وزیراعظم سوالات کے اطمینان بخش جوابات دینے میں ناکام:جے آئی ٹی

کراچی: شریف خاندان کے خلاف منی لانڈرنگ الزامات کی تحقیقات کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کے مطابق 15 جون کو اپنی پیشی کے موقع پر وزیراعظم نواز شریف ‘بیشتر سوالات کے اطمینان بخش جوابات’ نہ دے سکے۔

پیر (10 جولائی) کو سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی جے آئی ٹی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ تحقیقاتی ٹیم کے سامنے ‘وزیراعظم ٹال مٹول اور قیاس سے کام لیتے جبکہ تعاون نہ کرتے دکھائی دیئے’۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ ‘دوران انٹرویو وہ زیادہ تر مائل بہ گریز اور خیالات میں محو رہے، ان کے بیان کا زیادہ تر حصہ سنی سنائی بات پر مبنی تھا’۔

وزیراعظم کے بیان پر تحقیقاتی ٹیم کے تجزیے میں مزید کہا گیا کہ وزیراعظم نواز شریف غیرواضح جوابات دے کر ‘بیشتر سوالات کو رد کرتے رہے’ یا حقائق کو چھپانے کے لیے تفصیلات یاد نہ ہونے کا اظہار کرتے رہے۔

جے آئی ٹی کو دیئے گئے بیان میں نواز شریف نے اپنی ابتدائی زندگی، سیاست میں آمد، اور تین دہائیوں پر مشتمل سیاسی کیریئر کے دوران اپنے عہدوں کی تفصیلات بتائیں۔

انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ ان کی ملکیت میں موجود یا انہیں حاصل ہونے والے تمام اثاثہ جات انکم ٹیکس ریٹرنز اور مالی بیانات میں واضح ہیں۔

نواز شریف کا کہنا تھا کہ ‘انکم ٹیکس ریٹرنز اور مالی بیانات میں ظاہر کردہ اثاثہ جات کے علاوہ ان کی ملکیت میں کچھ اور موجود نہیں’۔

تاہم انہوں نے جے آئی ٹی کو آگاہ کیا کہ ابتدائی طور پر وہ اپنے مرحوم والد کی جانب سے پاکستان میں قائم کردہ کمپنیوں کے شیئرہولڈر یا ڈائریکٹر تھے لیکن تقریباً تین دہائیوں سے ‘میں ان میں سے کسی کمپنی کا ڈائریکٹر نہیں ریا اور 1985 کے بعد سے کسی بھی صورت میں ان کمپنیوں کے کاروبار میں فعال کردار ادا نہیں کیا’۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ‘میں 1981 میں وزیر خزانہ بنا، حالانکہ میں کچھ کمپنیوں کا ڈائریکٹر تھا لیکن 1981 کے بعد سے میں کوئی کاروبار نہیں سنبھال رہا، 1998 کے دوران میں نے خود کو کاروبار سے مکمل طور پر علیحدہ کرلیا’۔

نواز شریف کا اپنے بیان میں یہ بھی کہنا تھا کہ ‘کاروبار سے علیحدگی کا مطلب خود کو مینیجمنٹ افعال سے الگ کرنا تھا نہ کہ کمپنی کے مالی مفادات سے، کیونکہ مالی مفادات سے علیحدگی اختیار کرنے کے بعد کیسے گزارا کیا جاسکتا ہے’۔

[pullquote]لندن فلیٹس[/pullquote]
لندن میں موجود جائدادوں کے حوالے سے وزیراعظم نے جے آئی ٹی کو بتایا کہ ‘وہ 1989 اور نوے کی دہائی میں لندن گئے تھے تو ایون فیلڈ اپارٹمنٹس میں قیام کیا تھا، ‘مجھے معلوم تھا کہ حسن اور حسین جو لندن میں تعلیم حاصل کررہے ہیں، وہ ان اپارٹمنٹس میں رہائش پذیر تھے، ان دونوں کے قیام کے تمام اخراجات اس رقم سے پورے ہوتے جو میرے والد انہیں بھجوایا کرتے، میں جانتا ہوں ہم گراؤنڈ رینٹ، سروس چارجز، اور دیگر سہولیات کے پیسے ادا کررہے تھے لیکن مجھے اس بات کا علم نہیں کہ ان فلیٹس کا کرایہ ادا کیا جارہا تھا یا نہیں’۔

انہوں نے مزید کہا کہ ‘ان معاملات کو حسین دیکھتا تھا اور وہ بہتر جانتا ہے، میں یہ جانتا ہوں کہ یہ انتظام شیخ الثانی اور میرے والد نے کیا تھا، تاہم مجھے یہ نہیں پتہ کہ بیئریئر سرٹیفکیٹس کس طرح منتقل ہوئے’۔

وزیراعظم نے جے آئی ٹی کو بتایا کہ انہوں نے اپنی تقاریر میں جب یہ کہا تھا کہ وہ وقت آنے پر تفصیلات بتائیں گے تو ان کی مراد قطری فیملی اور اپنے والد کے درمیان ہونے والی سرمایہ کاری نہیں تھی۔

گارجین میں شائع ہونے والی رپورٹ میں شامل اپنی اہلیہ کے بیان پر نواز شریف کا کہنا تھا ‘میرا جواب یہ ہے کہ کئی دفعہ ایسی باتیں لاعلمی کی وجہ سے کہہ دی جاتی ہیں’۔

خیال رہے کہ غیر ملکی اخبار دی گارجین کی رپورٹ میں نواز شریف کی اہلیہ کے حوالے سے کہا گیا تھا کہ ایون فیلڈ اپارٹمنٹس 2000 میں حسن اور حسن کے لیے خریدے گئے، جب وہ پڑھائی کے لیے لندن میں موجود تھے۔

حسین نواز کی جانے سے دیئے جانے والے بھاری رقم کے تحفے پر ان کا اپنے بیان میں کہنا تھا کہ ‘مجھے اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں لگتی کہ میرے بیٹے حسین نے مجھے رقم تحفے میں بھجوائی جسے میں نے خود پر خرچ کیا یا اپنی بیٹی مریم کو دے دیا، یہ پاکستان آنے والا غیرملکی زرمبادلہ ہے اور رقم باقاعدہ بینکنگ چینلز کے ذریعے بھیجی گئی۔

جے آئی ٹی کی جانب سے پوچھے گئے سوالات اور نواز شریف کے دیئے گئے جوابات کچھ اس طرح تھے۔

سوال: اپنی تقاریر میں آپ نے کہا تھا کہ عزیزیہ اور گلف اسٹیل کا تمام ریکارڈ موجود ہے مگر بعد ازاں سپریم کورٹ میں آپ کے وکیل کا کہنا تھا کہ ایسا کوئی ریکارڈ موجود نہیں، کیا آپ اس تضاد کی وضاحت کرسکتے ہیں؟

جواب: مجھے یقین نہیں، شاید میں نے اسپیکر کو ریکارڈ فراہم کیا ہو، لیکن میں اس حوالے سے یقین سے نہیں کہہ سکتا۔

سوال: آپ نے کہا تھا کہ فریقین 6، 7 اور 8 نے دوران کارروائی گلف اسٹیل اور عزیزیہ کے حوالے سے جو کچھ سپریم کورٹ میں جمع کرایا ہے آپ اس کی حمایت کرتے ہیں۔ کیا آپ نے ذاتی طور پر یہ دیکھا کہ ان فریقین نے سپریم کورٹ میں کیا جمع کرایا ہے یا آپ کی معلومات اہل خانہ کے درمیان ہونے والی بات چیت پر مبنی ہے؟

جواب: میں نے ان کے جمع کرائی چیزیں نہیں دیکھیں، میری معلومات اہل خانہ کے درمیان ہونے والی بات چیت کی بنیاد پر قائم ہے لیکن انہوں نے جو کچھ جمع کرایا ہے میں اس کی توثیق کرتا ہوں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے