حجاب،اسلام اور یورپ

ان دنوں علامہ پروفیسر غازی عبدالرحمن قاسمی صاحب کی کتاب: مسئلہ حجاب. اسلامی تعلیمات اور یورپی نقطہ نظر. کے مطالعے میں مشغول ہوں.علامہ صاحب نے تمام نقطہ ھائے نظر کا جامع احاطہ کیا ہے۔ تمام فقہی مسالک کی ام الکتب سے استفادہ کیاہے اور اخر میں اپنا حاصل مطالعہ پیش کیا ہے۔

علامہ صاحب تقریباً اسی نتیجے پر پہنچے ہیں ،جن کو بالتفصيل سید مودودی صاحب نے اپنی کتاب:پردہ میں بیان کیا ھے۔ کچھ سکالرز کے اختلاف کے باوجود یہ ماننا چاہئے کہ سید مودودی صاحب کی کتاب کو اس موضوع پر بہت چیلنجنگ تحقیقی کام کا مقام حاصل ہے. علامہ قاسمی نے فرانس اور دیگر یورپی ممالک میں حجاب ونقاب کے مسئلے پر مستقل گفتگو کی ہےاود فی الواقع بہت مدلل بحث کی بنیاد رکھی ہے۔

میری معلومات کے مطابق پردے کے مسئلے کو مذھبی حوالوں کے علاوہ معاشرتی اور بشریاتیsociological and anthropological حوالوں سے بھی مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے۔یہ دیکھنادلچسپی سے خالی نہیں کہ یہ مسئلہ دیہاتی سے زیادہ شہری کیوں ہے؟

ہمادے ہاں خیبرپختونخوا میں چترال میں خواتین چہرے کا پردہ نہیں کرتیں۔ کبھی کوئی مسئلہ نہیں ھوا۔ پورے صوابی کے علاقے میں چیل کے نام سے مقامی طور پر تیار کردہ پھول دار چادر استعمال کی جاتی ھے۔ چہرے اور ھاتھ کو ڈھانپنے​کا رواج نہیں.

پشاو اور کو ہاٹ کے درمیاں درہ ادم خیل کا روایتیقبائلی علاقہ ہے۔ وہاں خواتین کھیتوں میں کام کرتی ہیں اود عام طور پر لمبی قمیص اور کالی چادد میں ملبو س ہوتی ہیں. یہ طریقہ اس وقت بھی جاری رہا جب علاقے پر طالبان کا قبضہ تھا.

کوھاٹ سے اگے کرک میں خواتین چہرے کا نقاب کئے بغیر کھیتوں میں کام کرتی ہیں اود دوردراز چشموں سے گدھوں پر لاد کر پانی لاتھی ہیں۔ ایک گھڑاسر پر اور دوسرابغل میں دبائے بے فکر گھومتی ھیں۔

وزیرستان کی حالت بھی اس سے مختلف نہیں. خواتین لمبا گھاگھرا پہنے معمول کے معاشرے یا حصہ ہیں۔ وھاں لمبے عرصےتک طالبان کا راج رھا، بلکہ کچھ عرصہ تو وہاں میرعلی کے علاقے میں الدولہ العکاشیہ کے نام سے متتوازی حکومت قائم تھی۔

ڈیرہ اسماعیل خان کے دیہاتی علاقوں میں بھی یہی صورتِ حال ہے. پنجاب،سندھ اور بلوچستان خصوصاً بلوچ خطے میں حالات اس سے مختلف نہیں۔

یہ مسئلہ اس وقت گھمبیر صورت اختیار کرتا ہے ، جب شہری علاقوں میں عورتیں جاہلی تبرج کے ساتھ شہروں کا رخ کرتی ہیں۔ یونیورسٹیوں اور مخلوط دفاتر میں طالبات یا دفتری اہل کار یوں آتی ہیں گویا فیشن شو ہے یاشادی کی تقریب ہے۔ اس سوال پر بھی معاشرتی اور بشریاتی اصولوں کا اطلاق ھونا چاہیے ۔

مجھے دوستوں نے بتایا ہے کہ مصر کے دیہاتوں میں خواتین چہرے کے پردے کے بغیر محلوں میں کھانا پکاتی ہیں اور گپیں ھانکتی ہیں۔ ملائیشیا اور افریقہ کے حالاتِ بھی اہل علم سے مخفی نہیں۔

یورپ کے اپنے لباس میں اس قدر گنجائش موجود ہے کہ ستر کے تقا ضے پورے ہو سکتے ہیں۔ مسئلہ اسلامی سے زیادہ اخوانی سوچ کا ہے جو تعامل کے بجائے تصادم کے ماحول میں دلچسپی رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس مسئلے میں زیادہ تر عرب فعال ہیں،دوسری قومیتوں کے لوگ نہیں ۔ یہ چند سطور طالب علمانہ تفہیم کے لئے ہیں،۔میں علم فقہ سے بالکل نا بلد ہوں، اھل علم و دانش کی رہنمائی مطلوب ہے،

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے