گورنر اسٹیٹ بینک اور جمہوری حکومتوں کی کشمکش

لگتا تو ایسا ہے کہ روپے کی قدر کے حوالے سے وفاقی وزیرِ خزانہ اور اسٹیٹ بینک کے مؤقف میں تضاد کے بعد حکومت کو کُل وقتی گورنر اسٹیٹ بینک کی تعیناتی کاخیال آ ہی گیا، اور ہنگامی بنیادوں پر گورنر اسٹیٹ بینک کی تقررّی کے احکامات صدرِ مملکت نے بھی جاری کر دیے۔

مگر طارق باجوہ کا بطور گورنر اسٹیٹ بینک انتخاب اور تقررّی کسی ہنگامی فیصلے اور جلد بازی کا نتیجہ نہیں ہے۔ انہیں گورنر اسٹیٹ بینک تعینات کرنے کے لیے حکومت نے باضابطہ حکمت عملی اپنائی اور ایک سوچی سمجھی اسکیم کے تحت گورنر اشرف محمود وتھرا کا دورانیہ ختم ہونے کے بعد ریاض ریاض الدین کو قائم مقام گورنر اسٹیٹ بینک تعینات کیا گیا تاکہ طارق باجوہ کی ریٹائر منٹ ہو جائے اور انہیں گورنر اسٹیٹ بینک تعینات کیا جاسکے کیوں کہ اسٹیٹ بینک قانون کی شق 10 کی ذیلی شق 10 میں یہ بات واضح طور پر لکھی ہے کہ کوئی بھی حاضر سروس بیورکریٹ گورنر اسٹیٹ بینک تعینات نہیں ہوسکتا۔

طارق باجوہ کے کریئر پر نظر ڈالی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ان کا شمار پنجاب اور وفاق میں برسرِ اقتدار مسلم لیگ ن کا اعتماد رکھنے والے بیوروکریٹس میں ہوتا ہے۔ طارق باجوہ کو صوبہ پنجاب اور وفاق میں ایک کے بعد ایک انتہائی کلیدی عہدوں پر تعینات کیا گیا۔

وہ سال 2010 سے 2013 تک صوبہ پنجاب کے سیکریٹری خزانہ رہے اور اسی عرصے میں خسارے کے شکار بینک آف پنجاب کے ڈائریکٹر بھی رہے۔ سال 2013 میں چیئرمین ایف بی آر مقرر کیے گئے اور بعد ازاں وفاقی سیکریٹری خزانہ تعینات کیے گئے، اور جون 2017 میں اسی عہدے سے ریٹائر ہوئے۔

گورنر اسٹیٹ بینک کا عہدہ پاکستان میں خود مختاری، اختیارات اور خزانوں کی ملکیت کے حوالے سے بہت ہی کلیدی اہمیت کا حامل ہے۔ وزارت خزانہ کے پاس تو صرف فائلیں ہوتی ہیں، ملک کی اصل دولت (زرِ مبادلہ اور سونے کے ذخیرے اور کرنسی نوٹ) اسٹیٹ بینک کے پاس ہی ہوتے ہیں، اس لیے شریف خاندان کو اس کلیدی عہدے پر اپنا معتمدِ خاص لانا تھا۔

اور جیسا کہ طارق باجوہ کے پروفائل سے ظاہر ہے کہ حکمران جماعت مسلم لیگ ن ان پر مالی نظم نسق کے حوالے سے بہت اعتماد کرتی ہے۔ چوں کہ طارق باجوہ کا تعلق ہمیشہ سے خزانہ اور اقتصادیات سے رہا ہے، اس لیے لگتا ہے کہ وہ اسٹیٹ بینک کے گورنر کے طور پر بھی بہتر انداز میں کام کر سکیں گے۔ کم از کم وہ ماضی کے تین چار گورنر اسٹیٹ بینک سے بہتر معاشی منیجر ثابت ہوں گے۔

اسٹیٹ بینک ملکی قوانین کے مطابق ریاست کا ایک خود مختار ادارہ ہے اور اس کے قانون میں ہے کہ وہ حکومتی دباؤ سے آزاد ہو کر ملک میں کام کرے گا اور ملک کے میکرواکنامک اعشاریوں کو بہتر بنائے گا۔

اگر اسٹیٹ بینک اور ملک میں آنے والی جمہوری حکومتوں کے درمیان تعلقات پر نظر ڈالی جائے تو یہ ایک مستقل کشمکش نظر آتی ہے۔ یہ کشمکش پیپلز پارٹی کی گزشتہ حکومت میں زیادہ دیکھی گئی ہے، مگر اس مرتبہ مسلم لیگ ن کے دور حکومت میں بھی اسٹیٹ بینک اور حکومت کے درمیان کھینچا تانی دیکھی گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ متعدد گورنر اسٹیٹ بینک اپنی مدت ملازمت پوری کیے بغیر چھوڑ گئے اور جنہوں نے مدت پوری بھی کی، انہیں دوبارہ اس عہدے پر تعینات نہیں کیا گیا۔

ماضی میں گورنر اسٹیٹ بینک اور حکومت کے درمیان کشمکش کا پہلا واقعہ 1972 میں سقوطِ ڈھاکہ کے فوری بعد کا ہے۔ مگر یہ چپقلش اس سے قبل ہی شروع ہوگئی تھی۔ جنرل یحیٰی خان نے ایوب خان کے بعد مارشل لاء نافذ کیا تو یکم جون 1971 کو شاکر اللہ درانی (تہمینہ درانی کے والد، جو کہ ایس یو درانی کے نام سے مشہور ہوئے) کو گورنر اسٹیٹ بینک مقرر کیا اور وہ اس عہدے پر 22 دسمبر تک فائز رہے۔

سقوطِ ڈھاکہ کے بعد جیسے ہی ذوالفقار علی بھٹو نے اقتدار سنبھالا، تو شاکر اللہ درانی کو گرفتار کر کے جیل میں ڈال دیا گیا۔ پاکستان کی تاریخ میں جیل جانے والے وہ پہلے اور آخری گورنر اسٹیٹ بینک تھے۔ واقفانِ حال کہتے ہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو نے متعدد مرتبہ شاکر اللہ درانی سے کہا تھا کہ وہ اسٹیٹ بینک ڈھاکہ میں موجود اثاثوں کو فوری طور پر مغربی پاکستان منتقل کر دیں، مگر انہوں نے اس عمل سے انکار کر دیا تھا، جس پر شاکر اللہ کو جیل کی ہوا کھانی پڑی۔

گورنر اسٹیٹ بینک سے یہی کشمکش پیپلز پارٹی کے دوسرے دورِ حکومت اور بے نظیر بھٹو کے پہلی مرتبہ وزیر اعظم بننے کے بعد بھی دیکھی گئی۔ 1988 میں 17 اگست کو امتیاز عالم حنفی کو گورنر اسٹیٹ بینک تعینات کیا گیا۔ امیتاز عالم حنفی اسٹیٹ بینک کی تاریخ کے واحد گورنر ہیں جو کہ ادارے میں کام کرتے اور ترقی پاتے ہوئے اس عہدے تک پہنچے تھے۔

وہ قوانین کے مطابق آزاد فیصلے کرتے تھے۔ امتیاز عالم حنفی کی کوئی سیاسی وابستگی نہیں تھی اور ان کا ماضی بھی بہت صاف اور شفاف تھا۔ اسی سال دسمبر میں بے نظیر بھٹو کی پہلی حکومت قائم ہوئی اور جہاں پیپلزپارٹی کی حکومت نے سیاسی محاذ آرائی شروع کی وہیں اس کی اسٹیٹ بینک سے معاشی محاذ آرائی بھی شروع ہوگئی۔ وفاقی حکومت اور اسٹیٹ بینک کے درمیان مانیٹری پالیسی، مالیاتی پالیسی اور پر اختلافات پیدا ہونے شروع ہوگئے۔ انہوں نے پیپلز پارٹی کی پرچی پر بھرتیوں سے بھی انکار کر دیا تھا۔

امتیاز عالم حنفی مہران بینک کا لائسنس دینے میں پس و پیش سے کام لے رہے تھے جس کی وجہ سے گورنر سندھ جام صادق علی سخت ناراض تھے۔ اس حوالے سے کہا جاتا ہے کہ جام صادق اس قدر مضمحل ہوگئے تھے کہ انہوں نے گورنر اسٹیٹ بینک کو ان کے مشیر کے ذریعے دھمکی دلوائی تھی کہ اگر امتیاز عالم مہران بینک کا لائسنس جاری نہیں کرے گا تو جان لے کہ ہمیں اس کے بیٹے کے آنے جانے کے اوقات معلوم ہیں۔ اور کچھ عرصے بعد امتیاز عالم حنفی کے بیٹے کو اغوا ء بھی کرلیا گیا۔

بیٹے کے اغواء کے بعد امتیاز عالم نے فوری طور پر عہدے سے استعفی دے دیا اور قاسم پاریکھ نے گورنر کا عہدہ سنبھال لیا۔ مگر صدر مملکت اسحاق خان نے امتیاز عالم کا استعفیٰ نامنظور کرتے ہوئے انہیں یکم ستمبر 1990 کو دوبارہ گورنر اسٹیٹ بینک تعینات کر دیا اور وہ 30 جون 1993 تک اس عہدے پر فائز رہے۔

یہ دور اسٹیٹ بینک کے لیے نہایت ہی مشکل ثابت ہوا۔ اسٹیٹ بینک اپنی حفاظت کے لیے پولیس پر بھی اعتماد نہیں کرسکتا تھا کیوں کہ پولیس حکومتِ سندھ کے ماتحت تھی، اس لیے اسٹیٹ بینک کی الگ سکیورٹی فورس بنائی گی جبکہ امتیاز عالم حنفی کو بلٹ پروف جیکٹ پہن کر اسٹیٹ بینک آنا ہوتا تھا۔

امتیاز عالم حنفی کے بیٹے کے اغواء اور حکومتی دباؤ کی وجہ سے اسٹیٹ بینک کے افسران اور عملے کا مورال بہت گر چکا تھا۔ اور پاکستان بینکنگ کونسل (موجودہ پاکستان بینکس ایسوسی ایشن) اسٹیٹ بینک پر حاوی ہو گئی تھی اور شرح سود کا تعین اسٹیٹ بینک کے بجائے بینکنگ کونسل کرتی تھی۔ اس کونسل میں قومیائے گئے بینکس شامل تھے۔

اس دوران عالمی مالیاتی فنڈ کے دباؤ پر حکومت کی جانب سے مالیاتی صنعت میں اصلاحات کا عمل شروع کیا گیا اور ڈاکٹر یعقوب کو جولائی 1993 میں بطور گورنر اسٹیٹ بینک تعینات کیا گیا، اور وہ 1999 تک اس عہدے پر فائز رہے۔

اس دوران اسٹیٹ بینک میں اصلاحات کا عمل شروع ہوا۔ واقفانِ حال کہتے ہیں کہ جب ڈاکٹر یعقوب نے عہدہ سنبھالنے کے بعد اپنا تعارفی اجلاس کیا تو اس میں انہوں نے اسٹیٹ بینک کے افسران کو سخت سرزنش کی اور اسٹیٹ بینک کے افسران سر جھکائے بیٹھے رہے۔

ڈاکٹر یعقوب کے بعد گورنر اسٹیٹ بینک کا عہدہ ڈاکٹر عشرت حسین نے سنبھالا اور انہوں نے بھی چھے سال تک اس عہدے پر کام کیا۔ ڈاکٹر عشرت حسین نے اسٹیٹ بینک کو جدید خطوط پر استوار کرنے، اعلیٰ معیار کی افرادی قوت تیار کرنے کے علاوہ انفراسٹرکچر کو بہتر بنانے پر بہت کام کیا۔ انہوں نے رائل بینک آف انڈیا کی پرانی عمارت کو اسٹیٹ بینک میوزیم میں تبدیل کرنے کا عمل شروع کیا، پاکستان کی بینکاری کو جدید بنانے کے لیے متعدد اصلاحات بھی کیں، ہر طرح کے قرضوں کے اجراء کے لیے الگ الگ قوانین لاگو کیے، اور اسلامی بینکاری و مائیکرو فنانس بینکاری کا پاکستان میں آغاز کیا.

ڈاکٹر عشرت حسین کے کارناموں میں سب سے بڑا اور اہم کارنامہ اسٹیٹ بینک کی ویب سائٹ کا اجراء ہے۔ اس ویب سائٹ سے قبل اسٹیٹ بینک کے نوٹیفکیشن اور سرکلرز کی دستیابی بہت مشکل ہوتی تھی۔ اور ایک ایک سرکلر کئی کئی ہزار روپے میں دستیاب ہوتا تھا۔ ڈاکٹر عشرت حسین نے ان تمام سرکلرز، اور نوٹیفیکیشنز کو ویب سائٹ پر ڈال کر عوام اور خصوصآ کاروباری طبقے کی بڑی مشکل کو حل کیا۔

ڈاکٹر عشرت حسین کے لیے جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف نے پیشکش کی کہ انہیں مزید تین سال کے لیے گورنر اسٹیٹ بینک تعینات کردیا جائے، مگر انہوں نے یہ پیشکش قبول کرنے سے انکار کردیا اور اپنی مقررہ مدتِ ملازمت پوری کرنے کے بعد ریٹائر ہوگئے۔

ڈاکٹر عشرت حسین کو مارشل لاء حکومت نے تعینات کیا تھا مگر انہوں نے کھل کر حکومت کی معاشی پالیسیوں پر تنقید کی. اسٹیٹ بینک کی سہ ماہی اور سالانہ رپورٹس اس کی گواہ ہیں۔

اس کے بعد ڈاکٹر شمشاد اختر کو فروری 2006 میں گورنر اسٹیٹ بینک تعینات کیا گیا۔ اس وقت پرویز مشرف کی حکومت تھی۔ جبکہ سال 2008 میں پیپلز پارٹی کی چوتھی حکومت قائم ہوگئی تھی۔ ڈاکٹر شمشاد اختر کو سال 2008 میں شدید ترین بینکاری چیلنجز کا سامنہ کرنا پڑا۔ مانیٹری پالیسی، مالیاتی پالیسی، حکومتی قرضوں، فارن ایکسچینج پالیسی اور سندھ بینک کے لائسنس کے معاملے پر شمشاد اختر اور حکومت کے درمیان اختلاف رہا۔ حکومت کی مالیاتی پالیسی اور اسٹیٹ بینک سے قرضوں پر بھی اسٹیٹ بینک نے شدید اعتراضات اٹھائے اور اس سے دو طرفہ اختلاف بڑھتا ہی گیا۔

شمشاد اختر نے بڑھتی ہوئی مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے لیے بنیادی شرح سود کو بلند ترین سطح پر مقرر کیا۔ وفاقی حکومت نے شمشاد اختر کو زچ کرنے کے لیے ایک بینک کے صدر شوکت ترین کو وفاقی وزیرِ خزانہ مقرر کردیا، مگر شمشاد اختر نے اسٹیٹ بینک کی خود مختاری کو بحال رکھنے میں بھرپور مزاحمت کی۔

پاکستان نے جب طویل عرصے بعد آئی ایم ایف سے قرض لیا تو شوکت ترین نے میڈیا بریفنگ طلب کر لی مگر شمشاد اختر کا کہنا تھا کہ اسٹیٹ بینک کو قرض ملا ہے، اور وہ بھی ادائیگیوں کا توازن برقرار رکھنے کے لیے، اس لیے میڈیا کو بریف بھی وہی کریں گی۔ ذرائع ابلاغ کو اسٹیٹ بینک اور وزارت خزانہ دونوں کے دعوت نامے جاری ہوئے، جس کے بعد فیصلہ ہوا کہ اسٹیٹ بینک میں گورنر اور وزیرِ خزانہ دونوں مشترکہ میڈیا بریفنگ دیں گے۔

ڈاکٹر شمشاد اختر کا آبائی تعلق صدر آصف علی زرداری کے شہر نواب شاہ جو کہ اب بے نظیر آباد ہوگیا ہے سے تھا اور دونوں خاندانوں کے قریبی تعلقات بھی تھے۔اسٹیٹ بینک میں کام کر چکے ایک سینیئر بینکار کے مطابق ڈاکٹر شمشاد اختر کے اقدامات سے نالاں صدر آصف علی زرداری کے عہدے کی پہلی معیاد ختم ہونے کے قریب تھی جب انہوں نے آصف علی زرداری سے قربت بڑھانے کی کوشش کی، اور ایک موقع پر انہوں نے صدر زرداری کو یہ بھی یاد دلایا کہ "زرداری صاحب، آپ کو یاد ہے ہم بچپن میں گھر والوں کے ساتھ آپ کے سنیما میں فلم دیکھنے جاتے تھے۔”

مگر ڈاکٹر شمشاد اختر کی سر توڑ کوششوں کے باوجود انہیں مدت ملازمت میں دوسری مرتبہ توسیع نہیں دی گئی۔

سید سلیم رضا کو پیپلز پاٹی کی حکومت نے 2 جنوری 2009 کو گورنر اسٹیٹ بینک تعینات کیا۔ سلیم رضا اس وقت نیشنل بینک کے صدر علی رضا کے بڑے بھائی اور کراچی کے پہلے کمشنر ہاشم رضا کے بیٹے ہیں۔ سلیم رضا کا مالیاتی صنعت، خصوصآ ڈویلپمنٹ بینکاری میں کوئی تجربہ نہیں تھا، مگر پیپلز پارٹی سے قربت کے باوجود ان کو بھی معاشی نظم ونسق میں حکومت سے اختلاف کا سامنہ کرنا پڑا اور وہ صرف اٹھارہ ماہ اپنے عہدے پر برقرار رہے۔

حکومتی خواہشات کو پورا نہ کرنے پر انہیں بہت مشکل وقت کا سامنا کرنا پڑا اور انہوں نے وفاقی بجٹ سے چند دن قبل 2 جون 2010 کو استعفیٰ دے دیا۔ اسٹیٹ بینک کے سینئر افسران کا کہنا ہے کہ سلیم رضا حکومتی دباؤ اور خواہشات سے سخت پریشان تھے اور اکثر باتوں پر ان کا کہنا تھا کہ اگر حکومتی خواہشات کو تسلیم کر لوں تو مرکزی بینک کی حیثیت ختم ہوجائے گی۔

شاہد حفیظ کاردار پیپلز پارٹی کے تیسرے گورنر اسٹیٹ بینک ثابت ہوئے. ان کی تعیناتی ستمبر 2010 میں ہوئی اور انہوں نے دس ماہ کے اندر اندر عہدہ چھوڑ دیا۔ انہیں بھی حکومتی فرمائشوں اور دباؤ کی وجہ سے اس عہدے سے مستعفی ہونا پڑا۔ شاہد حفیظ کاردار کا کہنا تھا کہ چوں کہ حکومت کی معاشی پالیسی سازی مفلوج ہوکر رہ گئی ہے، اس لیے حکومت کی پالیسیوں سے اختلافات اور بعض ہدایات پر عملدرآمد میں مسائل کی وجہ سے یہ بہتر ہے کہ مستعفی ہو جاؤں۔

یاسین انور، جو کہ ڈپٹی گورنر کے طور پر سال 2007 میں تعینات کیے گئے، اور اس دوران متعدد مرتبہ قائم مقام گورنر اسٹیٹ بینک تعینات ہوئے، پیپلز پارٹی نے متعدد تجربات کے بعد سال 2011 میں انہیں گورنر اسٹیٹ بینک مقرر کردیا۔ بطور گورنر یاسین انور نے پیپلز پارٹی کے بارے میں اسٹیٹ بینک کی کڑی تنقید کو نرم الفاظ میں تبدیل کروانے میں اہم کردار ادا کیا۔ حکومت کی تبدیلی کے بعد بھی انہوں نے مسلم لیگ ن کی حکومت کے ساتھ چلنے کی بھر پور کرشش کی اور بہت سی فرمائشوں کو پورا کرنے کے باوجود سینیٹر اسحاق ڈار کی فرمائش پر انہوں نے استعفیٰ دے دیا، کیوں کہ اسحاق ڈار اپنا گورنر اسٹیٹ بینک لانا چاہتے تھے۔

اشرف محمود وتھرا سینیٹر اسحاق ڈار کے قریبی ساتھی اور دوست تصور کیے جاتے ہیں، مگر ان کا تجربہ اس قدر وسیع نہ تھا کہ انہیں گورنر اسٹیٹ بینک تعینات کیا جاتا۔ میں نے متعدد مرتبہ اشرف محمود وتھرا کا ون آن ون انٹرویو کیا، اکثر پریس کانفرنسوں میں سوالات کیے اور اس کے علاوہ انہیں متعدد فورمز پر بات چیت کرتے ہوئے دیکھا، اور یہ اندازہ لگایا کہ اشرف محمود وتھرا صاحب گورنر اسٹیٹ بینک کی کلیدی اسامی کے لیے اگر نااہل نہیں، تو کوئی بہت موزوں شخصیت بھی نہیں ہیں۔ اور انہیں بنیادی معاشی اعشاریوں کے بارے میں بھی وہ معلومات نہیں جو کہ کسی بھی ڈویلپمنٹ بینکار کو ہونی چاہیئں۔

اشرف محمود وتھرا کے دور میں بنیادی شرح سود تاریخ کی کم ترین سطح پر رہی مگر وہ اس بات کا کریڈٹ اپنے نام کرنے میں بھی ناکام رہے کیوں کہ دو مرتبہ اسٹیٹ بینک کی مانیٹری پالیسی کا اعلان گورنر کے بجائے اسلام آباد میں وزیر خزانہ یا سیکریٹری خزانہ نے کردیا اور کراچی میں صحافی میڈیا بریفنگ کے لیے ہی بیٹھے رہ گئے۔

اشرف محمود وتھرا اپنے دور میں اسٹیٹ بینک کی حیثیت منوانے میں بری طرح ناکام نظر آئے اور یوں محسوس ہوا کہ مانیٹری پالیسی کا تعین اسٹیٹ بینک نہیں، بلکہ وزارتَ خزانہ کر رہی ہے۔

گزشتہ تمام تر گورنرز اور ان کے حکومت سے اختلافات سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ اس کلیدی عہدے پر تعیناتی کے لیے جمہوری حکومتیں ایسے فرد کی تلاش میں رہتی ہیں جن کی موم کی ناک ہو اور ان سے باآسانی ایسے فیصلے کروائے جاسکیں جو کہ معیشت کے لیے بھلے ہی زہر قاتل کیوں نہ ہوں، مگر حکمران جماعت کے لیے سودمند ہوں یا عوامی سطح پر مقبول ہوں۔

طارق باجوہ سے قبل بنائے جانے والے قائم مقام گورنر اسٹیٹ بینک ریاض ریاض الدین اسٹیٹ بینک میں کلیدی عہدوں پر فائز رہ چکے ہیں اور ڈویلپمنٹ بینکاری کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں، اسی لیے انہوں نے روپے کے مقابلے ڈالر کی قدر میں تبدیلی پر اپنا آزاد اور دو ٹوک مؤقف جاری کیا، اور یہ مؤقف انہوں نے وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے بیان کے بعد جاری کیا تھا۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ ریاض ریاض الدین حکومت کی طرف سے آنے والے متوقع ردعمل کے لیے تیار بھی تھے۔

گورنر اسٹیٹ بینک کی ملازمت کو قانونی تحفظ حاصل ہے۔ ایک مرتبہ تقرری کے بعد اس کو عہدے سے کسی انتظامی حکمنامے کے ذریعے ہٹایا نہیں جاسکتا۔ مگر حکومتیں پھر بھی اسٹیٹ بینک کے متعدد گورنرز کو دباؤ کا شکار کر کے عہدے سے ہٹا چکی ہیں، اس لیے یہ بات بھی ضروری ہے کہ اس اسامی کے لیے قابلیت کا معیار مزید بہتر بنایا جائے۔

اس کے علاوہ اسٹیٹ بینک گورنر کی تقرری پارلیمانی کمیٹی کی منظوری سے مشروط کی جائے تاکہ حکومتیں محض اپنے پسندیدہ افراد کو ہی اس کلیدی عہدے پر تعینات نہ کرسکیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے