گزرے زمانوں کی بات ہے
ایک مسافر کو دوران سفر رات ہوگئ۔ رات گزاری کیلئے ایک گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا’ وہ گھر میراثیوں کا تھا۔
انھوں نے مسافر کو پناہ دے دی۔ رات کے دوران مسافر کی گھوڑی نے بچہ (وچھیرا) جن دیا۔
صبح تڑکے جب مسافر شکریہ ادا کر کے رخصت ہونے لگا’ تو میراثیوں نے گھوڑی کے بچے کو روک لیا اور بولے کہ اس کو تم نہیں لے جا سکتے ‘ یہ تو ہماری گائے کا بچھڑا ہے۔
مسافر بہت پریشان ہوا اور بولا "خدا کے بندو! یہ گائے کا بچھڑا نہیں گھوڑی کا بچہ ہے، پر وہ نہ مانے
گاؤں والوں نے بھی مسافر کو اکیلا جان کر میراثیوں کی سائیڈ لی۔
آخر کار فیصلہ گاؤں کے چوہدری کے پاس پہنچا
چوہدری صاحب نے بھی سوچا کہ مسافر تو چلا جائے گا لیکن میراثیوں نے میرے سدا کام آنا ہے
سو انھوں نے گہری سوچ سے چونکتےُہوئے ارشاد فرمایا کہ
میرے دادا مرحوم مرتے وقت مجھے بتا گئے تھے کہ میراثیوں کی گائے جب بچہ جنتی ہے تو وہ وچھیرا( گھوڑی کا بچہ) ہی ہوتا ہے۔
مسافر مایوس ہو کر فقط اپنی گھوڑی کو لے کر اپنی راہ چل پڑا کہ کہیں یہ بھی نہ چھن جائے۔
جب مسافر رخصت ہو گیا تو میراثیوں نے رونا پیٹنا شروع کر دیا
چوہدری نے حیرانی سے پوچھا کہ روتے کیوں ہو
میراثی نے جواب دیا کہ
چوہدری روتے اس لئے ہیں کہ ُتو مر گیا تو تیرے جیسا منصف کہاں سے ڈھونڈیں گے