رحم آیا اور ہم نے انہیں صدر مملکت بنا دیا۔ جب انہوں نے آزاد خارجہ پالیسی بنانے کی کوشش کی تو ہماری مڈل کلاس کو ان کی ماضی کی لوٹ مار پھر سے یاد آگئی؛ چنانچہ ہم نے میموگیٹ کی مکمل حمایت کی۔ نوازشریف تک کالاکوٹ پہن کر سپریم کورٹ پہنچ گئے۔ زرداری اب سابق صدر ہیں مگر ان کا احتساب جاری ہے۔ ہم ان کے خلاف جدوجہد جاری رکھیں گے۔

نوازشریف آئے تو ہم نے ان کی مکمل حمایت کی‘ انہیں ووٹ دیئے انہیں تیسری بار وزیر اعظم بنایا مگر اب ہمارا دل پھر سے چڑ گیا ہے‘ نفرت سی ہو گئی ہے‘ اب پھر سے ہمارا مشن ہے کہ نواز شریف کا کڑا احتساب ہو۔ تب ہمارے کلیجے میں ٹھنڈ پڑے گی۔ اسی لئے جے آئی ٹی ہماری امیدوں کا مرکز بن گئی ہے۔ یہ پرویز رشید‘ مشاہداللہ یا نہال ہاشمی جے آئی ٹی اور عدالتوں کو کارروائی سے باز نہیں رکھ سکے۔ آپ کچھ بھی کہیں احتساب مڈل کلاس کے خون میں ہے۔ ہمارے ”احتساب‘‘ کی آگ‘ انتقام کی آگ کی طرح کبھی ٹھنڈی نہیں ہو گی۔ یہ درست کہ احتساب کا یہ بے رحم جذبہ مڈل کلاس کے احساس جرم کا نتیجہ ہے مگر اس کا بدلہ حکمرانوں سے ہی لینا ہو گا۔ احتساب جتنا بھی ہو جائے جتنا بھی ہوتا رہے‘ ہم اور زیادہ احتساب کی کوشش کرتے رہیں گے‘ احتساب اور صرف احتساب‘ جے آئی ٹی پھر سے زندہ باد۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے