سب تعریفیں اور تمام تر شکر اس ذاتِ اقدس کے لیے جو ہر سال ہم گناہ گاروں کو رمضان المبارک جیسا با برکت مہینہ عطا کرتا ہے۔ ہر سال ماہ رمضان مسلمانوں کے لیے بے شمار رحمت ٬ برکت اور مغفرت کی نوید لیکر سایہ فگن ہوتا ہے یہی وہ مہینہ ہے جس میں ہزار مہینوں سے افضل رات لیلةالقدر بھی شامل ہے اس مہینے میں ہر روز ہزاروں گردنیں جہنم سے آزاد کر دی جاتی ہیں جہنم کے دروازے بند اور جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں ماہ رمضان ہم گناہگاروں کے لیے بالخصوص مغفرت اور بخشش کی بے شمار پرکشش آفرز لے کر آتا ہےاس میں ہر نیکی کا اجر کئی گنا بڑھا دیا جاتا ہےنفل کا ثواب فرض کے برابر اور فرض کا ثواب ستّر گنّا بڑھا دیا ہے۔
اس ماہ میں رحمتوں اور برکتوں کی سیل لگ جاتی ہے جو جتنا چاہے بڑھ کر سمیٹ لے۔دنیا بھر میں ڈیڑھ ارب کے قریب مسلمان اس مبارک مہینے میں عقیدت و احترام کے ساتھ روزے کا اہتمام کرتے ہیں در حقیقت یہ مہینہ اپنے نفس کا محاسبہ کر کےتقویٰ اختیار کرنے عطا کیا گیا تاکہ اللہ کے بندے پاکیزگی اختیار کریں اور اپنی سوچ کو آلودگی سے بچانے کی پریکٹس کر سکیں۔
دراصل روزہ ایک ایسی بدنی عبادت ہے جو دوسروں کی تکلیف کا احساس دلاتی ہےشدید گرمی میں بھوکا پیٹ اور سوکھا حلق تھر پارکر اور صومالیہ میں بلکتی انسانیت کا درد محسوس کرواتا ہے جبکہ تمام اشیاۓ خوردونوش کے ہوتے ہوۓ ایک مخصوص دورانیے تک کھانے پینے سے باز رہنا اور گناہوں سے بچنا تقویٰ پیدا کرتا ہے مگر ایک تنقیدی نظر رمضان المبارک میں اپنی سرگرمیوں پر ڈالیں تو روزے کے مقاصد دور دور تک نہیں دکھائی دیتے ہماری زندگیوں میں رمضان ایک سیگمنٹ بن کر رہ گیا ہے جس کا مقصد سحر و افطار کے مینو سے عید کی تیاری تک رہ گیا ہے اس ماہ مقدس میں ثواب کمانے کے لیے بھی حقیقی حقداروں کو یکسر نظر انداز کر کے اپنی ہی حیثیت کے لوگوں کی افطار پاٹیز کا اہتمام کیا جانا ایک فیشن بن گیا ہے نیکیوں کی نمائش کرنے کا ایسا خبط رواج پا چکا ہےکے صدقہ و خیرات مستحق تک پہنچانے سے پہلے سوشل میڈیا کی زینت بنانا فرضِ عین سمجھا جاتا ہے جبکہ ہمارا دین اس معاملے میں راز داری برتنے کا درس اس طرح دیتا ہے کے دائیں ہاتھ سے کیے جانے والے صدقے کی خبر بائیں ہاتھ کو بھی نہ ہو۔
اس مہینے میں خداۓ بزرگ و برتر شیاطین اور سرکش جنات کو قید کر کے ہمیں نفس کا محاسبہ کرنے اور اعمال درست کرنے کا موقع عطا کرتے ہیں مگر آج شیاطین کا کام میڈیا مالکان نے بخوبی سنبھال رکھا ہے رمضان ٹرانسمیشن کے نام پہ جو طوفانِ بدتمیزی بپا ہے اس نے روزے کی روح کو پامال کر رکھا ہے سحر و افطار کے اوقات میں جب رحمتِ خداوندی پورے جوش سے اپنے بندوں کی طرف متوجہ ہوتی ہے اور پکار پکار کر اپنی رحمت کی طرف بلاتی ہے عین اس وقت ابلیس کے کارندے لوگوں کے ذہنوں کو جکڑنے ایسے ایسے پروگرامات نشر کرتے ہیں زندان میں پڑا ابلیس بھی اپنے مشن کی کامیابی کا جشن مناتا ہو گا۔اس وقت اسلام دنیا کا مظلوم ترین مذہب ہے جس کی تبلیغ کا فریضہ ایسے فنکاروں کے ہاتھوں میں دیا جا چکا ہے جو خود ساختہ داعیِ اسلام بن کر اسلام کی من پسند تشریحات کرنے اور اپنے بے ہودہ پروگرامات کو بھونڈے دلائل سے دین کا حصہ ثابت کرنے پر مصر ہیں سارا سال میوزک کی تھاپ پر رقص کرنے والے اور بے حیائی کو فروغ دینے والے رمضان المبارک میں دوپٹہ اور ٹوپی اوڑھ کرسکرینوں پر اسلام کے مبلغ بن بیٹھتے ہیں
اور بے وقوف عوام بڑے زوروشور سے ان کے ”گنجائش والے اسلام“ کی تشریحات سے مستفید ہو رہے ہوتے ہیں۔رمضان آفرز کے نام پر ملٹی نیشنل کمپنیاں اپنی پروڈکٹس ایسے نت نئے انداز سے متعارف کرواتی ہیں گویا رمضان کا مقصد ہی ان پراڈکٹس سے مستفید ہونا ہے نیکیوں اور برکتوں کا مہینہ اب چینلوں کی ریٹنگ کی بھینٹ چڑ رہا ہے اللہ تعالیٰ کی رحمتوں اور برکتوں کے حصول کی ترغیب سے بھٹکا کر گاڑی٬ بائیک ٬ موبائل اور برانڈز کے ملبوسات کے لالچ میں بھکاری بنا کر پھنسایا جا رہا ہے ۔
زمانہ جاہلیت میں کفار مکہ حج کے تقدس کو پامال کرنے کے لیے عکاظ نامی میلہ سجاتے تھے جس کے سرپرست ابوجہل اور ابو لہب ہوا کرتے تھے آج کے دور میں رمضان کی برکات سے محروم کرنے کے لیے ان سرداران ِ قریش کے پیروکاروں نے رمضان ٹرانس میشن کا آغاز کررکھا ہے۔
جو کام علماء کرام کی ذمہ داری تھی وہ مراثیوں اور بھانڈوں نے سنبھال رکھا ہے کون نہیں جانتا میڈیا لوگوں کے ذہنوں پر اثر انداز ہونے والا مضبوط ترین ہتھیار ہے ایک رپورٹ کے مطابق لوگوں کے ذہنوں کو کنٹرول کرنے اور عوامی سوچ کو ایک مخصوص نظریے کے مطابق ڈھالنے کے لیے ہر سال اربوں روپے میڈیا پر خرچ کیے جاتے ہیں جس کا واضح نتیجہ آج لوگوں کے معاشرتی رجحانات میں نظر آرہا ہے اسٹیٹس کے مارے بے چارے لوگ زندگی کی دوڑ میں آگے بڑھنے کے لیے حلال حرام میں تمیز کرنا بھول چکے ہیں۔
جب اسلامی ریاست میں رمضان المبارک صرف و صرف ” بزنس مہینہ“ بنا دیا جائے اشیاۓ خوردونوش غریب ممالک کی اسّی فیصد عوام کی قوّتِ خرید سے باہر کر دی جائیں اور پھر الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا چند تصاویر اور پروگرامات سے ان کی بے بسی کو کیش کرتا پھرے تو ذلت و بدنامی کے گھٹا ٹوپ اندھیرے سے بچنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہو جاتا ہے۔
کیا ہی اچھا ہو اگر پھل فروشوں کے ساتھ ساتھ رمضان کریم کی مبارک ساعتوں کو پامال کرنے والے بھانڈوں٬ مراثیوں اور میڈیا مالکان کا بھی بائیکاٹ کر دیا جائے