کوکب جہاں
کراچی
۔ ۔ ۔ ۔
ہم فلمز کے تحت ریلیز ہونے والی فلم بن روئے عید پر ریلیز کی جارہی ہے۔ فلم کی پروڈیوسر مومنہ درید ہیں جبکہ ہدایتکاری مومنہ درید اور شہزاد کاشمیری ہیں۔ فلم کی کہانی فرحت اشتیاق کے ناول بن روئے آنسو پر مبنی ہے۔
فلم کی کہانی محبت کے ایک روایتی مثلث کی ہے۔ جس میں فلم کی ہیروئین صبا (ماہرہ خان) اپنے کزن اور بچپن کے دوست ارتضی سے محبت کرتی ہے اور یقین کرتی ہے کہ ارتضی بھی اس سے اتنی ہی محبت کرتا ہے۔ مگر ارتضی اس وقت صبا کی بہن اور اور چچا کی لے پالک ثمن (ارمینا خان) کی محبت میں گرفتار ہوجاتا ہے جب وہ اپنے کاروبار کے سلسلے میں امریکہ جاتا ہے۔ ارتضی امریکہ سے واپس تو آجاتا ہے مگر دل میں ثمن کی محبت کا بیج بو آتا پے۔
اس فلم میں ایک محبت کے مثلث کے بیچ پنپنے والے تمام جذبات یعنی حسد، نفرت، رقابت، قربانی، صبراور فراق اور وصال جیسے جذبات کی عکاسی کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
گو کہ فلم ایک روایتی کہانی ہے مگر اس کو بہتر ہدایتکاری سے مزید پر اثر بنایا جاسکتا تھا۔ اداکاروں نے اپنے کام سے پورا انصاف کیا ہے مگر بے جان ڈائلاگ، کمزور ہدایتکاری اور ناقص کیمرہ ورک کی وجہ سے اسے اجاگر نہیں کیا جاسکا۔ فلم کے سٹوری بورڈ میں جابجا جھول ہیں۔ مثلا دو گھنٹے کی فلم میں یہ دکھایا ہی نہیں گیا کہ کب ارتضی ثمن کی محبت میں گرفتار ہوا۔ اور کیا ثمن بھی اس کے لئے ویسے ہی جذبات رکھتی ہے۔ لگتا ہے کہ فلم صرف ان ناظرین کو ذہن میں رکھ کر بنائی گئی ہے جنہوں نے فرحت اشتیاق کا ناول بن روئے آنسو پہلے سے پڑھا ہوا ہے۔
فلم کی موسیقی جاندار ہے جس میں بلے بلے، تیرے بنا جینا، اور مولا مولا قابل ذکر ہیں۔ تیرے بنا جینا راحت فتح علی خان اور مولا مولا عابدہ پروین کی آواز میں ریکارڈ کیا گیا ہے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ عابدہ پروین نے پہلی بار کسی فلم کے لئے کوئی گیت گایا ہے۔ فلم کی موسیقی ذیادہ تر شیراز اپل جبکہ گیت نگاری صابر ظفر کی ہے۔ فلم میں ہندوستانی گلو کاروں ریکھا بھردواج اور انکت تیواری کی آواز میں گانے بھی شامل کئے گئے ہیں۔
فلم میں جو کچھ سب سی ذیادہ فلمایا گیا ہے وہ ماہرہ خان ہیں۔ بلا شبہ ماہرہ اس فلم میں بہت خوبصورت دکھائی دے رہی ہیں اور اپنی روایتی اداکاری بھی کررہی۔ گوکہ آرمینا خان کا رول فلم میں مختصر ہے مگر اپنی پہلی فلم لے لحاظ سی ان کی اداکاری نے اچھا تاثر چھوڑا ہے۔
فلم کی دیگر کاسٹ میں جاوید شیخ، ذیبا بختیار، اور جنید خان شامل ہیں۔
فلم کو دیکھنے سے لگتا ہے کہ ایک ٹی وی ڈرامہ بڑی اسکرین پر دیکھا جارہا ہے۔ کیونکہ فلم ٹیلیویژن کے ہدایتکاروں نے بنائی ہے اس لئے ابھی انہیں ٹی وی کی سکرین سے نکل کر فلم کی اسکرین پر توجہ دینی ہوگی اور یہ فن سیکھنا ہوگا کہ چھبیس قسطوں کی کہانی کو کس طرح تین گھنٹوں میں سمویا جاتا ہے ۔ ۔