پاکستان میں ٹیلی کام سیکٹر کے نگران ادارے ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی نے بلیک بیری سروس کو معطل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
پی ٹی اے کے ڈائریکٹر وائرلیس امجد مصطفیٰ ملک کی جانب سے جاری کیے گئے خط میں ٹیلی کمیونیکیش پروٹیکشن ریگیولیشن 2009 اور سیلیولر موبائل لائسنس اینڈ این جی ایم ایس لائسنس کے قانون کا حوالہ دیا گیا ہے۔
پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی نے سروس معطل کرنے کی کوئی وجہ تو بیان نہیں کی لیکن نوٹس میں صرف اتنا کہا گیا ہے کہ سکیورٹی ایجنسی کے شدید خدشات کے باعث یہ قدم اٹھایا گیا ہے۔
پاکستان میں بلیک بیری سروس فراہم کرنے والی سیلولر کمپنیوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ بلیک بیری سروس معطل کرنے کے لیے اپنے اپنے صارفین کو 90 روز کا نوٹس جاری کریں۔
صدر آصف علی زرداری کے دور حکومت میں امریکہ میں متعین سفارت کار حسین حقانی کے میمو گیٹ سکینڈ ل میں بھی بلیک بیری کا ذکر آیا تھا۔
حسین حقانی پر الزام تھا کہ انھوں نے اپنے دوست اور تاجر منصور اعجاز کے بلیک بیری سے امریکی حکام کو ایک پیغام بھیجا تھا جس میں ان سے مدد کے لیے کہا گیا تھا۔
سپریم کورٹ آف پاکستان نے بلیک بیری سروس فراہم کرنے والے ادارے ریسرچ ان موشن سے رکارڈ طلب کیا تھا لیکن ادارے نے رکارڈ فراہم کرنے سے انکار کردیا تھا۔
یاد رہے کہ بلیک بیری کی ای میل اور پیغامات سروس محفوظ بنانے کے لیے انکریپٹڈ ہوتی ہیں۔ جن پر پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کی رسائی نہیں ہے اور یہ سہولت صرف بلیک بیری سروس فراہم کرنے والے ادارے ریسرچ ان موشن کو ہی حاصل ہے۔
واضح رہے کہ پاکستان حکومت نے سنہ 2010 میں وکی لیکس کے ان انکشافات کے بعد سرکاری طور بلیک بیری سروس کے استمعال پر پابندی عائد کردی تھی۔
وکی لیکس نے انکشافات میں کیا تھا کہ امریکہ بلیک بیری سروس کی بھی نگرانی کرتا رہا ہے۔