کراس کر یا برداشت کر

رمضان کا مہینہ شروع ہوتے ہی پا رسا دانشوروں کی تحریروں کا آغاز ہو جاتا ہے ۔ کوئی ٹیلی ویژن چینلز کی رمضان ٹرانسمیشن پر تنقید کرتا ہے ۔ کوئی ان اداکار اور فنکاروں پر نشتر چلاتا ہے جو ان پروگراموں میں میزبانی کے فرائض سر انجام دیتے ہیں ۔ یہ وہ فنکار ہیں جن کے ڈراموں یا گانوں سے ہم سارا سال محظوظ ہوتے ہیں۔ کچھ مصنفین کا نشانہ وہ سارے انعامی پروگرام ہوتے ہیں ۔ جو روزانہ سحر و افطار میں تقریباً ہر چھوٹے بڑے چینل سے نشر کئے جاتے ہیں۔

مجھے چینلز کے رمضان ٹرانسمیشن کے پروگرام نشر کرنے پر کوئی اعتراض نہیں۔ نہ ہی اس پر کوئی طعنہ ہے کہ ان پروگراموں کی میزبانی اداکاروں اور گلوکاروں سے کیوں کروائی جاتی ہے۔ میرے نزدیک وہ ہی ان پروگراموں کی میزبانی کا حق رکھتے ہیں ۔ اگرچہ میں اس بات کا قائل ہوں کہ On-Air یعنی جس ہوا اور لہروں کو استعمال کر کے ہم تک نشریات پہنچتی ہے اس پر تمام عوام کا حق ہے ۔ اسلئے اس کا استعمال عوام کی مرضی سے ہونا چاہئے ۔ لیکن ابھی تک کسی تحقیق سے طے نہیں کیا گیا کہ عوام رمضان میں کیا دیکھنا چاہتے ہیں۔

یہ کمرشلزم کا دور ہے ۔ ٹیلی وژن نوجوان نسل کو ٹارگٹ کرتا ہے ۔ جو ہماری آبادی کا ساٹھ فی صد ہے ۔ اسلئے ٹیلی وژن کے پروگرامرز سمجھتے ہیں کہ ان کے Audience کون سے چہرے دیکھنا چاہتے ہیں ۔ کچھ تکنیکی وجوہات درج ذیل ہیں ۔

1. اداکار بولنے اور ایکٹ کرنے کے فن سے واقف ہوتا ہے ۔ یہ اس کا پیشہ ہے کہ وہ چیزوں کو خوبصورت یا بدصورت بنا کر پیش کرے ۔ اسی فن کو استعمال کرتے ہوئے وہ رمضان ٹرانسمیشن کی میزبانی کی بہترین صلاحیت رکھتا ہے ۔ وہ پر کشش شخصیت ، خوبصورت لباس اورخوش کن گفتگو کے ساتھ رمضان کی نشریات کو ان لوگوں کے لئے قابل قبول بنا کر پیش کرتا ہے جو ٹی وی کے مستقل ناظرین ہیں ۔ یہ تقریباً وہی ناظرین ہوتے ہیں جو سارا سال ان فنکاروں کو ڈراموں یا فلموں میں بہت شوق سے دیکھتے اور پسند کرتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ چینل ان ہی لوگوں کو لینا پسند کرتا ہے جن کی کوئی ویورشپ پہلے سے موجود ہو۔

2. ایک اعتراض یہ بھی کیا جاتا ہے کہ اب ہم ان فنکاروں سے دین سیکھیں گے ؟ اس کاجواب ’’نہیں‘‘ ہے ۔ ٹیلی ویژن کا ایک مستقل ناظر ہونے کی حیثیت سے میں یہ کہوں گا کہ رمضان ٹرانسمیشن میں ہر چینل کوشش کرتا ہے کہ ایسے علماء ٹیم کا حصہ بنیں جو پورا سال مختلف پروگراموں میں شرکت کرتے رہتے ہیں اور جو پہلے سے ہی فیس ویلیوکے ساتھ ساتھ ٹی وی کے حوالے سے شہرت رکھتے ہیں۔

ہر میزبان کی ٹیم ایسے علماء اور ثناء خوانوں پر مشتمل ہوتی ہے ۔ جو مختلف دینی مسائل کے جواب دیتے ہیں۔ تو بنیادی طور پر ہم دینی مسائل علماء سے سیکھ رہے ہوتے ہیں نہ کہ فنکاروں سے۔ فنکارصرف اپنے بولنے اور پیش کرنے کی صلاحیت استعمال کرتے ہوئے ناظرین اور علما ٗ کے درمیان پل کاکام دیتا ہے۔بہر حال یہ لکھنے والے صرف رمضان ٹرانسمیشن میں ہی دین کیوں سیکھتے ہیں؟

3. جو لوگ ٹیلی ویژن پروڈکشن سے تھوڑے بہت بھی واقف ہیں وہ جانتے ہیں کہ ٹیلی وژن کی پیش کش میں میزبان کی شخصیت ،اوربولنے کےانداز کے ساتھ ساتھ تصویری کشش ہونا ضروری ہے۔ میزبان کے انتخاب میں اس امرکو ملحوظ خاطر رکھا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ علماء کی جو ٹیم مہمان کے طور پر شرکت کرتی ہے ۔ وہ بھی اپنی ظاہری شخصیت کو میزبانوں سے بڑھ کر پر کشش بنانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ کیونکہ یہ ٹیلی وژن کی ضرورت ہے ۔

4. یہ ایک ناجائز اعتراض ہے کہ جو لوگ سارا سال ڈرامے کرتے ہیں یا ناچتے گاتے ہیں وہ اس ایک مہینے میں ٹوپی اور جبہ پہن کر نیک اور پارسا بن جاتے ہیں۔ ویسے یہ بات وہی کر سکتا ہےجس کو اپنی پارسائی کا بھرپور دعویٰ ہو۔ ورنہ ہر شخص گناہگار ہے ۔ کوئی بھی یہ دعویٰ نہی کر سکتا کہ ٹی وی پر نظر آنے والے فنکار اس سے بڑا گناہ گار ہے ۔ کیوں کہ یہ معاملہ صرف اللہ اور بندے کے درمیان ہے اور اللہ ہی جانتا ہے کہ ٹی وی دیکھ کر ان فنکاروں پر تنقید کرنے والا زیادہ گناہگار ہے یا وہ فنکار۔ ایسا پیمانہ کسی کے پاس نہیں ہے ۔ اسلئے یہ ایک لغو بات ہے ۔

5. بالفرض مان بھی لیا کہ وہ سارا سال گناہ کرتے ہیں ۔ پھر بھی رمضان ٹرانسمیشن کی میزبانی کرنا اس سے متصادم نہیں ہے ۔ یہ ایک عام فارمولا ہے ۔ سارا سال گناہ کرنےوالا ہر مسلمان عمومی طور پر یہ کوشش کرتا ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ نیکیوں کی طرف راغب ہو۔ اور یہی دین کا پیغام بھی ہے۔ اگر فنکاروں کی رغبت بھی دینی پروگراموں کی طرف ہو جاتی ہے تواس کو سراہنا چاہیے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے