قطر، اخوان اور سعودی عرب

حالیہ دنوں میں سعودی عرب اور اس کے اتحادی خلیجی ممالک کی طرف سے قطر کے ساتھ تعلقات منقطع کرنے کے بارے میں شدید قسم کا ردعمل دیکھنے میں آرہا ہے۔ سعودی عرب نے قطر پر پابندیاں لگانے کے ساتھ ساتھ اخوان کے حوالے سے بھی پابندیاں لگائی ہیں اور اخوان کی خطے میں موجود قیادت کو بھی نشانہ بنایا ہے۔ اس پر بدیہی طور پر پاکستان میں بسنے والے وہ حضرات جو اخوانی فکر کے قریب تر تحریکوں (مثلا جماعت اسلامی) سے وابستہ ہیں’ نہ صرف ناراض ہیں بلکہ سوشل میڈیا کے ذریعے سعودی عرب کو شدید تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ چونکہ سعودی عرب و اتحادی ممالک نے حماس کی لیڈر شپ کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا ہے اس لئے عمومی عوامی تاثر یہ بن رہا ہے کہ سعودی عرب امریکی صدر کے دورے کے فورا بعد اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کے لئے حماس کو نشانہ بنا رہا ہے۔

بین الاقوامی سیاست کے معاملات بہت پیچیدہ اور تہہ دار ہوتے ہیں اور انہیں گھروں میں بیٹھ کر سوشل میڈیا پر آنے والے جھوٹی سچی خبروں سے صحیح طور پر سمجھنا ممکن نہیں۔ پہلے یہ سمجھیں کہ خطے میں کیا ہوتا رہا ہے اور کیا ہورہا ہے؟

[pullquote]مسئلہ کیا ہے اور کون امریکی ایماء پر کھڑا ہے؟[/pullquote]

امریکی صدر کے حالیہ سعودی عرب کے دورے کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ کی غیر معمولی پذیرائی دیکھ کر ہمارے بہت سے دوست ناراض ہوئے اور انہوں نے سعودی پالیسی کے حوالے سے خدشات کا اظہار کرنا شروع کردیا۔ ادھر امریکی صدر کے دورے کا اختتام ہوا اور ساتھ ہی قطر کا قضیہ شروع ہوا تو ان دوستوں نے یہ کہنا شروع کردیا کہ دیکھو ہم نہ کہتے تھے کہ سعودی بادشاہت بک گئی ہے وغیرہ وغیرہ۔

جو لوگ مشرق وسطی کے معاملات پر نظر رکھتے ہیں انہیں خوب معلوم ہے کہ اس خطے میں امریکی مفادات واضح اور بہت گہرے ہیں۔ خطے کا موجودہ جغرافیائی نقشہ استعمار کے منصوبے کا تسلسل ہے اور یہاں موجود قدرتی وسائل کو اپنے قابو میں رکھنا امریکی خارجہ پالیسی کا بنیادی ہدف رہا ہے۔ امریکہ نے روایتی طور پر خلیجی ملکوں کے بارے میں یہ پالیسی رکھی کہ ان کے بارے میں سعودی عرب کی بات کو وزن دیا جاتا تھا اور اس خطے کا بڑا ملک ہونے کے ناطے امریکہ سعودی عرب کے ساتھ قریبی اسٹریٹجک تعلق قائم رکھتا تھا۔ مگر ساتھ ساتھ سعودی عرب کا قابو میں رکھنے کے لئے ایران و اسرائیل کا ہتھیار بھی امریکہ نے ہمیشہ سے اپنے ہاتھ میں رکھا۔ کئی سالوں پر محیط تعلقات کا یہ سلسلہ چلتا رہا اور دونوں طرف کے ممالک اس میں سے اپنے اپنے مفادات کا رس نچوڑتے رہے حتی کہ امریکہ میں اوبامہ برسر اقتدار آئے اور چیزیں تبدیل ہونا شروع ہوگئیں۔

[pullquote]
اوبامہ کا امریکہ’ اخوان اور سعودی عرب[/pullquote]

اوبامہ کے برسر اقتدار آتے ہی سالوں سے اپنے منصوبوں میں جتے ہوئے وہ اخوانی عناصر سرگرم ہوگئے جو عشروں پہلے مشرق وسطی کے مختلف ممالک سے جلاوطنی اختیار کرکے امریکہ مقیم ہوگئے تھے۔ ان میں زیادہ تر وہ لوگ شامل تھے جو مصر’ عراق’ لیبیا، تیونس وغیرہ سے اس وجہ سے بھاگ کر گئے تھے کہ ان ممالک کی حکومتیں ان کے سیاسی نظریات اور جدوجہد کی وجہ سے ان کی درپے تھیں۔ یہ پڑھے لکھے لوگ امریکہ (اور یورپ کے کئی ممالک میں بھی) جا کر مختلف جامعات اور تھنک ٹینکس میں شامل ہوگئے اور رفتہ رفتہ انہوں نے مشرق وسطی کی سیاست پر خود کو اکیڈیمک اتھارٹی کے طور پر منوانا شروع کردیا۔ ان کو اپنے ان نظریاتی دوستوں کی تائید و حمایت حاصل رہی جو پروفیشنل شعبوں سے منسلک تھے اور اس طرح اخوان کی فکر سے وابستہ لوگوں کی امریکی پالیسی حلقوں تک رسائی ممکن ہوئی اور رفتہ رفتہ انہوں نے اپنا اثرونفوذ بڑھانا شروع کردیا۔ یہاں یہ بات پیش نظر رہنی چاہئیے کہ یہ امریکی مارکہ اخوان اپنی فکر کے تفصیل’ حکمت عملی اور ساخت میں عرب اخوان سے بہت دور ہٹ گئے تھے۔ یہ اپنی تشکیل میں ایک ایلیٹ کلاس بن گئی جس کو ڈونیشنز کی مد میں پیسوں کی کمی نہ تھی اور انہوں نے اپنے تئیں یہ کردار متعین کرلیا کہ مشرق وسطی کے جملہ مسائل کا حل ان کے پاس ہے کیونکہ یہ لوگ دنیا کے طاقتور ترین ملک میں رہتے ہیں اور معاملات کو سمجھتے ہیں۔ ان امریکی و یورپی اخوانیوں کو سمجھنا ہو تو "زلمے خلیل زاد” اور "حسین حقانی” کو لمحہ بھر کے لئے ذہن میں لائیں تو پوری بات سمجھ میں آجاتی ہے۔ حسین حقانی اپنی اٹھان میں "اخوانی” فکر کے حامل تھے اور سیاسی سفر طے کرتے کرتے وہاں پہنچے کہ اپنے امریکی آقاوں کو پاکستانی ریاستی اداروں کے خلاف کھڑا کرنے کی کوشش کی اور جب پکڑے گئے تو شرمساری و ندامت کا دور دور تک کوئی نشان بھی نہیں تھا۔ الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے کے مصداق آج بھی یہی کہتے ہیں کہ پاکستان کی ریاست کے "غنڈہ عناصر” کو شکست دینے کے لئے اور حقیقی جمہوریت کے قیام کے لئے امریکی حمایت کے حصول میں کیا بری بات ہے!

امریکی اخوان یہی بات امریکہ کے پالیسی ساز حلقوں میں تسلسل کے ساتھ کرتے رہے کہ امریکہ مشرق وسطی کے بارے میں اپنی پالیسی تبدیل کرے اور جمہوری نظام کو خطے میں بادشاہتوں کے خلاف سپورٹ کرے۔ اس لابی کو اوبامہ حکومت کی شکل میں نعمت غیر مترقبہ حاصل ہوگئی اور اوبامہ کی مشیروں کو امریکی اخوانی لابی نے گھیر لیا۔ اس گھیراؤ میں ان کی مدد امریکہ میں انہی کی طرح برسوں سے مقیم امریکی ایرانی لابی نے بھی کی کہ ان دونوں کا ہدف بنیادی طور پر ایک تھا: مشرق وسطی کی حکومتوں کا کنٹرول اور موجودہ حکومتوں کا خاتمہ!

ایرانی لابی اپنے مقاصد کے لئے یہ آگ لگا رہی تھی اور اخوانی لابی اپنے مفادات کے لئے اس جلتی پر تیل چھڑکتی رہی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ اوبامہ نے مشرق وسطی میں اپنے نام نہاد جمہوریت پروجیکٹ کا آغاز قاہرہ کی تقریر سے کردیا اور اس کے بعد جو خونریزی اور تشدد عرب اسپرنگ کے نام پر پورے خطے میں ہوا وہ سب کے سامنے ہے۔ اس فساد اور قتل و غارت میں امریکی اخوانی پورے طرح امریکہ کے حمایتی و موید رہے۔ خطے کے ملکوں کو ایک ایک کرکے تباہ حال کردیا گیا اور اخوانی حلقے یہ باور کرواتے رہے کہ پاپولر سپورٹ انہیں حاصل ہے اس لئے وہ حالات کو جلد ہی کنٹرول کرکے اوبامہ کو جمہوریت کی بالادستی کے صلے میں دنیا کے سامنے سرخرو کردیں گے۔ مگر حالات روز بروز ان کے ہاتھ سے نکلتے گئے اور مصر’ تیونس’ لیبیا سمیت ہر جگہ مختصر عرصے کی عوامی فلرٹ کے بعد لوگوں نے یہ سمجھ لیا کہ یہ وہ جمہور یت نہیں جس کے حصول کے لئے وہ قربانیاں دیتے رہے تھے۔ مصر میں شدید عوامی ردعمل کے نتیجے میں مرسی کی حکومت کا خاتمہ ہوا تو دنیا یہ جان چکی تھی کہ اخوان کی حکومت غربت کے خاتمے اور معاشرتی انصاف کے بجائے ایک باقاعدہ سازش کے تحت ایران کے ساتھ مل کر گرینڈ گیم کا حصہ بن چکی تھی۔ اخوان کے حقیقی راہنما شائد اس راہ پر کبھی نہ چلتے مگر امریکی اخوانی حلقے تو کچھ اور ہی سوچ چکے تھے۔ ان کی ایک طرف اوبامہ کی ٹیم اور دوسری طرف امریکی ایرانی لابی کے ساتھ کمٹمنٹ تھی کہ اس ساری کشمکش کا رخ خلیجی ریاستوں کی طرف موڑنا ہے کہ اصل وسائل اور دولت تو وہاں موجود تھی!

[pullquote]
اخوان اور سعودی عرب کا جھگڑا؟[/pullquote]

یہ مفروضہ کہ سعودی عرب کی حکومت ہمیشہ سے اخوان دشمن ہے اور آج بھی اخوان کو نیست و نابود کرنا چاہتی ہے کسی بھی طور پر تاریخی حقائق سے مطابقت نہیں رکھتا۔ سعودی عرب سے اگر کسی گروہ اور جماعت نے بحیثیت مجموعی سب سے زیادہ فوائد اٹھائے ہیں تو ان میں اخوان سرفہرست ہیں۔ سعودی اداروں اور جامعات میں اخوانی فکر کے حامل لوگ بھرے پڑے ہیں اور آج بھی رابطہ عالم اسلامی’ ورلڈ اسمبلی آف مسلم یوتھ’ سعودی اغاثہ کی تنظیم وغیرہ کی اعلی قیادت اور دفاتر اخوان کے ہاتھوں میں ہیں۔ حالیہ برسوں میں اخوان کے بارے میں سعودی پالیسی میں سختی کا آغاز شاہ عبداللہ کی حکومت کے آخری دنوں میں ہوا جب سعودی عرب پر اوبامہ انتظامیہ’ اخوان اور ایران کا گٹھ جوڑ واضح ہوگیا۔ مصر میں اخوانی حکومت کے سقوط’ ترکی کے ساتھ تعلقات میں تلخی اور حماس کے بارے میں پالیسی کی تبدیلی کا براہ راست تعلق اس بات سے تھا کہ اخوانی حلقے اوبامہ انتظامیہ کی شہ پر اور ایرانی پالیسی کے تحت خلیجی ممالک کو غیر مستحکم کرنے پر تلے ہوئے تھے۔ شاہ عبداللہ نے اس سازش کو بھانپ کر اخوان کے خلاف واضح لائین لی اور معاملات پہلی مرتبہ باقاعدہ طور پر کھل کر سامنے آئے۔

شاہ عبداللہ کی وفات پر اندرون خانہ جشن منانے والوں میں اخوانی حلقے نمایاں تھے۔ شاہ سلمان کے ابتدائی دن مفاہمت و مصالحت کے دن تھے۔ اخوان کو یہ پیغام دیا گیا کہ سعودی عرب ان کے خلاف کوئی عزائم نہیں رکھتا اگر اخوان اوبامہ کی سرپرستی سے نکل آئیں اور خود کو امریکی اخوانی لابی اور ایرانی اثر سے آزاد کروا لیں۔ اردوان کے خلاف بیان بازی کرنے والے ان اعلی حکام کو بھی خاموش کروایا گیا جو شاہ عبداللہ کے زمانے میں سرگرم تھے۔ مکہ میں رابطہ عالم اسلامی کے ذریعے اخوانی کی قیادت سے از سرنو تعلقات کو استوار کیا گیا۔ مصر کی حکومت کو اخوان کے خلاف کریک ڈاون میں ہاتھ نرم رکھنے کے واضح اشارے کئے گئے۔ الغرض یہ کہ شاہ سلمان کی حکومت نے بھرپور کوشش کی کہ اخوان کی دلجوئی کرکے معاملات کو سنبھالا جائے مگر امریکہ میں بیٹھی اخوانی لابی کو تو خطے پر مکمل کنٹرول سے کم کسی چیز میں دلچسپی نہیں تھی۔

[pullquote]
قطر’ اخوان اور سعودی عرب[/pullquote]

اوبامہ انتظامیہ کی مشرق وسطی و خلیج پالیسی میں قطر کو بڑی نمایاں حیثیت حاصل تھی۔ قطر کو ایک ماڈل مسلم عرب ریاست کے طور پر پیش کرنے کا فیصلہ ہوا جہاں بادشاہت کے ساتھ ساتھ ماڈرن تہذیب کے جملہ عناصر ترکیبی بروئے کار لائے جاسکتے تھے۔ میڈیا کی نام نہاد آزادی’ جدید تعلیمی ادارے’ امریکی طرز کا نصاب تعلیم’ انفراسٹرکچر کی ترقی اور انوسٹمنٹ کی بہتات’ آزادانہ و مخلوط معاشرتی میل جول’ شرعی قوانین کی بالادستی کا عملی خاتمہ اور دیگر بہت سے اقدامات اس تسلسل کے ساتھ قطر میں اٹھائے گئے کہ آنافانا قطر کا ڈنکا پوری دنیا میں بجنے لگا۔ ستم ظریفی یہ کہ قطر جیسے چھوٹے سے ملک کو اس کام کے لئے چنا گیا جس کا ریاستی مذہب ابتداء میں "وہابی اسلام” کے عنوان سے چنا گیا تھا! قطر کے اس فکری کایاکلپ میں سب سے نمایاں کردار اخوانی فکر نے ادا گیا۔ دنیا بھر سے اخوان سے وابستہ اساتذہ اور پروفیشنلز کو باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت قطر کی جامعات و اداروں میں نوکریاں دی گئیں اور قطر کو دیگر خیلجی ریاستوں کے مقابلے میں باقاعدہ کھڑا کیا گیا۔ حیرت کی بات ہے کہ آج جو لوگ سعودی عرب میں امریکی صدر کی پذیرائی پر بھنائے ہوئے ہیں وہ قطر میں گذشتہ چند سالوں کے دوران حیرت انگیز طور پر بڑھتی ہوئی امریکی مداخلت پر مطلقا لاتعلق بنے رہے۔ شیخ یوسف القرضاوی اور دیگر اخوانی لیڈروں کا قطر میں قائم امریکی فوجی اڈے کے بارے میں کوئی ایک احتجاجی و مذمتی بیان دکھا دیجئے؟ اور نہیں تو قطری نظام تعلیم کو مکمل طور پر امریکی طرز پر استوار کرنے کے بارے میں ہی کوئی تنقید سامنے لے آئیں؟ قطر کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے بارے میں کوئی تبصرہ موجود ہو تو بتائیں؟

ظاہر بات ہے کہ اس طرح کی کوئی چیز موجود نہیں کیونکہ یہ سب اس وقت حرام و ناجائز ہے جب ان میں سے کسی جرم کا ارتکاب سعودی حکومت کرے۔ اخوان کے لئے اور ان کے دوستوں کے لئے امریکہ سے تعلق وقت کا تقاضہ اور اسرائیل سے سفارتی تعلقات بھی اسٹریٹجی ہیں جس کے ذریعے فلسطینیوں تک رسائی کا حاصل ہوتی ہے!

قطر نے منافقت کا لبادہ اوڑھ کر خیلجی ریاستوں کو غیر مستحکم کرنے کے لئے اوبامہ کی پالیسی کو اخوان کے ذریعے اور ایران کی تائید سے آگے بڑھانا شروع کردیا۔

[pullquote]
حالیہ تنازعہ کیا ہے؟[/pullquote]

شاہ سلمان کی حکومت نے جو مصالحت کی پالیسی اختیار کی تھی اس کو شدید دھچکا اس وقت لگا جب یمن کی لڑائی میں قطر کا اصل کردار سامنے آنا شروع ہوا۔ اس کے ساتھ ہی بحرین و سعودی عرب کے اندر بھی حزب مخالف کی شخصیات کو قطر سے ہینڈل کرنے کے شواہد سامنے آئے۔ مگر شاہ سلمان کی حکومت کے کوئی نیا محاذ کھولنے کے بجائے حکمت عملی سے معاملات کو دیکھنے کی پالیسی جاری رکھی۔ اس دوران امریکی انتخابات کا سلسلہ شروع ہوا اور مستقبل میں جب کبھی حقائق سامنے آئیں گئے تو پتا چلے گا کہ اوبامہ کی پالیسیوں کے تسلسل کو خطے میں قائم دائم رکھنے کے لئے قطر اور امریکی اخوان نے کیا کیا جتن نہ کئے۔ لابیوں کی فنڈنگ اور پیسے کے ذریعے پالیسی ساز حلقوں کو اپنے زیر اثر لانے کے لئے قطر اور ایران کا کیا کردار رہا اس پر مورخ ضرور قلم اٹھائے گا۔

ڈونلڈ ٹرمپ کی امریکہ میں جیت کے ساتھ ہی سعودی عرب کے نوجوان نائب ولی عہد نے بھانپ لیا کہ ریاستی مفاد کے تحفظ کے لئے قدرت نے ایک موقع فراہم کردیا ہے۔ محمد بن سلمان جو گذشتہ دو برسوں سے معاشی اصلاحات کی وجہ سے سعودی عرب کے اندر بھی پریشر کا شکار تھے اور اپنے سخت فیصلوں کی وجہ سے پہلے جیسی مقبولیت نہیں رکھتے تھے’ انہوں نے نئی امریکی انتظامیہ کی طرف تعاون کا ہاتھ بڑھا دیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنا پہلا غیر ملکی دورہ سعودی عرب کا کیا اور اس کے ساتھ ہی بظاہر امریکہ و سعودی عرب کے تعلقات واپس اس نہج پر جانا شروع ہوگئے جو اوبامہ حکومت نے تبدیل کردیا تھا۔ اس وقت جو تکلیف قطر اور اخوان کو ہورہی ہے اس کا فوری سبب ان کی اس سرمایہ کاری کا ضیاع ہے جو وہ برسوں اوبامہ انتظامیہ پر کرتے رہے اور اس احساس پر خطے کے چودھری بننے کا خواب آنکھوں میں سجائے ہوئے تھے۔

کیا سعودی عرب کو امریکی پالیسی میں بظاہر نظر آنے والی تبدیلی سے فائدہ ہوگا؟ کیا ڈونلڈ ٹرمپ خطے کے ممالک کو آپس میں لڑا کر اپنا مفاد نہیں حاصل کرے گا؟ اخوان کے ساتھ تعلقات کا تناو کہاں تک چلے گا؟ یہ اور اس نوعیت کے متعدد سوالات اپنی جگہ قائم ہیں اور ان کا فوری جواب حاصل کرنا آسان نہیں۔ البتہ یہ طے ہے کہ کم از کم فوری طور پر سعودی عرب کی حکومت نے خطے میں جاری اوبامہ’ اخوان اور ایران کی گرینڈ گیم میں موثر دراڑ ڈال دی ہے۔ امریکہ کی دوستی کی قیمت ظاہر ہے سعودی عرب کو ادا کرنا پڑے گی مگر سعودی حکام کھلے بندوں یہ کہتے ہیں کہ اخوان نے جس طرح آستین کا سانپ بن کر ایرانی عزائم کو اوبامہ کی سرپرستی سے پورا کرنے کی مذموم کوشش کی اس کے بعد جو قیمت وہ ڈونلڈ ٹرمپ کو ادا کرنے جارہے ہیں وہ بہت کم محسوس ہوتی ہے!

حرف آخر یہ کہ ہمارے تجزیئے سے نہ تو سعودی عرب نے اپنے پالیسی تبدیل کرنی ہے اور نہ ہی امریکی اخوان باز آئیں گے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ دنیا بھر میں پھیلے ہوئے اخوانی فکر کے لوگ اس بات پر غور و خوض کریں کہ آخر امریکی اخوان ایران کے ساتھ مل کر حاصل کیا کرنا چاہتے ہیں؟ سعودی حکومت اپنی تمام تر کوتاہیوں کے باوجود عقیدہ توحید کی ترویج اور حرمین کی خدمت کے لئے کوشاں ہے۔ ایسی حکومت کو گرانے کے لئے اپنے کاندھے پیش کرنا اقامت دین کی کون سی صورت ہے؟ اس کا نتیجہ سوائے فساد اور تباہی کے اور کچھ بھی نہیں نکلے گا۔ مصر’ عراق و لیبیا اس کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ سعودی عرب کو بھی یہ باور کروانے کی ضرورت ہے کہ اس کی مخالفت تمام اخوان کے ساتھ نہیں ہے ۔ سعودی عرب ان اخوانی عناصر کے خلاف برسر پیکار ہے جو اوبامہ و ایران کی زلف کے اسیر ہوکر فساد کی راہ پر چل پڑے تھے!

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے