ریمنڈ ڈیوس کی کتاب دی کنٹریکٹرز چھپ کر مارکیٹ میں آ چکی ہے۔ ریمنڈ ڈیوس شاید ان ہزاروں کنٹریکٹرز کی طرح ایک کنٹریکٹر ہوتا ۔ جو جنگ زدہ اور خطرات سے دو چار ملکوں میں امریکیوں کی سیکیورٹی یا ان کی طرف سے جاسوسی کے فرائض کی انجام دہی میں مصروف ہیں۔ لیکن 2011 میں مزنگ چوک فیروز پور روڈ پر دو افراد کو قتل کرنے کی واردات نے اس کے نام اور شخصیت کو پاکستان اور امریکہ سمیت پوری دنیا میں مشہور کر دیا۔
ریمنڈ ڈیوس نے قتل کے اس واقعے ، اپنی گرفتاری ، جیل میں گزرے ہوئے ایام ، پاکستانی پولیس اور انٹیلیجنس ایجنسیوں کی تفتیش اور کردار ، امریکی اداروں اور کرداروں کا پاکستان میں اثر ورسوخ، اور اپنی رہائی کے لئے امریکی سفارت خانے ،آئی ایس آئی اور پاکستانی عدالت کے گٹھ جوڑ کو اس کتاب کا موضوع بنایا ہے۔
ریمنڈ ڈیوس اور اس کی سفارتی حیثیت:
ریمنڈ ڈیوس کون تھا اور اس کی سفارتی حیثیت کیا تھی .اس بارے میں وہ خود تضادات کا شکار نظر آتا ہے ۔ اپنی کتاب میں وہ خود کو پرائیویٹ ملٹری کنٹریکٹر کہتا ہے جن کا کام ایسے ملکوں میں امریکی سٹاف کو تحفظ فراہم کرنا ہے جہاں کے حالات امریکیوں کے لئے دوستانہ نہ ہوں۔ ریمنڈ ڈیوس کے مطابق اس کی سفارتی حیثیت واضح نہ ہونا اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے کی ایک clerical غلطی تھی۔ جس کی وجہ سن 2010 سے 2014 تک امریکیوں کا بڑی تعداد میں روزانہ کی بنیاد پر پاکستان آنا تھا۔ اس وقت پاکستان میں موجود امریکی سفارت کار کیمرون منٹر نے اس کو تسلیم بھی کیا ہے۔
اس وقت امریکی سفارت خانے کی جانب سے جاری ہونے والی میڈیا ریلیزز کے الفاظ نے ریمنڈ کی حیثیت کو مزید متنازعہ بنا دیا۔ 28 جنوری کو اس کو ’’ قونصلیٹ جنرل لاہور کا سٹاف ممبر 29 جنوری کو ’’ایک سفارت کار‘‘ جو اسلام اباد میں امریکی سفارت خانے میں کام کرتا ہے اور 30 جنوری کو ’’ امریکی سفارت خانے کی انتطامیہ کا رکن‘‘ لکھا گیا۔ اگرچہ کیس کے آخر تک اس کا سفارتی سٹیٹس متنازعہ رہا۔ لیکن اس نے اپنی گرفتاری سے لے کر رہائی تک اپنی اس جعلی حیثیت کا خوب استعمال کیا۔ یہاں تک کہ کوٹ لکھپت جیل میں اس نے اپنے فنگر پرنٹس دینے سے انکار کر دیا۔
ریمنڈ ڈیوس نے کتاب میں وضاحت کی کہ ’’اگرچہ شاہ محمود قریشی امریکی حلیف سمجھے جاتے ہیں ۔ لیکن اس کیس کے موقع پر وزیر خارجہ کی حیثیت سے انہوں نے اس وقت صدر پاکستان آصف علی زرداری اور وزیر اعظم پاکستان یوسف رضا گیلانی کے اسرار کے با وجود اپنے’’سخت موقف‘‘ کو چھوڑنے سے انکار کر دیا۔ ا
نہوں نے اپنی پریس کانفرنس میں کہا کہ یہ وقت ہے کہ ہم امریکیوں کے سامنے نہ جھکیں۔ اگر عدالت نے مجھے بلایا تو میں وہی بتاوٗں گا جو سچ ہے‘‘۔
ریمنڈ ڈیوس کی یہ وضاحت بتاتی ہے کہ شاہ محمود قریشی کی وزارت اور پھر پیپلز پارٹی چھوڑنے کا سبب یہ کیس تھا۔
ریمنڈ ڈیوس کیس اور پاکستانی ادارے:
ریمنڈ ڈیوس نے کتاب میں دعوی کیا ہے کہ پولیس اور انٹیلجنس اداروں نے اپنے اپنے طور پر اس سے تفتیش کرنے کی کوشش کی لیکن تفتیش کے غیر معیاری طریقہ کار اور اپنی تربیت اور مضبوط اعصاب کی وجہ سے پاکستانی ادارے ان سے کسی ایک سوال کا جواب بھی لینے میں ناکام رہے۔ اس نے کتاب میں ان اداروں کے تفتیشی افسروں کو اپنے سامنے بے بس اور لاچار ثابت جرنے کی کوشش کی ہے۔ اپنے چودہ دن کے جسمانی ریمانڈ کے آخری دن کا واقعہ کچھ ہوں بیان کرتا ہے۔
’’میرے چودہ دن کے جسمانی ریمانڈ کے دن ختم ہونے والے تھے اور میں سوچ رہا تھا کہ اب مجھ سے سختی سے سوال کئے جائیں گے ۔ لیکن مجھے کبھی بھی کسی قسم کے تشدد کا اذیت کا نشانہ نہیں بنایا گیا۔ وہ تقریبا یہی سوال پوچھتے تھے کہ تم کہاں کام کرتے ہو؟ تمہارا کام کیا ہے؟ اس دن تمہارے پیچھے کون تھا؟ اور میں ہمیشہ جواب دیتا ‘‘میں معافی چاہتا ہوں لیکن میں آپ کے کسی سوال کا جواب نہیں دوں گا‘‘۔ ریمانڈ کے آخری دن مجھے تفتیش کے لئے ایک کمرے میں لے جایا گیا جہاں کمرے کے درمیان میں ایک کرسی رکھی گئی تھی۔
کمرے میں سپرنٹنڈنٹ جیل فاروق، ایک آفیسر کاظمی کے ساتھ ایک اور شخص تھا جس کا چہرہ ایک کپڑے سے ڈھکا ہوا تھا ۔
کمرے میں کچھ اور لوگوں کے ساتھ جو سب سے منفرد شخص موجود تھا ۔ وہ روایتی شلوار قمیض پہنے ہوئے تھا اور اس نے سر پر پگڑی بھی باندھ رکھی تھی جس سے اس نے آنکھوں کے علاوہ پورا چہرہ چھپا رکھا تھا۔ مجھے لگا کہ شاید اس کا تعلق آئی ایس آئی سے ہے‘‘
آفیسر نے مجھے بیٹھنے کے لئے کہا ۔ لیکن میں نے دوبارہ اسے کہا کہ میں آپ کے کسی سوال کا جواب دینے کا پابند نہیں ۔ سفارتکار ہونے کی حیثیت سے مجھے immunity حاصل ہے ۔ میرے اور آفیسرز کے درمیان تکرار بڑھ گئی اور میں واپسی کے دروازے کی طرف جانے لگا تو مجھے پگڑی والے شخص نے اونچی آواز میں کہا کہ تمہیں یہاں سے جانے کی اجازت نہیں ہے ۔
میں نے جواب دیا کہ میں آپ کو نہیں جانتا کہ آپ کون ہو؟ جس شخص کےمنہ پر کپڑا ہے ۔ میں اس کو بھی نہیں جانتا ۔ یہ سننے کے بعد پگڑی والا اپنی کرسی سی چھلانگ لگا کر اٹھتا ہے اور کہتا ہے، ’’ تمہیں یہ جاننے کی ضرورت نہیں ، کہ میں کون ہوں‘‘۔ بحث و تکرار کے بڑھ جانے کے بعد جب مجھ سے کچھ نہ حاصل ہو سکا تو ۔مجھے واپس بھجوا دیا گیا۔
ڈیوس نے کتاب میں بہت سے مقامات پر اداروں کی تفتیش اور طریقہ کار کو تضحیک کا نشانہ بنایا ہے ۔ اور کھلے الفاظ میں لکھا ہے کہ تمام ادارے مل کر بھی مجھ سے ایک لفظ نہ کہلوا سکے۔
ریمنڈ ڈیوس اور عافیہ صدیقی:
ریمنڈ ڈیوس نے بتایا کہ جیل کے ڈاکٹر نے اس کو مشورہ دیا کہ اگر تم آزاد ہونا چاہتے ہو تو اپنے عہدیداروں سے کہو کہ عافیہ صدیقی کے بدلے تمہیں رہا کیا جا سکتا ہے۔ (میرے نزدیک یہ ایک TRAP تھا) ۔ اگلے دن جب سفارت خانے کے اہلکار آئے ۔ تو میں نے ان کو بتا دیا کہ میرے بدلے ایسی کوئی ڈیل قبول نہ کہ جائے۔
ریمنڈ ڈیوس اور اسامہ بن لادن:
دسمبر 2010 میں انٹیلی جنس اداروں کے ذریعے امریکی انتظامیہ کو اسامہ بن لادن کی ایبٹ آباد میں موجودگی کی اطلاع ملی۔ اور اس کے بعد تین آپشنز کے ذریعے بن لادن کو ختم کرنے کا منصوبہ بنایا گیا۔ یہ تین تجاویز یہ تھیں۔
۱: بن لادن کے کمپاوٗنڈ کو بمباری کر کے تباہ کر دیا جائے
۲: کمپاونڈ میں سپیشل فورسز کو اتار کر اسامہ کو ختم کر دیا جائے
۳: پاکستانی اداروں کے ساتھ مل کر کروائی کی جائے۔
غور کے بعد دوسرے آپشن پر اتفاق کیا گیا۔ جب کہ تیسرا آپشن کی ہر ایک نے انفارمیشن لیک ہونے اور اداروں پر اعتماد نہ ہونے کہ وجہ سے سخت مخالفت کی
اس وقت میں کوٹ لکھپت جیل لاہور میں تھا۔ اسامہ بن لادن کے خلاف آپریشن سے پہلے میری رہائی ضروری تھی۔ کیونکہ آپریشن ہونے کے بعد یہ تقریبا ناممکن ہوتا کہ مجھے رہائی ملتی۔
ریمنڈ ڈیوس اور جنرل شجاع پاشا:
اسامہ کے خلاف آپریشن کے معاملے کی وجہ سے ریمند ڈیوس کا معاملہ امریکی انتظامیہ کے لئے مزید اہمیت اختیار کر گیا۔ ’دا کنٹریکٹر’ کے مطابق 23 فروری 2011 کو پاکستانی اور امریکی فوج کے سربراہان جنرل کیانی اور ایڈمرل مائیک ملن کے درمیان عمان میں ایک ٹاپ سیکرٹ ملاقات ہوئی جس میں یہ ایک اہم ایجنڈا تھا کہ عدالتی نظام کے اندر سے کیسے کوئی راستہ نکالا جائے جس سے ڈیوس کو رہائی مل سکے۔
ڈیوس کے مطابق اپنی آخری پیشی پر انہیں ایک امریکی ساتھی پال نے بتایا کہ جج نے ‘عدالت کو شرعی عدالت میں تبدیل کر دیا ہے۔ یہ میرے لئے ایک الارمنگ خبر تھی کیونکہ میرے خیال میں اس کے بعد مجھے سزا سنا کر سنگسار کیا جانا تھا۔
کتاب کے مطابق مقدمے کو شرعی بنیادوں پر ختم کرنے کا منصوبہ جنرل پاشا اور کیمرون منٹر شامل نے بنایا۔ پاکستانی فوج بھی اس سے آگاہ تھی جب کہ صدر زرداری اور نواز شریف کو بھی پیغام پہنچا دیا گیا تھا۔
ڈیوس لکھتے ہیں کہ جنرل پاشا کو صرف دو دن بعد یعنی 18 مارچ کو ریٹائر ہو جانا تھا اس لیے وہ کوشش کر رہے تھے کہ یہ معاملہ کسی طرح نمٹ جائے۔ اور جب یہ معاملہ نمٹا تو ان کی مدتِ ملازمت میں ایک سال کی توسیع کر دی گئی اور مارچ 2011 کی بجائے مارچ 2012 میں ریٹائر ہوئے۔
‘دا کنٹریکٹر’ کے مطابق یہ جنرل پاشا ہی تھے جنھوں نے سخت گیر وکیلِ استغاثہ اسد منظور بٹ کو مقدمے سے الگ کرنے میں اہم کردار ادا کیا جو یہ مقدمہ مفت لڑ رہے تھے
16 جب عدالت کی کارروائی شروع ہوئی تو جج نے آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل پاشا کے علاوہ صحافیوں سمیت تمام غیرمتعلقہ لوگوں کو باہر نکال دیا۔ ۔ڈیوس لکھتے ہیں کہ عدالت کی کارروائی کے دوران جنرل صاحب مسلسل کیمرون منٹر کو لمحہ بہ لمحہ کارروائی کی خبریں موبائل فون پر میسج کر کے بھیج رہے تھے۔
شریعت نے بچا لیا۔
ریمنڈ ڈیوس لکھتے ہیں کہ مجھے جب دیت کا اصول سمجھایا گیا تو پہلے میں نے تھوڑی ججھک دکھائی لیکن پھر سارا معاملہ سفارت خانے کے افراد پر چھوڑ دیا۔ بہرحال سیاسی و مذہبی جماعتوں کے پریشر اور میڈیا کی وجہ سے مقتولین کے عزیزوں نے اسے ماننے سے انکار کر دیا، چنانچہ 14 مارچ کو آئی ایس آئی کے ذریعے ان پر دباوڈالا گیا اور انھوں نے تمام 18 عزیزوں کو کوٹ لکھپت جیل میں بند کر دیا، ان کے گھروں کو تالے لگا دیے گئے اور ان سے موبائل فون بھی لے لیے گئے۔
کتاب میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ جیل میں ان لواحقین کے سامنے دو راستے رکھے گئے: یا تو وہ ایک لاکھ 30 ہزار ڈالر کا خون بہا قبول کریں ورنہ۔۔۔ کتاب میں لکھا ہے کہ عدالتی کارروائی کے دوران ان لواحقین کو عدالت کے باہر گن پوائنٹ پر رکھا گیا اور انھیں کہا گیا کہ وہ میڈیا کے سامنے زبان نہ کھولیں۔
یہ لواحقین ایک ایک کر کے خاموشی سے جج کے سامنے پیش ہوتے، اپنا شناختی کارڈ دکھاتے اور رقم کی رسید لیتے رہے۔
صدر اوبامہ اور ہیلری کلنٹن نے بعد ازاں دعوی کیا کہ یہ امریکہ نے کسی کو پیسے نہیں دئے۔ ڈیوس کہتا ہے کہ تکنیکی اعتبار سے یہ بات درست ہے یہ رقم آئی ایس آئی نے لواحقین کو ادا کی اور بعد ازاں امریکہ نے یہ بل ادا کیا۔
ریمنڈ ڈیوس کی یہ کتاب 2011 میں اس کے کیس کے دوران ہونے والے واقعات کی تصدیق یا تردید کرتی ہے۔ کتاب کی زبان سے اندازہ ہوتا ہے کہ ڈیوس پاکستان کے حوالے سے ایک متعصب شخص ہے جو بار بار امریکی امداد کا ذکر انتہائی رعونت سے کر رہا ہے ۔ جب کہ اس کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ پاکستان نے اس تھوڑی سی امداد کے بدلے کیا قربانیاں دی ہیں۔
ڈیوس کی کتاب ہمارے سیاسی و فوجی حکمرانوں پر امریکی اثر و رسوخ کی تصدیق کرتی ہے ۔ جنرل شجاع پاشا کے کردار سے پتا چلتا ہے کہ کس طرح ایک شخص باہر کی حکومتوں سے ڈیل کر کے ’’جاسوس‘‘ چھڑوا لیتا ہے ۔ اس کتاب نے ہمارے تفتیشی اداروں کے معیار کی قلعی بھی کھول کر رکھ دی۔ ایک مقام پر ایک کرنل کو fixer کا خطاب بھی دیا گیا۔
ڈیوس کی کتاب اس بات کو عیاں کرتی ہے کہ امریکی قومی سلامتی کے معاملات میں ’’بات چیت‘‘ صرف فوجی حکمرانوں سے کرتی ہے ۔ کیا یہ ہمارے سیاست دانوں کی نااہلی ہے یا طاقت کی کمزوری کہ وہ قوم کی تقدیر کا فیصلہ کرنے سے قاصر ہیں ۔
کیا ریمنڈ ڈیوس کی باتوں کو سچ مانا جائے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس کی کتاب نے ہماری معلومات میں کوئی اضافہ نہیں کیا۔ بلکہ جو حقائق موجود تھے ان کی صرف تصدیق کی ہے۔