بادشاہ یا بینگن: ہم کس کے ساتھ ؟

پاکستان سے نظریاتی سیاست کیا ختم ہوئی‘ ہم سب بادشاہ کے ساتھی بن گئے ہیں اور بینگن بے چارہ بالکل اکیلا رہ گیا ہے۔ بادشاہ یا بینگن کی کہانی کچھ یوں ہے کہ بادشاہ کے دربار میں ایک کاشتکار نئے موسم کی سبزی‘ بینگن لے کر آیا اور اسے بادشاہ کی خدمت میں تحفتاً پیش کیا۔ بادشاہ نے بینگن کے اودھے جامنی رنگ کو دیکھ کر کہا: کیا خوبصورت رنگ ہے کیا حسین اس کی چمک ہے! دربار میں موجود دانا وزیر اٹھا اور اس نے کہا کہ بینگن تو سبزیوں کا سردار ہے‘ اس کی سبز رنگ کی کلغی دراصل اس کا تاج ہے‘ جو اسے قدرت کی طرف سے ودیعت کیا گیا ہے۔ بادشاہ نے اقرار میں سر ہلایا اور حکم دیا کہ آج اس شاہی سبزی کو پکایا جائے۔ دربار دوسرے دن پھر دربار لگا تو بادشاہ کا موڈ خراب تھا۔ بادشاہ نے کہا کہ بینگن تو فضول سبزی ہے‘ نہ اس کا کوئی ذائقہ ہے اور نہ اس کا کوئی طبّی فائدہ۔ بادشاہ کا وہی دانا وزیر اپنی نشست سے اٹھا‘ بادشاہ سلامت کے حضور فرشی سلام پیش کیا اور جھک کر گویا ہوا کہ بینگن سے بری کوئی سبزی کرہ ارض پر نہیں ہے‘ نہ اسے شوربے کے ساتھ کھایا جا سکتا ہے اور نہ ہی اس کو اکیلے پکانے میں کوئی مزہ ہے۔ ہر طرف سے واہ واہ کی آوازین بلند ہوئیں۔ دربار ختم ہوا اور وزیر باہر آیا تو اس کے ایک منہ چڑھے دوست نے کہا: وزیر صاحب! آپ بھی عجیب ہے‘ ایک دن پہلے بینگن کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملا دیے اور آج اس کی مذمت میں حد سے گزر گئے‘ یہ کیا تھا؟ وزیر نے اطمینان سے اپنے منہ چڑھے دوست کی طرف دیکھا اور کہا: میں بادشاہ کا وزیر ہوں‘ بینگن کا وزیر نہیں‘ میرا فرض یہی ہے کہ جو بادشاہ کہے میں اس پر صاد کروں۔

حقیقت یہ ہے کہ اس لطیفے کو ہم دلی طور پر تسلیم کرکے اس پر عمل کرتے ہیں۔ 1857ء کی جنگَِ آزادی ہماری تاریخ کا اہم ترین باب ہے‘ مگر جنگ آزادی کے دو متحارب فریقوں کے ساتھ ہمارا سلوک بعینہ بینگن اور بادشاہ والا ہے۔
جنگِ آزادی کے متوالوں کو لاہور میں راوی کنارے توپوں کے منہ پر رکھ کر اڑا دیا گیا‘ ان کے جسموں کے پرخچے اڑ گئے۔ آج ہمیں ان کے نام اور خاندان تک معلوم نہیں لیکن جنگِ آزادی میں انگریزوں کی مدد کرنے والے جاگیریں اور انعام حاصل کرتے رہے اور آج تک ان کی اولادیں سیاسی اور انتظامی عہدوں پر قابض ہیں۔ توپوں سے اڑائے جانے والوں کے خاندانوں کو ڈھونڈا تک نہیں گیا۔ ظاہر ہے اس وقت بادشاہ انگریز تھا اور یہ بیچارے بینگن۔ ان کا ساتھ کون دیتا؟
انگریز دور میں احمد خان کھرل نے بغاوت کا عَلم بلند کیا۔ ایک طرف انگریز ڈپٹی کمشنر ”برکلی‘‘ تھا اور دوسری طرف آزادی پسند احمد خان کھرل۔ بالآخر احمد خان کھرل کو اس کے اپنے ہی قبیلے کے سرکردہ افراد نے شکست دلوا دی۔ جنہوں نے انگریز بادشاہ کا ساتھ دیا‘ انگریزوں نے کھرل کے ان مخالفوں کو جاگیریں اور خلعتیں عطا کیں۔ احمد خان کھرل اور اس کے ساتھیوں کی زمینیں چھین لی گئیں۔ انگریزوں کو گئے 70 سال ہو گئے‘ اب بھی کمالیہ جا کر دیکھ لیں احمد خان کھرل کی آل اولاد سب سے غریب اور مسکین و لاچار ہے اور انہیں سزا مل رہی ہے کہ انہوں نے بادشاہ کی مخالفت میں بینگن یا کسی بھی اصول پر کوئی موقف کیوں اپنایا اور دوسری طرف بادشاہ کے اس وقت کے حمایتی آج بھی کمالیہ کے سب سے امیر اور بااثر لوگ ہیں۔ کیا تاریخ کا انصاف یہی ہے یا پھر ہم تاریخ کی درست سمت کو سمجھنے سے قاصر ہیں؟

صدیوں پہلے رومن وکیل‘ مقرر اور خطیب سیسرو (Cicero) نے کہا تھا ”اصل میں مفلس وہ قوم ہوتی ہے جس کے ہیرو نہیں ہوتے اور اسے بھی کہیں زیادہ غریب وہ قوم ہوتی ہے جس کے ہیرو تو ہوتے ہیں مگر وہ نہ تو انہیں یاد رکھتی ہے اور نہ انہیں احترام دیتی ہے‘‘۔ قائد اعظم محمد علی جناح کی بمبئے کی رہائش گاہ سائوتھ کورٹ میں سیسرو کی کتاب موجود تھی اور قائد اعظم نے اسے پڑھتے ہوئے کئی جگہوں پر قلم زد بھی کیا تھا۔ قائد اعظم نے سیسرو کے اعلیٰ آئیڈیلز کی طرح اپنی زندگی اعلیٰ ترین اصولوں پر گزاری۔ انگریز گورنر جنرل کے خلاف موقف اپنایا تو بادشاہ سے نہیں ڈرے‘ اپنے اصولوں پر ڈٹے رہے۔ گاندھی آندھی بن کر ہندوستان کی سیاست پر چھایا تو بڑے بڑے علما تحریکِ خلافت کی آڑ میں گاندھی کی جھولی میں جا بیٹھے مگر جناح نے تن تنہا اس آندھی کا رخ اپنی محنت‘ خلوصِ نیت اور سب سے بڑھ کر اصولوں کے بل پر موڑ دیا۔ قائدِ اعظم کے سیکرٹری شریف الدین پیرزادہ بھی سیسرو کے متاثرین میں شامل تھے مگر انہوں نے قائد اعظم اور سیسرو سے دلائل اور عقل و عمل تو سیکھ لیا مگر اصول پسندی نہ سیکھ سکے۔ لوگ شریف الدین پیرزادہ کو ان کے حیران کن عقلی دلائل کی وجہ سے جدہ کا جادوگر کہتے تھے مگر افسوس یہ جادوگر قائد اعظم سے اصول پسندی نہ سیکھ سکا اور بادشاہ کے جاہ و جلال کی حرص کا شکار ہو کر ہر مارشل لا اور ہر خلافِ آئین اقدام کے لئے دلائل و براہین تلاش کرتا رہا۔ سوال یہ ہے کہ اپنی زندگی میں عروج‘ وزارتیں اور عہدے پانے والا جادوگر تاریخ کے کٹہرے میں کہاں کھڑا ہو گا؟

ہم اصول کی بجائے طاقت کا ساتھ کیوں دیتے ہیں؟ ہماری تاریخ گواہ ہے کہ ہمارے ہاں اصول کا ساتھ دینے والوں کو ظالمانہ طاقت سے تباہ و برباد کر دیا گیا۔ یہی وہ خوف ہے جس نے ہمیں بادشاہ کے غلط اور آمرانہ فیصلوں کے ساتھ جوڑ دیا ہے۔ دنیا بھر میں ایسا ہی ہوا مگر وہاں تاریخ میں ایسا مرحلہ ضرور آتا رہا ہے جس سے ماضی کی زیادتیوں کا مداوا ہوتا رہا ہے اور ماضی کے ہیروز کو تاریخ کی دھند سے نکال کر سنہرے اوراق میں محفوظ کیا جاتا رہا ہے۔ ہمارے ہاں صدیاں گزر گئی ہیں مگر تاریخ میں ظالمانہ طاقت کا توڑ ہی نہیں ہو سکا۔ ماضی کے مظلوم آج کے بھی مظلوم ہیں۔

یہی بادشاہ اور بینگن‘ طاقت اور اصول‘ ظالم اور مظلوم‘ طاقتور اور کمزور کی کہانی‘ جنرل (ر) ایوب خان اور فاطمہ جناح کے الیکشن میں نظر آتی ہے۔ ہم بطور قوم کیا یہ فیصلہ کر چکے ہیں کہ محترمہ فاطمہ جناح درست تھیں یا ایوب خان کا مؤقف درست تھا؟ ظاہر ہے فاطمہ جناح کے ساتھ زیادتی کی گئی اور ذمہ داروں کو سزا نہیں ملی۔ یہی تو وہ ابہام ہے جو ہمیں دور کرنا ہو گا تاکہ ہم تاریخ میں آگے بڑھ سکیں۔ اقوامِ عالم میں سے جس قوم نے بھی ترقی کی ہے‘ اس نے اپنے ماضی کی تاریخ میں صحیح اور غلط کا فیصلہ کرکے اسی کی بنیاد پر اپنے مستقبل کی تعمیر کی ہے۔ ہمیں بھی یہی کرنا ہوگا۔

تاریخ میں ضیاء الحق اور ذوالفقار علی بھٹو میں سے بھی صحیح اور غلط کا انتخاب کرنا ضروری ہے۔ گو ہمارے اکثریتی بیانیے میں اب جنرل ضیاء الحق دبتے جا رہے ہیں اور بھٹو تاریخ میں ابھر رہے ہیں مگر پھر بھی بادشاہ اور بینگن کی لڑائی میں کبھی کبھی بادشاہ کے حق میں زوردار آوازیں اب بھی سنائی دیتی ہیں۔

آخر میں یہ کہنا ضروری ہے کہ دنیا بھر میں اقوام اصول پسندوں نے بنائی ہیں۔ انہیں قربانیاں دینا پڑی ہیں‘ سرکٹانے پڑے ہیں‘ جیلوں میں جانا پڑا ہے‘ کوڑے کھانے پڑے ہیں‘ مشکلات جھیلنا پڑی ہیں۔ بادشاہ کی حمایت آسان ترین اور بینگن کی حمایت مشکل ترین ہے۔ لیکن آج جو تاریخ میں زندہ ہیں‘ وہ سارے حریت پسند اور بادشاہ یعنی طاقت کے خلاف لڑنے والے تھے۔ مظلوم ہی آنے والے کل کے ہیرو ہوتے ہیں۔ کاش ہماری قوم اس سبق کو پڑھ کر تاریخ کا نیا ورق پلٹے۔ ایسا ہو گا تبھی حالات بدلیں گے‘ وگرنہ بادشاہ زندہ باد…

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے