مہنگافروٹ بائیکاٹ مہم کو سمجھا ہی نہیں گیا۔

آج جبران ناصر صاحب، منیبہ مزاری صاحبہ اور احسن خان صاحب سے فروٹ بائیکاٹ مہم پر بات ہوئی، تینوں مخالفت کر رہے تھے ،اور ان کی مخالفت کی بڑی مدلل تھی ۔

تاہم بائیکاٹ کے اصل سبب سے وہ بھی نا آشنا تھےکہ بائیکاٹ کیوں اور کس کے خلاف کیا جارہا ہے ۔وہ بھی برینڈڈ امور، بوفے ڈنر،طلب و رسد، مہنگے ہوٹل اور اس قسم کے موضوعات کو ریڑھی والے سے منسلک کر رہے تھے ۔

تاہم میں نے انہیں بتایا کہ میں اس مہم کی حمایت کر رہا ہوں اور جو کچھ آپ کہہ رہے ہیں اس کی بھی حمایت کر رہا ہوں۔

پھر اس کے بعد میں نے ان سے وہی گذارشات کیں جو اپنی ویڈیو میں کہہ چکا ہوں اور لکھ چکا ہوں ۔

تینوں اس بات پر متفق ہو گئے کہ یہ مس مینجمنٹ اور پرائس کنٹرول کمیٹیوں کا ایشو ہے، اس تحریک سے وہاں ایکشن شروع ہو چکا تو اس پہلو سے تو یہ بائیکاٹ انتہائی موثر اور کارگرہے ۔

میرا یہ گمان ہے کہ بائیکاٹ کے سنجیدہ مخالف ابھی بھی مقاصد کو جانیں گے تو وہ حمایت ہی کریں گے ۔آپ نے دیکھا کہ عالمی میڈیا نے پاکستان میں سوشل میڈیا سے شروع ہونے والی اس مہم کو کتنا سپورٹ کیا۔

عوامی سطح پر، منڈی، بازار، مارکیٹ ہر جگہ یہ موضوع سنجیدگی کے ساتھ زیر بحث ہے ۔اس کے اثرات بھی سامنے آ رہے ہیں۔ بڑی تعداد نے علمائے کرام نے جمعے کے خطبات میں گراں فروشی اور مصنوعی قلت پر بات کرتے ہوئے بتایا کہ یہ اسلامی تعلیمات کے ساتھ ساتھ انسانیت کے خلاف ایک سنگین جرم ہے ۔

عام لوگوں نے بائیکاٹ کر کے گراں فروشوں اور مصنوعی قلت پیدا کرنے والوں کو فروٹ سستا کرنے پر مجبور کر دیا ۔

رمضان میں مفت افطار دینے والے کئی اداروں نے اپنے افطار پیکج میں سے فروٹ نکال دیے ۔پرائس کنٹرول کمیٹیوں نے بازاروں میں چکر لگانے شروع کر دیے، نتیجتاً آڑھتیوں نے ریڑھی والوں کو سستا فروٹ دینا شروع کر دیا ۔ مارکیٹ میں فروٹ دو دن سے سستا مل رہا ہے ۔ سب اس کا اقرار کر رہے ہیں ۔ اب غریب لوگ بھی کھا سکتے ہیں لیکن ہم پھر بھی تین نہیں کھائیں گے ۔

ہمارے وطن کے محنت کش غریب مڈل کلاس لوگ خوش ہیں کہ زندگی میں پہلی بار ان کے حقوق کیلئے بھی کوئی کھڑا ہوا، سچی بات تو یہ ہے کہ کوئی کھڑا نہیں ہوا، وہ خود ہی کھڑے ہوئے تھے جس کی وجہ سے آڑھت مافیا اور ان کے لیے مہم چلانے والے کرایہ دار دانشور کل سے گلی محلوں میں چھپتے پھر رہے ہیں ۔

تاہم جو لوگ سنجیدگی سے اختلاف کر رہے تھے، ان کو بھی سلام ہے کیونکہ مخالفت بعض اوقات کام میں مزید نکھار لانے کا سبب بنتی ہے ۔

مایوس اور بد دل ہونے کے بجائے سوچ سمجھ کر اور دیکھ بھال کر اپنی رائے بنائیں ۔ اور بہترین رائے علم اور معلومات سے ہی بنتی ہے، سستے جگت بازوں اور مختصر افسانہ نویسوں کی فنکاریوں سے نہیں. انہیں بتائیں کہ بھائی یہ رضیہ بٹ کے ناولوں کا دور نہیں، یہاں فہم اس درجے تک پہنچ چکا ہے کہ ٹویٹر کی ایک لائن دنیا کو جوڑ دیتی ہے، محلات کو توڑ دیتی ہے۔

اللہ آپ اور ہم سب پر رحم کرے خوش و خرم رہیں۔ ایک دوسرے سے پیار کریں، احترام کریں اور جو بدمعاشی پر اتر آئے اسے ہوا میں اچھال دیں ۔کیونکہ شرافت اچھی چیز ہے لیکن ہر شریف آدمی ایک بدمعاش پیدا کرتا ہے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے