ٹیڑھی اینٹ

فیصلے واقعات کو جنم دیتے ہیں اور واقعات سے فیصلے جنم لیتے ہیں۔ ان کی غلط یا درست تشریح مزید فیصلوں اور واقعات کا ایسا تسلسل شروع کرتی ہے کہ عمل اور رد عمل بوزن فساد اور رد فسار کا ایک امتناعی سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ اور پھر لوگ غلط یا صحیح کی بحث بھول کر ایک فریق کی مانند حساب برابر کرنے کیلئے دو غلطیوں کے مجموعے کو ایک درست فیصلہ قرار دیتے ہیں۔

پاناما سکینڈل میں بھی کچھ یہی ہوا۔ مختلف ممالک میں اس پر رد عمل کو معیار بنا کر اور پاکستان کی سیاسی تاریخ اور صورتحال کو نظر انداز کر کے ہم نے کوا ہوتے ہوئے ہنس کی ایسی چال چلنے کی کوشش کی کہ اپنی چال بھی بھول بیٹھے۔پاناما سکینڈل کے واقعے نے کچھ ایسے فیصلوں کو جنم دیا کہ ہم نے عدل کی ایک بلند و بالا عمارت کی تعمیر کی بنیاد رکھ دی۔ بد قسمتی سے اس بنیاد کی پہلی اینٹ ہی ٹیڑھی رکھی گئی۔ شاید جگہ ہی ایسی تھی کہ سیدھی اینٹ رکھی ہی نہیں جا سکتی تھی۔ تو پھر اس ٹیڑھی اینٹ والی بنیاد پر عدل و انصاف کی سیدھی عمارت کیسے تعمیر ہو سکتی تھی۔ ایک ٹیڑھی اینٹ پر سیدھی اینٹ رکھ کر عدل کا مینار تعمیر نہیں کیا جا سکتا۔ مگر اب اپنی اپنی بنیادی غلطیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے لازمی ہو گیا ہے کہ ہم مزید غلط فیصلے کریں جس سے جنم لینے والے واقعات کی ذمے داری اپنے اپنے مخالفین پر ڈال دی جائے۔

پاناما کیس میں جو پہلی ٹیڑھی اینٹ رکھی گئی وہ سپریم کورٹ کا اس معاملے کو قابل سماعت قرار دینا تھا۔ باوجود اس کے کہ ایسی ہی درخواستوں کو رجسٹرار آفس سے اس سے پہلے "fvivilous” یعنی فضول یا بے تکی قرار دیا تھا اس مسئلے کو محض اس لیے قابل سماعت اور مفاد عامہ کا معاملہ قرار دیا گیا کہ سیاسی مجبوریوں کا شکار حکمران جماعت کھلے عام اس کے قابل سماعت ہونے کی مخالفت نہیں کر سکتی تھی۔ آخر ایک سیاسی جماعت اتنے بڑے کرپشن سکینڈل کو مفاد عامہ کا معاملہ نہ سمجھنے کا کیا جواز پیش کر سکتی ہے۔ اگر آئس لینڈ کے وزیر اعظم نے استعفٰی دیا بھی تھا تو کسی عدالت کے حکم پر نہیں بلکہ اپنی معاشرتی اور سیاسی اقدار کی ایک تاریخ کے پس منظر میں جسکے لیے صرف مستعفیٰ وزیر اعظم کو ہی نہیں بلکہ اسکے معاشرے اور تاریخ کو بھی کریڈٹ جاتا ہے۔ دوسری طرف ہماری اپنی سیاسی اور فوجی حکومتوں، معاشرے اور عدلیہ کی ایسی کون سی درخشندہ تاریخ ہے کہ جس کی بنیاد پر ہم نواز شریف کے استعفیٰ نہ دینے کو مفاد عامہ کے برخلاف سمجھتے ہوئے عدالتی کاروائی کا آغاز کرتے ہیں؟ اور مختصراً اس کا ذکر کرونگا تو شرمندگی ہو گی۔ اتنا ضرور ہے کہ ہمارے "سیاست دان "آج تک عوام کے ووٹ پر اعتماد کرنے کی بجائے کبھی فوج یا ایمپائر کی انگلی کا انتظار کرتے رہے یا پھر انصاف کے اس ہتھوڑے کا جو محض سیاستدانوں پر چلتا ہے۔

سیاست دانوں پر تو دائرہ اختیار ہے مگر جرنیلوں سے متعلق عدلیہ کے اختیار کے گرد ایک دائرہ ہے۔ پھر بات کرتے ہیں پانچ رکنی بینچ کے طریقہ سماعت کی۔ تقریباً چھ ماہ کی زبردست تحقیقات کے بعد بھی اکثریتی فیصلے میں ایک مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے ذریعے مزید تحقیقات کا فیصلہ کیا گیا۔ دو معزز ججوں کے بھر پور اختلافی نوٹ میں جس طرح وزیر اعظم کا ایک مافیا کے سربراہ کے ایک کردار ” گارڈ فادر” سے موازنہ کیا گیا اس سے تین ججوں نے اتفاق نہیں کیا۔ ایسے اختلافات کی بڑی وجہ بڑی واضح تھی۔ وہ یہ کہ سپریم کورٹ کے پانچ ججوں نے پاناما الزامات کی باقاعدہ تحقیقات کے لیے گواہوں کے بیانات اور دستاویزی شہادتوں کا کبھی اس طرح جائزہ ہی نہیں لیا جس طرح لیا جانا چاہیے تھا۔

شہرت بذریعہ میڈیا کی کشش یا سیاسی کشیدگی کے ماحول کا دباؤ کہیں جو کام ایک عدالتی کمیشن کی تشکیل کے ذریعے ہو سکتا تھا وہ نہیں کیا گیا۔ شاید تحریک انصاف عدلیہ اور مسلم لیگ ن تینوں ہی اس صاف طور پر بے نتیجہ نظر آنے والی کارروائی سے مطمئن تھے۔ کوئی مخالف کی روزانہ میڈیا میں بے عزتی پر نازاں تھا، کوئی اپنا رعب و دبدبہ اور ساکھ قائم کرنے میں لگا تھا تو کوئی اس بات پر خوش تھا کہ کسی کمیشن میں پیش ہونے اور دستاویزی ثبوت دینے کی ہزیمت سے بچ گئے ہیں۔ اسی لیے عدالتی کمیشن نہ بنایا گیا اور ایک اور ٹیڑھی اینٹ رکھ دی گئی۔ جس کے بعد چھ ماہ گزرے اور "تین دو” کا فیصلہ آ گیا۔ ظاہری بات ہے چھ ماہ کی سنسنی خیز سماعت، سخت ریمارکس، احتجاجی سیاست اور عسکری ٹوئیٹوں میں ” انتظار” کے پیغامات کے بعد کسی وزیر اعظم کو بلا ثبوت بری کرنا بھی کسی "انجانے ” خطرے سے خالی نہ ہوتا۔

اور دوسری طرف متفقہ نا اہلی بھی ایک سیاسی بحران کو جنم دے سکتی تھی۔ایسے میں مزید وقت لینے کا واحد ذریعہ مزید تحقیقات ہی رہ گیا تھا۔ ان حالات میں دو نے خوش کر دیا اور تین نے ناراض نہیں کیا۔ مزید تحقیقات کیلئے کسی "عدالتی کمیشن” کے قیام پر سوال اٹھتا کہ یہ کام پہلے دن کیوں نہیں کیا اور چھ ماہ کیوں لگائے گئے۔ تو نیا راستہ ایک نئے نام ” جے آئی ٹی” کے ذریعے نکالا گیا۔ کام تو کمیشن نے بھی ایسے ہی ماہرین کی جھرمٹ میں کرنا تھا تو جناب جے آئی ٹی کے نام پر ایک اور اینٹ سجا دی گئی جسکا زاویہ نچلی اینٹ سے ذرا مختلف ہوتا تو نقشے کے مطابق عمارت کیسے تعمیر ہوتی۔ اب جے آئی ٹی کو بنائے گئے ” عدالتی کمیشن” سے مختلف ظاہر کرنے کے لیے ضروری تھا کہ اس میں شمولیت یا اسکی سربراہی کسی جج کی یا ریٹائرڈجج کی نہ ہو بلکہ ” ہم انصاف کے منتظر ہیں” والی عسکری ٹویٹ کے بعد ” مطلوبہ انصاف ” خود ہی حاصل کرنے کا موقعہ فراہم کیا جائے۔ اب سب فریقین کو کیسے مطمئن کیا جائے۔ آئین کے تحت دائراختیار کا استعمال کرتے ہوئے کسی قانون کا سہارا لینا کوئی بری بات تو نہیں۔ تو جناب جے آئی ٹی میں فوج کے خفیہ اداروں کے نمائندوں کو ملک کی اعلیٰ ترین آئینی عدالت کے حکم پر شامل کر لیا گیا۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ اس جے آئی ٹی میں شامل فوج کے خفیہ ادارے کسی قانون کے تحت قائم نہیں کیے گئے جیسا کہ ایف آئی اے، سٹیٹ بنک آف پاکستان، سکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان اور نیب۔ان تمام اداروں کے قیام کیلئے پارلیمنٹ میں قانون سازی کی گئی اور انکے مقاصد واضح کیے گئے جبکہ ملٹری انٹیلی جنس اور آئی ایس آئی وہ ” محکمے” ہیں جن کیلئے آج تک قانون بنانے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی گئی۔ سول ملٹری توازن یا عدم توازن کی صورتحال سپریم کورٹ کے معزز ججوں سے کبھی پوشیدہ نہیں رہی۔ خاص کر ان فاضل ججوں سے جو لاپتہ افراد کے مقدمات کی سماعت کرتے رہتے ہیں۔

ایسے میں ایسی جے آئی ٹی وہ ٹیڑھی اینٹ تھی جو سیدھی رکھنا شاید ممکن ہی نہ تھا۔ تو جناب ” عمارت بمطابق نقشہ” کے لیے اگلی اینٹ سول اداروں کے نمائندوں کا انتخاب تھا۔ اس بارے میں محض اتنا کہنے کی جسارت کروں گا کہ رجسٹرار کی واٹس ایپ یا فیس ٹائم کالوں کے حوالے سے ابھی تک واضح وضاحت سامنے نہیں آئی۔ یہ معاملہ اتنا سادہ نہیں جتنا نظر آ رہا ہے بعدمیں ہونے والے واقعات جیساکہ حسین نواز کی تصویر لیک ہونا، نہال ہاشمی کی دھمکی آمیز تقریر اور جے آئی ٹی کی سپریم کورٹ سے شکایت کہ سرکار کار سرکار میں مداخلت کر رہی ہے۔

یہ سب تو وہ واقعات ہیں جنہوں نے غلط فیصلوں سے جنم لیا ہے۔ بد قسمتی سے ہماری قوم تاریخ اور واقعات کو یاد رکھتی ہے غلط فیصلوں کو نہیں جو واقعات کا سبب اور نتیجہ بنتے ہیں۔ان سب باتوں کے باوجود یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جب کوئی نادان مگر مسلح مالک مکان مستری کی مہارت سے زیادہ اپنی خواہشات کے مطابق عمارت تعمیر کرنا چاہتا ہے تو بیچارہ مستری بھی ٹیڑھی اینٹیں رکھ کر کام کو اس رفتار سے جاری رکھتا ہے کہ یہ عمارت تعمیر بھی نہ ہو اور مالک کو غصہ بھی نہ آئے۔ مالک کے اپنے ہاتھ سے اینٹ لگانے پر بھی واہ واہ کرنا ضروری ہوتا ہے۔ مستری بیچارہ کرے بھی تو کیا ’’مجبور ہیں اف اللہ کچھ کہہ بھی نہیں سکتے‘‘…

بشکریہ : نوائے وقت

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے